Tuesday, May 23, 2017

اپنا اپنا وزن

محلے کی وہ چھوٹی تنگ اور تاریک گلیاں
جن سے دن کی روشنی میں بھی گزرنے کی کبھی کوشش نہ کرتا
اورکوئی جو ڈانٹتا
توپھر انہی میں دوڑ کر جاتا
شکستہ سرد دیواروں سے لگ کر اسطرح روتا
کہ آنکھیں ان کے اندر نصب ہو جاتیں
وہ آنسو چاٹ لیتیں
اور مجھے سرگوشیوں میں ایسے پرنالوں کے بارے میں بتاتیں
جن کے منہ اندر کو ہوتے ہیں
میں دریاؤں کا گھوڑا چھٹی کی گھنٹی کو سن کر دوڑتا
اور دیر سے گھر لوٹتا
پر لوٹتا کہ جانتا تھا
دریا اپنی جیب میں رستوں کی جتنی گرد بھرلے
اس کو بلاخر سمندر میں ہی گرنا ہے
سمندر ، ماں کی بانہوں ، گود کی لہروں میں ہوتا تھا
کبھی جو آستینوں سے نکل کر
نیند کے کچھ سانپ جیسے خواب ڈستے
تو مری ماں دونوں آنکھوں کو لبوں سے ڈھانپ کر کچھ اس طرح سے چومتی
کہ زہر سارا چوس لیتی
ماں کہ جس کی زرد آنکھیں دیکھ کر محسوس ہوتا تھا
گزشتہ خواہشوں کی رد کتابوں میں
کسی نے پھر دعا کےسبز تازہ پھول رکھے ہیں
وہ سنگت ، بیٹھکیں
اور چار مرلے عمر کے رقبے پہ سو ، دو سو کنالوں پر بنے خواہش کے نادیدہ محل
یاروں کی خوشبو سے بھرے دوپہر کے خالی ٹفن
جگنو ، ہوا کی لالٹینیں
شام ، جیسے دن کی میلی چادریں تبدیل کرتی نوکرانی
تتلیوں کو جال میں لے آنے والی آپیوں کی مسکراہٹ
ورد کی پھونکوں کے ہیلمٹ
بھائی کی تھپکی ، دلاسے
(چھاؤں بھی تو پیڑ کا اک پھل ہی ہوتا ہے )
مصلے پر وہ منظر جب مصیبت کی ہوا میں
ابو اپنی بند مٹھی سے دعا کی ریت کوآزاد کرتے
دھیرے دھیرے
اور خدا کی سمت کا اندازہ کرتے
‍‍‍‍‍‍ ‍‍
اچھی لڑکی
وقت کا میزان ایسے فیصلے کر ہی نہیں پاتا
اگر ماضی کے پلڑے میں کوئی رشتہ ہے کوئی یاد ہے منظر ہے کوئی تو
بھلے کتنے نئے رشتے بناؤ
یاد کی تھیلی کو وزنی باٹ سے بھر دو
یا روزانہ نیا منظر بنا کر حال کے پلڑے میں رکھو
اس ترازو کی سوئی ساکن رہے گی
منظروں ، رشتوں ، سبھی یادوں کی اپنی اپنی صورت اپنا اپنا وزن ہوتا ہے
ابھی تم ساتھ ہو
بانہوں میں ہو
لیکن نجانے کب مری شاخوں سے کٹ کر
اجنبی ہاتھوں پہ ان ہاتھوں کا اک پیوند لگ جائے
یہ قلمیں یونہی لگتی ہیں
‍‍‍‍‍‍ ‍‍
سمے اور دوریوں کی خندقوں کے زخم پر وعدوں،ارادوں سے بنی سردائی کا مرہم اثر کرتا نہیں لیکن
کبھی جو گنتیوں کی ریل میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو دیکھو
(جن کو چہرے نوٹ لگتے ہیں
جو ہر چہرے کو لو آنکھوں کی اونچی کر کے اپنے ناخنوں سے کونوں ، کھدروں کو کھرچتے ہیں ، دلوں میں کھوجتے ہیں تار چاندی کا
کہ سچے نوٹ کو ایسے ہی جانچا ، پرکھا جاتا ہے )
تو اپنی نیند کا اک خواب میرے گھر کے دروازے پہ رکھ کر لوٹ جانا
میں روزانہ صبح اپنی دونوں آنکھوں کو وہیں دہلیز پہ دھر کرہی نکلوں گا
گری جیسی سفیدی دل میں لے کر
ناریل جیسے دنوں سے اجنبی میزوں کے ماتھے پھوڑ کر ڈرتا رہوں گا
آسماں کی پٹڑیوں پربھاگتے اتنے ستارے
سارے رشتے ، ساری یادیں سارے منظر روند نہ ڈالیں
تمھارے خواب کا ہونا ضروری ہے
کہ خوابوں ، منظروں ، رشتوں سبھی یادوں کی اپنی اپنی صورت اپنا اپنا وزن ہوتا ہے
(ہمایوں احمد منصور )

