وہ جو ہم سے بیاں نہیں ہوتے,
لفظ اتنے آساں نہیں ہوتے.
کوئی سمجھے تو بولتے ہیں مگر,
درد اہلِ زباں نہیں ہوتے.
دُشمنی دوستی سے بہتر ہے,
دُشمنی میں گُماں نہیں ہوتے.
ہم سے مِلنا ہے تو پَلٹ جائیں,
بَخُدا ہم یہاں نہیں ہوتے.
فِکر نہ کر،کہ جب تلک ہم ہیں,
غم تیرے بے اماَں نہیں ہوتے.
میرے گھر کے مکِین ہیں سارے,
حادثے بے مکاں نہیں ہوتے.
لوگ لوگوں کی جان لیتے ہیں,
لوگ لوگوں کی جاں نہیں ہوتے.
چھوڑئیے، اب تو مر چُکا وہ شخص,
مُردوں سے بدگُماں نہیں ہوتے.
جانے کیسا آسیب ہے گھر میں,
میرے بچے جواں نہیں ہوتے.
بقصدِ حُرمت صدا نہیں دیتا,
آپ ورنہ کہاں نہیں ہوتے.
عشق گھاٹے کا کاروبار نہیں,
چاہتوں میں زیاں نہیں ہوتے.
غم ہیں خوددار کس قدر میرے,
چہرے سے عیاں نہیں ہوتے.
باتیں دل کی میں دل میں رکھتی ہوں,
کیونکہ دل آتش فشاں نہیں ہوتے.
جن پہ دُنیا تمام ہو جاۓ,
اُن سے آگے جہاں نہیں ہوتے.
Tuesday, July 18, 2017
لفظ اتنے آساں نہیں ہوتے.
تیرا اور میرا رشتہ
تیرا اور میرا رشتہ ایسا ہے
جیسے سَر اور چادر
جیسے گہرے پانی میں گُھور اندھیرا
تِیرا اور میرا رشتہ ایسا ہے
جیسے دو دیواریں
ان دیواروں سے جڑتے بنتے سارے کمرے
ان کمروں میں رہتے سَنگی ساتھی
تیرا اور میرا رشتہ ایسا ہے
جیسے پانی مَچھلی جیسے مَچھلی پانی
جیسے سَات سمندر کے سارے قطرے
مل کر کوئی قِصہ چھیڑیں
کوئی ایسا قِصہ
جسے رَب نے لکھا
تیرا اور میرا رشتہ ایسا ہے
جیسے کوئی سوالی ۔
بس تُجھ کو مانگے
وہ خالی ہاتھ دکھا کر تجھ سے
تجھ کو مانگے ۔۔
جیسے گُتھ مُتھ جنگل
جنگل میں گرتے سارے پتے
جو اک دوجے کے دکھ پر
رونے والے
تیرا اور میرا رشتہ ایسا ہے
جیسے تُو اور سایئں
جیسے مسری میٹھا
جیسے ساری عمر کے تھکتے ٹوٹتے
آخری لمحے
جو تیرے میرے
مجھے ڈھونڈ کے جانا
اور ٹوٹ کے چاھنا
تیرا اور میرا رشتہ ایسا ہے
جیسے کچے دھاگے کی پکی ڈوری
جیسے سَر اور چادر...!❤
-
تعلق ٹوٹتے کب ہیں !
بچھڑنا یہ نہیں ہوتا
کہ کوئی شخص ہم سے دور ہوجائے
دیا بے نور ہو جائے
محبت دوریوں کی کیفیت میں بھی محبت ہے
ارادے ہار جانے سے
سمندر پار جانے سے
تعلق ٹوٹتے کب ہیں
تعلق ٹوٹنا ہو تو
کسی نے روٹھنا ہو تو
ذرا سی دیر لگتی ہے
شجر کوئی
زمیں میں جڑ پکڑنے سے بہت پہلے ہی مر جائے
کدورت دل میں بھر جائے
کوئی حد سے گزر جائے
تو پھر ہونے نہ ہونے سے
کسے کیا فرق پڑتا ہے
محبت کرنے والوں کو جدائی کا کبھی صدمہ نہیں ملتا
سو اب یہ طَے ہوا
دراصل
لا حاصل تعلق ہی جدائی ہے
یہی سچ ہے
ارادے ہار جانے سے
سمندر پار جانے سے
تعلق ٹوٹتے کب ہیں !
