Saturday, July 15, 2017

پہلا سا حال پہلی سی وحشت نہیں رہی

پہلا سا حال پہلی سی وحشت نہیں رہی
شاید کہ تیرے ہجر کی عادت نہیں رہی​

شہروں میں ایک شہر میرے رتجگوں کا شہر​
کوچے تو کیا دلوں ہی میں وسعت نہیں رہی​

لوگوں میں میرے لوگ وہ دلداریوں کے لوگ​
بچھڑے تو دور دور تک رقابت نہیں رہی​

شاموں میں ایک شام وہ آوارگی کی شام​
اب نیم وا دریچوں کی حسرت نہیں رہی​

راتوں میں ایک رات میرے گھر کی چاند رات​
آنگن کو چاندنی کی ضرورت نہیں رہی​

راہوں میں ایک راہ گھر لوٹنے کی راہ​
ٹھہرے کسی جگہ وہ طبیعت نہیں رہی​

یادوں میں ایک یاد کوئی دل شکن سی یاد​
وہ یاد کہاں ہے کہ فرصت نہیں رہی​

ناموں میں ایک نام سوال آشنا کا نام​
اب دل پہ ایسی کوئی عبارت نہیں رہی​

خوابوں میں ایک خواب تیری ہمرہی کا خواب​
اب تجھ کو دیکھنے کی بھی فرصت نہیں رہی​

رنگوں میں ایک رنگ تیری سادگی کا رنگ​
ایسی ہوا چلی کہ وہ رنگت نہیں رہی​

باتوں میں ایک بات تیری چاہتوں کی بات​
اور اب یہ اتفاق کہ چاہت نہیں رہی​

فصلوں میں ایک فصل وہ جاندادگی کی فصل​
بادل کو یاں زمیں سے رغبت نہیں رہی​

زخموں میں ایک زخم متاع ہنر کا زخم​
اب کوئی آرزوئے جراحت نہیں رہی​

سناٹا بولتا ہے صدا مت لگا نصیر​
آواز رہ گئی ہے سماعت نہیں رہی​  

نصیر ترابی

No comments:

Post a Comment