خدا وہی ہے

خدا وہی ہے
۔۔
ہزار ناموں کے ساتھ
دنیا میں رہنے والا وہ اجنبی
جو
ہزارہا سال سے یہاں رہ رہا ہے
اور پھر بھی اجنبی ہے
کسی کا شکوہ ہے
کون پہچان پائے اُس کو؟
جب اس کے چہرے ہزار ہیں
اور ہزار چہروں میں کوئی چہرہ بھی
اُس کا اپنا نہیں ہے
اور پھر
ہر ایک رنگ اور روپ میں وہ جُدا جُدا ہے
تو کون جانے کہ وہ خُدا ہے؟
پھر اس کے چہروں میں ایک چہرہ
جو بول سکتا تھا
اور سوالوں کو تول سکتا تھا
مسکرایا
مجھے بتایا
کہ آدمی مچھروں کے،
مکھیوں کے
دیکھنے کو
پرائے دیسوں کی کہکشاؤں کے
چاند تاروں کے ڈھونڈنے کو
ہزار عدسے رگڑ چکا ہے
عجیب ہے یہ خدا کا بندہ
کہ ایک شیشہ
جو اِس کے اپنے وجود میں ہے
جو اس کے ہاتھوں
اور اس کے نطق کریم سے
یعنی اس کے اعمال کی کرن سے
کبھی جو صیقل ہوا تو
اِس نے نگاہِ دِل سے خدا کو دیکھا
خود اپنی آنکھوں سے اُس کو دیکھا
یہ ایک شیشے
اُس ایک عدسے کو
عالم ِ بے ثبات کی
سان پر رگڑتا
اس ایک شیشے کو صاف کرتا
تو اِس کی آنکھوں کے
بھینگے پن کا علاج ہوتا
ہزار چہرے نظر نہ آتے
بس ایک چہرہ دکھائی دیتا
خدا کا چہرہ
خدا وہی ہے