وہ گماں گماں سا پیاس سا
وہ گماں گماں سا پیاس سا
کبھی دور سا کبھی پاس سا
کبھی چاندنی میں چھپا ھوا
کبھی خوشبوؤں میں بسا ھوا
کبھی صرف اس کی شباہتیں
کبھی صرف اس کی حکایتیں
کبھی صرف ملنے کے سلسلے
کبھی صرف اس سے ھیں فاصلے
کبھی دور چلتی ھواؤں میں
کبھی مینہ برستی گھٹاؤں میں
کبھی بدگماں ' کبھی مہرباں
کبھی دھوپ ھے کبھی سائباں
کبھی بند دل کی کتاب میں
کبھی لب کشاں وہ خواب میں
کبھی یوں کہ جیسے سوال ھو
کبھی یوں کہ جیسے خیال ھو
کبھی دیکھنے کے ھیں سلسلے
کبھی سوچنے کے ھیں مرحلے
کبھی صرف رنگِ بہار سا
کبھی صرف ایک غبار سا
کبھی دسترس کے قریں قریں
کبھی دور پاس کہیں نہیں
عورت ؛ عشق لطیف
عورت ؛ عشق لطیف
اس نے پوچھا’’شاہ لطیف کون تھا؟‘‘
میں نے کہا ’’دنیا کا پہلا فیمینسٹ شاعر‘‘
اس نے پوچھا ’’کس طرح۔۔۔!؟‘‘
میں نے کہا ’’اس طرح کہ :
وہ جانتا تھا کہ عورت کیا چاہتی ہے؟
اس سوال کا جواب ارسطوبھی نہ دے پایا
اس لیے علامہ اقبال نے کہا تھا:
’’ہزار بار حکیموں نے اس کو سلجھایا
پھر بھی یہ مسئلہ زن رہا وہیں کا وہیں‘‘
دنیا کے سارے دانشور اور شاعر کہتے رہے کہ
’’عورت ایک مسئلہ ہے‘‘
اس حقیقت کا ادراک صرف لطیف کو تھا کہ
’’عورت مسئلہ نہیں
عورت محبت ہے!‘‘
مگر وہ محبت نہیں
جو مرد کرتا ہے!
مرد کے لیے محبت جسم ہے
عورت کے لیے محبت جذبہ ہے
مرد کی محبت جسم کا جال ہے
عورت کی محبت روح کی آزادی ہے
مرد کی محبت مقابلہ ہے
عورت کی محبت عاجزی ہے
مرد کی محبت ایک پل ہے
عورت کی محبت پوری زندگی ہے
مرد کی محبت ایک افسانہ ہے
عورت کی محبت ایک حقیقت ہے!
سارے شعراء شیکسپےئر سے لیکر شیلے تک
اور ہومر سے لیکر ہم تم تک
سب یہ سمجھتے رہے کہ عورت معشوق ہے
صرف شاہ کو معلوم تھا کہ عورت عاشق ہے
اس لیے شاہ لطیف نے لکھا:
’’عورت عشق کی استاد ہے‘‘
سب سوچتے رہے کہ
’’آخر عورت کیا چاہتی ہے؟
تخت؛ بخت اور جسم سخت!؟‘‘
شاہ عبدالطیف کو علم تھا کہ
’’عورت کو محبت چاہیے
نرم و نازک گرم و گداز
جسم سے ماورا
جنس سے آزاد‘‘
مرد جسم میں کے جنگل میں
بھٹکتا ہوا ایک بھوکا درندہ ہے
عورت روح کے چمن میں
اڑتی ہوئی تتلی ہے
جو پیار کی پیاسی ہے
مرد کے لیے محبت بھوک
اور عورت کے لیے پیار
ایک پیاس ہے!
صرف لطیف جانتا تھا
عورت کے ہونٹ ساحل ہیں
اور اس کا وجود ایک سمندر ہے
آنکھوں سے بہتے ہوئے
اشکوں جیسا سمندر
جو نمکین بھی ہے
اور
حسین بھی ہے!!
جس میں تلاطم ہے
جس میں غم ہے
جس میں رنج نہیں
صرف اور صرف الم ہے!!
Sunday, July 16, 2017
ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﮨﺎﺭ ﺑﯿﭩﮭﺎ ﮨﻮﮞ
🌹
ﺑﮩﺖ ﻣﻐﺮﻭﺭ ﭘﮭﺮﺗﺎ ﺗﮭﺎ ، ﺍَﻧﺎ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺭﮨﺘﺎ ﺗﮭﺎ
ﻣﺤﺒﺖ ﮐﻮ ﻓﻘﻂ ﺍِﮎ ﺳﺮﺳﺮﯼ ﺳﺎ ﺳﺎﺗﮫ ﮐﮩﺘﺎ ﺗﮭﺎ
ﻣﮕﻦ ﺗﮭﺎ ﺫﺍﺕ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ
ﮐﺴﯽ ﮐﯽ ﮐﭽﮫ ﺧﺒﺮ ﻧﮧ ﺗﮭﯽ
ﻓﻘﻂ ﺍﭘﻨﮯ ﮨﯽ ﻣﻄﻠﺐ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﯾﮧ ﺳﺐ ﺳﮯ ﻣﻠﺘﺎ ﺗﮭﺎ
ﺍﺳﮯﻣﻌﻠﻮﻡ ﺗﮏ ﻧﮧ ﺗﮭﺎ
ﮐﮧ ﺍِﺱ ﮐﯽ ﺩﮬﮍﮐﻨﯿﮟ ﺩﮬﮍﮐﻦ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺷﻮﺭ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﯿﮟ
ﺍِﺳﮯ ﺑﺎﻭﺭ ﮐﺮﺍﺗﯽ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ " ، ﺍﮮ ﻣﯿﺮﮮ ﺩِﻝِ ﻧﺎﺩﺍﮞ " !"
ﻣﺤﺒﺖ ﻓﺮﺽ ﮨﻮ ﻧﮧ ﮨﻮ،
ﻣﺤﺒﺖ ﻗﺮﺽ ﮨﮯ ﺗﻢ ﭘﺮ،
ﮐﺴﯽ ﺍﻧﺠﺎﻥ ﮨﺴﺘﯽ ﮐﺎ،
ﮐﺴﯽ ﻣﻌﺼﻮﻡ ﺳﮯ ﺩِﻝ ﮐﺎ،
ﺟﺴﮯ ﺗﻢ ﻧﮯ ﭼُﮑﺎﻧﺎ ﮨﮯ،
ﮨﻤﺎﺭﺍ ﺷﻮﺭ ﺭُﮐﻨﮯ ﺗﮏ،
ﮨﻤﺎﺭﮮ ﭼﺎﺭﻭﮞ ﺟﺎﻧﺐ ﺧﺎﻣﺸﯽ ﮐﮯ ﭘﮭﯿﻞ ﺟﺎﻧﮯ ﺗﮏ،
ﺍِﺳﯽ ﺗﮭﻮﮌﮮ ﺳﮯ ﻋﺮﺻﮯ ﻣﯿﮟ، ﺗﻤﮩﯿﮟ ﻗﺮﺿﮧ ﭼﮑﺎﻧﺎ ﮨﮯ !"