ادریس آزاد

کہو تو لوٹ جاتے ہیں

کہو تو لوٹ جاتے ہیں
    ابھی تو بات لمحوں تک ہے
    سالوں تک نہیں آئی
    ابھی مسکانوں کی نوبت بھی نالوں تک نہیں آئی
    ابھی تو بات لمحوں تک ہے
    سالوں تک نہیں آئی
    ابھی مسکانوں کی نوبت بھی نالوں تک نہیں آئی
    ابھی تو کوئی مجبوری خیالوں تک نہیں آئی
    ابھی تو گرد پیروں تک ہے بالوں تک نہیں آئی
    کہو تو لوٹ جاتے ہیں
    ... چلو اک فیصلہ کرنے شجر کی اور جاتے ہیں
    ابھی کاجل کی ڈوری سرخ گالوں تک نہیں آئی
    زباں دانتوں تلک ہے زہر پیالوں تک نہیں آئی
    ابھی تو مشک کستوری غزالوں تک نہیں آئی
    ابھی روداد بے عنواں
    ہمارے درمیاں ہے، دنیا والوں تک نہیں آئی
    کہو تو لوٹ جاتے ہیں
    ابھی نزدیک ہیں گھر اور منزل دور ہے اپنی
    مبادا نار ہو جائے یہ ہستی نور ہے اپنی
    کہو تو لوٹ جاتے ہیں
    یہ رستہ پیار کا رستہ
    رسن کا دار کا رستہ بہت د شوار ہے جاناں
    کہ اس رستے کا ہر ذرہ بھی اک کہسار ہے جاناں
    کہو تو لوٹ جاتے ہیں
    میرے بارے نہ کچھ سوچو، مجھے طے کرنا آتا ہے
    رسن کا دار کا رستہ
    یہ آسیبوں بھرا رستہ، یہ اندھی غار کا رستہ
    تمہارا نرم و نازک ہاتھ ہو اگر میرے ہاتھوں میں
    تو میں سمجھوں کہ جیسے دو جہاں ہیں میری مٹھی میں
    تمہارا قرب ہو تو مشکلیں کافور ہو جائیں
    یہ اندھے اور کالے راستے پر نور ہو جائیں
    تمہارے گیسوئوں کی چھائوں مل جائے
    تو سورج سے الجھنا بات ہی کیا ہے
    اٹھا لو اپنا سایہ تو میری اوقات ہی کیا ہے
    میرے بارے نہ کچھ سوچو
    تم اپنی بات بتلائو
    کہو تو چلتے رہتے ہیں
    کہو تو لوٹ جاتے ہیں۔۔۔!!

Tuesday, May 16, 2017

ﺭﺍﺳﺘﮯﻣﺴﺪﻭﺩ ﮨﯿﮟ

ﻭﺍﺳﻄﮯ ﻣﺤﺪﻭﺩ ﮨﯿﮟ!
ﺭﺍﺑﻄﮯ ﻣﻔﻘﻮﺩ ﮨﯿﮟ !
ﺭﺍﺳﺘﮯﻣﺴﺪﻭﺩ ﮨﯿﮟ !

ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﭼﻮﺭ ﺭﺳﺘﻮﮞ ﺳﮯ
ﺑﭻ ﺑﭽﺎ ﮐﮯ ﻧﻈﺮﻭﮞ ﺳﮯ
ﺫﮨﻦ ﮐﮯ ﺩﺭﯾﭽﻮﮞ ﺳﮯ
ﺣﺴﺮﺗﻮﮞ ﮐﯽ ﮔﻠﯿﻮﮞ ﺳﮯ
ﺧﻮﺍﮨﺸﻮﮞ ﮐﯽ ﺳﮍﮐﻮﮞ ﺳﮯ

ﺳﻮﭺ ﮐﮯ ﻣُﺤﻠّﻮﮞ ﺳﮯ
ﺩﻝ ... ﻭﮨﺎﮞ ﭘﮧ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ !

ﺍﻭﺭ ﺻﺪﺍﺋﯿﮟ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ
ﺩﺳﺘﮑﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ
ﺩﺭ ﭘﮧ ﺳﺮ ﭘﭩﮑﺘﺎ ﮨﮯ

ﭘﺮ , ﺟﻮﺍﺏ ﻧﮧ ﭘﺎ ﮐﺮ !
ﺗﮭﮏ ﮐﮯ ... ﭨﻮﭦ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ !

ﺭﻭﺯ ﻟﻮﭦ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ
ﺭﺍﺑﻄﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ
ﺭﺍﺳﺘﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻠﺘﺎ
ﻓﺎﺻﻠﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﭩﺘﺎ
ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ .... ﭼﻮﺭ ﺭﺳﺘﮯ ﺳﮯ ...!

ﺭﻭﺯ ﺁﻧﮯ ﺟﺎﻧﮯ ﺳﮯ ...!
ﺩﻝ ، ﻣﮕﺮ ... ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﮑﺘﺎ

ميرﺍ ﺣﺠﺎﺏ ﺣﮑﻢ ﺭﺑﯽ , ﻣﯿﺮﯼ ﺷﺮﻡ ﻭ ﺣﯿﺎ, ﺗﺤﻔﻆ ﺍﻭﺭ ﮈﮬﺎﻝ ﻭَﻟَﺎ ﺗَﺒَﺮَّﺟْﻦَ ﺗَﺒَﺮُّﺝَ ﺍﻟْﺠَﺎﮨِﻠِﯿَّۃً........ ﻣﺠﮭﮯ ﻣﺴﺘﻮﺭ ﺭﮨﻨﮯ ﺩﻭ. ﻣﯿﮟ ﺣﮑﻢ ﺭﺏ ﭘﮧ ﻧﺎﺯﺍﮞ ﮨﻮﮞ, ﻣﺠﮭﮯ ﻣﺴﺮﻭﺭ ﺭﮨﻨﮯ ﺩﻭ ﺭﺩﺍ ﮨﮯ ﯾﮧ ﺗﺤﻔﻆ ﮐﯽ, ﻣﺠﮭﮯ ﻣﺴﺘﻮﺭ ﺭﮨﻨﮯ ﺩﻭ!!!! ..... ﻧﮩﯿﮟ ﻣﺤﺘﺎﺝ ﻣﯿﺮﯼ ﺫﺍﺕ ﻣﺼﻨﻮﻋﯽ ﺳﮩﺎﺭﻭﮞ ﮐﯽ!!!.... ﺣﯿﺎ ﮐﯽ ﭘﺎﺱ ﺩﺍﺭﯼ ﺳﮯ, ﻣﺜﺎﻝ ﺣﻮﺭ ﺭﮨﻨﮯ ﺩﻭ!!!.......... ﻣﺠﮭﮯ ﻣﺴﺘﻮﺭ ﺭﮨﻨﮯ ﺩﻭ ﻣﺜﺎﻝ ﺳﯿﭗ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺗﯽ, ﺭﺏ ﻣﺠﮭﮯ ﻗﯿﻤﺘﯽ ﺳﻤﺠﮭﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﻗﺪﺭ ﺍﻓﺰﺍﺋﯽ ﭘﮧ ﻣﻐﺮﻭﺭ ﺭﮨﻨﮯ ﺩﻭ!!!!!!!...... ﻣﺠﮭﮯ ﻣﺴﺘﻮﺭ ﺭﮨﻨﮯ ﺩﻭ... ﺯﻣﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﻧﻈﺮ ﮔﮩﻨﺎ ﻧﮧ ﺩﮮ ﭘﺎﮐﯿﺰﮔﯽ ﻣﯿﺮﯼ......... ﺣﯿﺎ ﮐﮯ ﻟﻌﻞ ﻭ ﮔﮩﺮ ﺳﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﭘُﺮﻧﻮﺭ ﺭﮨﻨﮯ ﺩﻭ!!!!....... ﻣﺠﮭﮯ ﻣﺴﺘﻮﺭ ﺭﮨﻨﮯ ﺩﻭ... ﺯﻣﺎﻧﮧ ﺧﻠﻖ ﮨﮯ, ﻣﯿﮟ ﺫﺭﯾﻌﮧ ﺗﺨﻠﯿﻖ ﭨﮭﮩﺮﯼ ﮨﻮﮞ!!!...... ﻣﺠﮭﮯ ﺍﺱ ﻣﻨﺼﺐ ﺗﺨﻠﯿﻖ ﭘﮧ ﻣﻌﻤﻮﺭ ﺭﮨﻨﮯ ﺩﻭ!!!........ ﻣﺠﮭﮯ ﻣﺴﺘﻮﺭ ﺭﮨﻨﮯ ﺩﻭ.... ﻣﺮﮮ ﺳﺮ ﭘﺮ ﺟﻮ ﭼﺎﺩﺩ ﮨﮯ, ﻣﺮﮮ ﺍﯾﻤﺎﮞ ﮐﺎ ﺳﺎﯾﮧ!!!...... ﺍﺳﯽ ﺳﺎﺋﮯ ﮐﯽ ﭨﮭﻨﮉﮎ ﺳﮯ ﮨﺮ ﺍﮎ ﻏﻢ ﺩﻭﺭ ﺭﮨﻨﮯ ﺩﻭ!!.. ﻣﺠﮭﮯ ﻣﺴﺘﻮﺭ ﺭﮨﻨﮯ ﺩﻭ.... ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﯾﮟ ﭘﮧ ﺷﯿﺪﺍ ﮨﻮﮞ, ﯾﮧ ﻣﺮﺍ ﺗﺎﺝ ﮨﮯ ﮔﻮﯾﺎ!!!... ﻣﺮﮮ ﺍﺱ ﺩﯾﮟ ﮐﯽ ﮐﺮﻧﻮﮞ ﮐﻮ ﻣﯿﺮﺍ ﻣﻨﺸﻮﺭ ﺭﮨﻨﮯ ﺩﻭ!!.. ﻣﺠﮭﮯ ﻣﺴﺘﻮﺭ ﺭﮨﻨﮯ ﺩﻭ... ﺩﻋﺎ ﮨﮯ ﻧﺎﺯ ﮐﯽ ﺁﻗﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﺍﻣّﺖ ﮐﻮ ﻏﯿﺮﺕ ﺩﮮ!!!!!...... ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﺍﻣﺖ ﮐﺎ ﻣﺮﮐﺰ ﮨﻮﮞ, ﻣﺠﮭﮯ ﻏﯿﻮﺭ ﺭﮨﻨﮯ ﺩﻭ!!.. ﻣﺠﮭﮯ ﻣﺴﺘﻮﺭ ﺭﮨﻨﮯ ﺩﻭ