ﺑﺎﻵﺧﺮ، ﺩﮬﮍﮐﻨﻮﮞ ﻧﮯ ، ﺍﭘﻨﮯ ﺩِﻝ ﮐﻮ ﺭﺍﻡ ﮐﺮ ﮈﺍﻻ
ﮐﺴﯽ ﺍﻧﺠﺎﻥ ﻟﻤﺤﮯ ﻣﯿﮟ
ﮐﺴﯽ ﺍﻧﺠﺎﻥ ﮨﺴﺘﯽ ﭘﺮ
ﺩِﻝِ ﻣﻐﺮﻭﺭ ﮐﯽ ﺩﮬﮍﮐﻦ ﻧﮯ
ﺍﭘﻨﺎ ﮐﺎﻡ ﮐﺮ ﮈﺍﻻ
ﺑﮩﺖ ﮨﯽ ﺧﺎﻣﺸﯽ ﺳﮯ ﺩِﻝ ﮐﺴﯽ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﮐﺮ ﮈﺍﻻ
ﯾﮧ ﺩِﻝ ﻣﻐﺮﻭﺭ ﮨﮯ ﺍﺏ ﺑﮭﯽ
ﻣﮕﺮ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﭘﺮ
ﯾﮧ ﻣﮩﺮِﯾﺎﺭ ﮐﯽ ﺳﻮﭼﻮﮞ ﭘﮧ ﮨﺮ ﭘﻞ ﺷﺎﺩ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﮯ
ﻣﯿﮟ ﺍِﺱ ﺳﮯ ﺟﺐ ﺑﮭﯽ ﺑﻮﻟﻮﮞ ﺗﻮ ﯾﮧ
ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﯾﮧ ﮨﯽ ﮐﮩﺘﺎ ﮨﮯ !
" ﻣﺤﺒﺖ ﻗﺮﺽ ﺗﮭﯽ ﻣﺠﮫ ﭘﮧ
ﮐﺴﯽ ﭘﮧ ﻭﺍﺭ ﺑﯿﭩﮭﺎ ﮨﻮﮞ
ﻣﺤﺒﺖ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ
ﯾﺎﺭﻡ ! ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﮨﺎﺭ ﺑﯿﭩﮭﺎ ﮨﻮﮞ
ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﮨﺎﺭ ﺑﯿﭩﮭﺎ ﮨﻮﮞ !!!!
ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺩﻭﺭ ﻣﺖ ﺟﺎﻧﺎ
ﮐﮩﺎ ﺗﮭﺎ ﻧﺎﮞ
ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺩﻭﺭ ﻣﺖ ﺟﺎﻧﺎ
ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺩﻭﺭ ﺟﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﺭﻭﺍﺑﻂ ﭨﻮﭦ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﺭﻭﺍﺑﻂ ﭨﻮﭦ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﺗﻮ ﺗﻌﻠﻖ ﭼﮭﻮﭦ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﺗﻌﻠﻖ ﭼﮭﻮﭦ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﺗﻮ ﺑﮩﺖ ﺗﮑﻠﯿﻒ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ
ﺑﮩﺖ ﺗﮑﻠﯿﻒ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ
ﺗﻮ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﺑﮭﯿﮓ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﯿﮟ
ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺗﻮ ﺑﮭﯿﮕﺘﯽ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﺗﮑﻠﯿﻒ ﺩﯾﺘﯽ ﺗﮭﯿﮟ
ﻣﮕﺮ ﺍﺏ ﮐﯿﻮﮞ ﻣﺮﮮ ﺁﻧﺴﻮ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﭘﺎﮔﻞ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﮯ
ﮐﮩﺎ ﺗﮭﺎ ﻧﺎﮞ
ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺩﻭﺭ ﻣﺖ ﺟﺎﻧﺎ
ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺩﻭﺭ ﺟﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﻣٙﺮ ﺗﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎﺗﺎ
ﻣﮕﺮ ﺁﮨﺴﺘﮧ ﺁﮨﺴﺘﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﮩﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺁﻧﺴﻮ ﺑﮭﯽ ﭘﯿﻨﺎ ﺳﯿﮑﮫ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ
ﺍﮐﯿﻼ ﺁﺩﻣﯽ ﺍﮎ ﺭﻭﺯ ﺟﯿﻨﺎ ﺳﯿﮑﮫ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ
ﮐﮩﺎ ﺗﮭﺎ ﻧﺎﮞ
Saturday, July 15, 2017
کوئی بتلائے مجھے
کوئی بتلائے مجھے
میرے ان جاگتے خوابوں کا مقدر کیا ہے؟
میں کہ ہر شے کی بقا جانتا ہوں
اڑتے لمحوں کا پتا جانتا ہوں
سرد اور زرد ستاروں کی تگاپو کیا ہے
رنگ کیا چیز ہے خوشبو کیا ہے
صبح کا سحر ہے کیا، رات کا جادو کیا ہے
اور کیا چیز ہے آواز صبا جانتا ہوں
ریت اور نقش قدم موج کا رم
آنکھ اور گوشۂ لب زلف کا خم
شام اور صبح کا غم
سب کی قسمت ہے فنا جانتا ہوں
پھر بھی یہ خواب مرے ساتھ لگے رہتے ہیں
جاگتے خواب کہ جن کی کوئی تعبیر نہیں
کوئی تفسیر نہیں
صورت زخم ہرے رہتے ہیں
میرے ہاتھوں سے پرے رہتے ہیں
آگہی جہل سے بد تر ٹھہری
جاگتے خواب کی تعبیر مقدر ٹھہری
زندگی میرے لیے گنبد بے در ٹھہری
میں کہ آواز صبا جانتا ہوں
اڑتے لمحوں کا پتا جانتا ہوں
اور ہر شے کی بقا جانتا ہوں
امجد اسلام امجد
تمھارے ساتھ کا اک دن
مہینہ ، دو مہینے ،
سال یا پھر عمر کب درکار ہے مجھ کو
فقط اک دن !
تمھارے ساتھ کا اک دن
طلوعِ فجر کی خوشبو سے لے کر عصر کے سورج کی نرمی تک
مکمل ایک دن
بس ایک دن مل جائے جو مجھ کو
تو میں اس دن کو اپنی زندگی کا آخری دن مان کر ایسے گزاروں گا
کہ تم کو یاد رہ جائے کوئی جیون میں آیا تھا !
(تمھیں عورت سبھی مانیں گے
دیوی کون مانے گا !)
تمھیں معلوم ہے میں چائے کو انکار کرنا جرم کہتا ہوں
تمھیں معلوم ہے کافی مجھے اچھی نہیں لگتی
میں اُس دن چائے کو انکار کر دوں گا
تمھارے سامنے رکھی ہوئی کافی پیوں گا
تم کو دیکھوں گا
کہ تم کو دیکھنا، بینائی کی نا خواندگی کو ختم کرتا ہے
میں اُس دن جان کر تم کو چڑاوں گا
کہ تم غصے سے بولو، بولتی جاو !
اور اُس دن چائے کا بل بھی تمھی دو گی
کہ اُس دن تم نہیں ! مہمان میں ہوں گا !
مجھے معلوم ہے
وہ دن کبھی ملنا نہیں مجھ کو
مجھے معلوم ہے
یہ تین سو پینسٹھ دنوں کا دائرہ پورا نہیں ہونا
مِرے ہر سال مٰیں اک دن ہمیشہ کم رہے گا
تین سو چونسٹھ دنوں کے سال والا آدمی نظمیں کہے گا
کون جانے گا !
کہ یہ نظمیں تو اس غائب شدہ دن میں کہیں لکھی گئی ہیں
جو کسی تقویم کے اندر نہیں لکھا
وہی اک دن
تمھارے ساتھ کا اک دن !!
مجھے تم
مجھے پہلے ہی لگتا تھا
مجھے تم چھوڑ جائو گے
دعا کرتی تھی میں رب سے
میرے خدشوں کو رد کر کے
تمہارے عہد سچ کر دے
مگر دیکھو اے جانِ جاں!
دعا مقبول ہونے کے بھی تو کچھ قاعدے ہیں ناں!
کہ جس میں شرطِ اوّل ہے؛
یقیں دل سے ہو تب مانگو ...
یقیں دل سے اگر نہ ہو
دعا پھر کیسے پوری ہو؟
مگر پھر بھی ہمیشہ ہی
گماں کا آسرا لے کر
دعا کی تار سے میں نے
بہت جوڑا تھا قسمت کو،
دعا۔۔۔ منّت۔۔۔مرادیں۔۔۔استخارہ
سب ہی کر ڈالا
یقیں خود کو نہ دے پائی
گمان و بدگمانی کا یہی انجام ہونا تھا...
میرے خدشے تو سچ نکلے
تمہارے عہد سب جھوٹے...
مجھے پہلے ہی لگتا تھا ..
مجھے تم....😢😢
پہلا سا حال پہلی سی وحشت نہیں رہی
پہلا سا حال پہلی سی وحشت نہیں رہی
شاید کہ تیرے ہجر کی عادت نہیں رہی
شہروں میں ایک شہر میرے رتجگوں کا شہر
کوچے تو کیا دلوں ہی میں وسعت نہیں رہی
لوگوں میں میرے لوگ وہ دلداریوں کے لوگ
بچھڑے تو دور دور تک رقابت نہیں رہی
شاموں میں ایک شام وہ آوارگی کی شام
اب نیم وا دریچوں کی حسرت نہیں رہی
راتوں میں ایک رات میرے گھر کی چاند رات
آنگن کو چاندنی کی ضرورت نہیں رہی
راہوں میں ایک راہ گھر لوٹنے کی راہ
ٹھہرے کسی جگہ وہ طبیعت نہیں رہی
یادوں میں ایک یاد کوئی دل شکن سی یاد
وہ یاد کہاں ہے کہ فرصت نہیں رہی
ناموں میں ایک نام سوال آشنا کا نام
اب دل پہ ایسی کوئی عبارت نہیں رہی
خوابوں میں ایک خواب تیری ہمرہی کا خواب
اب تجھ کو دیکھنے کی بھی فرصت نہیں رہی
رنگوں میں ایک رنگ تیری سادگی کا رنگ
ایسی ہوا چلی کہ وہ رنگت نہیں رہی
باتوں میں ایک بات تیری چاہتوں کی بات
اور اب یہ اتفاق کہ چاہت نہیں رہی
فصلوں میں ایک فصل وہ جاندادگی کی فصل
بادل کو یاں زمیں سے رغبت نہیں رہی
زخموں میں ایک زخم متاع ہنر کا زخم
اب کوئی آرزوئے جراحت نہیں رہی
سناٹا بولتا ہے صدا مت لگا نصیر
آواز رہ گئی ہے سماعت نہیں رہی
نصیر ترابی
ﮐﺴﯽ ﭘﺮ ﻧﻈﻢ ﻟﮑﮭﻨﮯ ﺳﮯ
ﮐﺴﯽ ﭘﺮ ﻧﻈﻢ ﻟﮑﮭﻨﮯ ﺳﮯ
ﮐﻮﺋﯽ ﻣِﻞ ﺗﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎﺗﺎ
ﮐﻮﺋﯽ ﺗﻌﺮﯾﻒ
ﺑﺎﻧﮩﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﺮﺍﺑﺮ ﺗﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﮬﻮﺗﯽ
ﮐﺴﯽ ﺍٓﻭﺍﺯ ﮐﮯ ﭘﺎﻭﮞ
ﮐﺒﮭﯽ ﺩﻝ ﭘﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﻠﺘﮯ
ﮐﺒﮭﯽ ﮐﺸﮑﻮﻝ ﻣﯿﮟ
ﻗﻮﺱ ﻭ ﻗﺰﺡ ﺍُﺗﺮﯼ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﯽ
ﺻﺤﯿﻔﮧ ﺭِﺣﻞ ﭘﺮ ﺭﮐﮭﻨﮯ ﺳﮯ
ﻗﺮﺍٓﮞ ﺗﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻨﺘﺎ
ﮐﺴﯽ ﻧﮯ ﺍٓﺝ ﺗﮏ
ﺷﺎﻋﺮ ﮐﮯ ﺍٓﻧﺴﻮ
ﺧﻮﺩ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﻮﻧﭽﮭﮯ
ﺩﻻﺳﮧ ، ﻟﻔﻆ ﮐﯽ ﺣﺪ ﺗﮏ ﮬﯽ
ﺍﭘﻨﺎ ﮐﺎﻡ ﮐﺮﺗﺎ ﮬﮯ
ﮐﺴﯽ ﺧﻮﺍﮬﺶ ﮐﻮ
ﺳﯿﻨﮯ ﺳﮯ ﻟﮕﺎﻧﮯ
ﮐﯽ ﺍﺟﺎﺯﺕ ﺗﮏ ﻧﮩﯿﮟ ﮬﻮﺗﯽ
ﺗﻤﮭﺎﺭﯼ ﺿﺪ ﮐﻮ ﭘُﻮﺭﺍ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﺩﯾﮑﮭﻮ
ﺳﺘﺎﺭﮮ ، ﭼﺎﻧﺪ، ﺳُﻮﺭﺝ ، ﺭﻭﺷﻨﯽ، ﺧﻮﺷﺒﻮ،
ﺗﻤﮭﺎﺭﮮ ﺩَﺭ ﭘﮧ ﮐﯿﺎ ﮐﯿﺎ ﺩﮬﺮ ﺩﯾﺎ ﺩﯾﮑﮭﻮ
ﮐﻮﺋﯽ ﺧﻮﺷﺒﻮ ﮐﮯ ﮬﻮﻧﭩﻮﮞ ﮐﻮ
ﺑﮭﻼ ﮐﺐ ﭼُﻮﻡ ﺳﮑﺘﺎ ﮬﮯ؟
کوئی تصویر سے باھر نکل سکتا
تو خوابوں کی زمیں رنگوں میں ڈھل جاتی
بدن آنکھوں سے بھر جاتا
نواحِ جسم میں خوشبو کا ھونا
لکھ دیا جاتا
اگر تم مہرباں ھوتے
مرے رستے میں اب اک کوہِ خواھش ھے
مگریہ کوہِ خواھش بھی
مری فریاد سے ھِل تو نہیں جاتا
ﮔُﻞِ ﻓﺮﺩﺍ !!
ﺍﺑﮭﯽ ﮐِﮭﻞ ﺟﺎﻭ ! ﮐﮩﻨﮯ ﺳﮯ
ﮐﻮﺋﯽ ﮐِﮭﻞ ﺗﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎﺗﺎ
ﮐﺴﯽ ﭘﺮ ﻧﻈﻢ ﻟﮑﮭﻨﮯ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﻣِﻞ ﺗﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎﺗﺎ
وه ایک نام !
وه ایک نام !
شفق سے دُور ، ستاروں کی شاہراہ سے دُور
اُداس ہونٹوں پہ جلتے سُلگتے سِینے سے
تمھارا نام کبھی اِس طرح اُبھرتا ہَے
فضا میں
جیسے فرشتوں کے نرم پَر کُھل جائیں
دِلوں سے جَیسے پُرانی کدُورتیں دُھل جائیں
یہ بولتی ہُوئی شب ،
یہ مُہِیب سناٹا !
کہ جیسے تُند گناہوں کے سینکڑوں عفرِیت
بس ایک رات کو دُنیا کے حُکمراں ہو
جائیں
اجل کے غار سے نِکلی ہُوئی گراں رُوحیں
لُہو سے پیاس بُجھا کر کہیں مزاروں میں
نشے کے بوجھ سے چِیخیں ، تو چِیختی رہ جائیں
اِسی جنوں میں ، اِسی آندھیوں کے میلے میں
تمھارا نام کہیں دُور جگمگاتا ہَے
سفید ، دودھ سے شفاف ، عکس سے نازک
اُداس رُوح کی لہروں پہ نرم دیپ جلائے
تمھارے نام سے یادوں کے کاروانوں میں
چمکتی جاگتی چاندی کی گھنٹیوں کی کھنک
کچھ آنسوؤں کی گُھلاوٹ ، کچھ آرزو کی کسک
یہ ایک نام نہ ہوتا تو اِس اندھیرے میں
جہاں سحر کا پتہ ہَے نہ زندگی کا
سُراغ
نہ جانے کِتنے عقیدے ،
نہ جانے کِتنے چراغ
تلاش کرتے
مگر روشنی نہیں مِلتی
ہزار رنگ بِکھرتے ،
ہزار کچے رنگ
جو اَب نصِیب ہَے
وُہ سادگی نہیں مِلتی