ميرﺍ ﺣﺠﺎﺏ ﺣﮑﻢ ﺭﺑﯽ , ﻣﯿﺮﯼ
ﺷﺮﻡ ﻭ ﺣﯿﺎ, ﺗﺤﻔﻆ ﺍﻭﺭ ﮈﮬﺎﻝ
ﻭَﻟَﺎ ﺗَﺒَﺮَّﺟْﻦَ ﺗَﺒَﺮُّﺝَ ﺍﻟْﺠَﺎﮨِﻠِﯿَّۃً........
ﻣﺠﮭﮯ ﻣﺴﺘﻮﺭ ﺭﮨﻨﮯ ﺩﻭ.
ﻣﯿﮟ ﺣﮑﻢ ﺭﺏ ﭘﮧ ﻧﺎﺯﺍﮞ ﮨﻮﮞ,
ﻣﺠﮭﮯ ﻣﺴﺮﻭﺭ ﺭﮨﻨﮯ ﺩﻭ
ﺭﺩﺍ ﮨﮯ ﯾﮧ ﺗﺤﻔﻆ ﮐﯽ, ﻣﺠﮭﮯ
ﻣﺴﺘﻮﺭ ﺭﮨﻨﮯ ﺩﻭ!!!! .....
ﻧﮩﯿﮟ ﻣﺤﺘﺎﺝ ﻣﯿﺮﯼ ﺫﺍﺕ
ﻣﺼﻨﻮﻋﯽ ﺳﮩﺎﺭﻭﮞ ﮐﯽ!!!....
ﺣﯿﺎ ﮐﯽ ﭘﺎﺱ ﺩﺍﺭﯼ ﺳﮯ, ﻣﺜﺎﻝ
ﺣﻮﺭ ﺭﮨﻨﮯ ﺩﻭ!!!..........
ﻣﺠﮭﮯ ﻣﺴﺘﻮﺭ ﺭﮨﻨﮯ ﺩﻭ
ﻣﺜﺎﻝ ﺳﯿﭗ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺗﯽ, ﺭﺏ
ﻣﺠﮭﮯ ﻗﯿﻤﺘﯽ ﺳﻤﺠﮭﮯ
ﻣﺠﮭﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﻗﺪﺭ ﺍﻓﺰﺍﺋﯽ ﭘﮧ
ﻣﻐﺮﻭﺭ ﺭﮨﻨﮯ ﺩﻭ!!!!!!!......
ﻣﺠﮭﮯ ﻣﺴﺘﻮﺭ ﺭﮨﻨﮯ ﺩﻭ...
ﺯﻣﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﻧﻈﺮ ﮔﮩﻨﺎ ﻧﮧ ﺩﮮ
ﭘﺎﮐﯿﺰﮔﯽ ﻣﯿﺮﯼ.........
ﺣﯿﺎ ﮐﮯ ﻟﻌﻞ ﻭ ﮔﮩﺮ ﺳﮯ ﻣﺠﮭﮯ
ﭘُﺮﻧﻮﺭ ﺭﮨﻨﮯ ﺩﻭ!!!!.......
ﻣﺠﮭﮯ ﻣﺴﺘﻮﺭ ﺭﮨﻨﮯ ﺩﻭ...
ﺯﻣﺎﻧﮧ ﺧﻠﻖ ﮨﮯ, ﻣﯿﮟ ﺫﺭﯾﻌﮧ
ﺗﺨﻠﯿﻖ ﭨﮭﮩﺮﯼ ﮨﻮﮞ!!!......
ﻣﺠﮭﮯ ﺍﺱ ﻣﻨﺼﺐ ﺗﺨﻠﯿﻖ ﭘﮧ
ﻣﻌﻤﻮﺭ ﺭﮨﻨﮯ ﺩﻭ!!!........
ﻣﺠﮭﮯ ﻣﺴﺘﻮﺭ ﺭﮨﻨﮯ ﺩﻭ....
ﻣﺮﮮ ﺳﺮ ﭘﺮ ﺟﻮ ﭼﺎﺩﺩ ﮨﮯ, ﻣﺮﮮ
ﺍﯾﻤﺎﮞ ﮐﺎ ﺳﺎﯾﮧ!!!......
ﺍﺳﯽ ﺳﺎﺋﮯ ﮐﯽ ﭨﮭﻨﮉﮎ ﺳﮯ ﮨﺮ
ﺍﮎ ﻏﻢ ﺩﻭﺭ ﺭﮨﻨﮯ ﺩﻭ!!..
ﻣﺠﮭﮯ ﻣﺴﺘﻮﺭ ﺭﮨﻨﮯ ﺩﻭ....
ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﯾﮟ ﭘﮧ ﺷﯿﺪﺍ ﮨﻮﮞ, ﯾﮧ
ﻣﺮﺍ ﺗﺎﺝ ﮨﮯ ﮔﻮﯾﺎ!!!...
ﻣﺮﮮ ﺍﺱ ﺩﯾﮟ ﮐﯽ ﮐﺮﻧﻮﮞ ﮐﻮ
ﻣﯿﺮﺍ ﻣﻨﺸﻮﺭ ﺭﮨﻨﮯ ﺩﻭ!!..
ﻣﺠﮭﮯ ﻣﺴﺘﻮﺭ ﺭﮨﻨﮯ ﺩﻭ...
ﺩﻋﺎ ﮨﮯ ﻧﺎﺯ ﮐﯽ ﺁﻗﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﺍﻣّﺖ
ﮐﻮ ﻏﯿﺮﺕ ﺩﮮ!!!!!......
ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﺍﻣﺖ ﮐﺎ ﻣﺮﮐﺰ ﮨﻮﮞ,
ﻣﺠﮭﮯ ﻏﯿﻮﺭ ﺭﮨﻨﮯ ﺩﻭ!!..
ﻣﺠﮭﮯ ﻣﺴﺘﻮﺭ ﺭﮨﻨﮯ ﺩﻭ

چاند کی پھيکی جھالر ميں

جب چاند کى پھيکی جھالر ميں..
اک روشن تاره دکهتا ہو..
جب ريت كے ذرے زرے ميں ..
کوئی نام ادهورا لکھتا ہو..
جب کالى چادر اھوڑ ے وہ..
کسی درگاہ پہ کبھی رکتا ہو..
جب خالی خالی نظروں سے..
رنگوں پہ انگلی رکھتا ہو____!!
تم ايسے شخص کی سنگت ميں..
سورج کی اجلی رنگت ميں..
اک منت مانگ کے دريا ميں..
دو بوند بہانا چاندی کے..
اک پھول کھلے گا پانی ميں..
کوئ راز کھلے گا سينے میں____!!
جب مڑ کے دنيا ديکھو گے..
وہ شخص کہیں کھو جاے گا..
کھيں چاند کی پھيکی جھالر ميں..
کھيں ريت کے ذرے ذرے ميں..