Tuesday, May 23, 2017

اپنا اپنا وزن

محلے کی وہ چھوٹی تنگ اور تاریک گلیاں
جن سے دن کی روشنی میں بھی گزرنے کی کبھی کوشش نہ کرتا
اورکوئی جو ڈانٹتا
توپھر انہی میں دوڑ کر جاتا
شکستہ سرد دیواروں سے لگ کر اسطرح روتا
کہ آنکھیں ان کے اندر نصب ہو جاتیں
وہ آنسو چاٹ لیتیں
اور مجھے سرگوشیوں میں ایسے پرنالوں کے بارے میں بتاتیں
جن کے منہ اندر کو ہوتے ہیں
میں دریاؤں کا گھوڑا چھٹی کی گھنٹی کو سن کر دوڑتا
اور دیر سے گھر لوٹتا
پر لوٹتا کہ جانتا تھا
دریا اپنی جیب میں رستوں کی جتنی گرد بھرلے
اس کو بلاخر سمندر میں ہی گرنا ہے
سمندر ، ماں کی بانہوں ، گود کی لہروں میں ہوتا تھا
کبھی جو آستینوں سے نکل کر
نیند کے کچھ سانپ جیسے خواب ڈستے
تو مری ماں دونوں آنکھوں کو لبوں سے ڈھانپ کر کچھ اس طرح سے چومتی
کہ زہر سارا چوس لیتی
ماں کہ جس کی زرد آنکھیں دیکھ کر محسوس ہوتا تھا
گزشتہ خواہشوں کی رد کتابوں میں
کسی نے پھر دعا کےسبز تازہ پھول رکھے ہیں
وہ سنگت ، بیٹھکیں
اور چار مرلے عمر کے رقبے پہ سو ، دو سو کنالوں پر بنے خواہش کے نادیدہ محل
یاروں کی خوشبو سے بھرے دوپہر کے خالی ٹفن
جگنو ، ہوا کی لالٹینیں
شام ، جیسے دن کی میلی چادریں تبدیل کرتی نوکرانی
تتلیوں کو جال میں لے آنے والی آپیوں کی مسکراہٹ
ورد کی پھونکوں کے ہیلمٹ
بھائی کی تھپکی ، دلاسے
(چھاؤں بھی تو پیڑ کا اک پھل ہی ہوتا ہے )
مصلے پر وہ منظر جب مصیبت کی ہوا میں
ابو اپنی بند مٹھی سے دعا کی ریت کوآزاد کرتے
دھیرے دھیرے
اور خدا کی سمت کا اندازہ کرتے
‍‍‍‍‍‍ ‍‍
اچھی لڑکی
وقت کا میزان ایسے فیصلے کر ہی نہیں پاتا
اگر ماضی کے پلڑے میں کوئی رشتہ ہے کوئی یاد ہے منظر ہے کوئی تو
بھلے کتنے نئے رشتے بناؤ
یاد کی تھیلی کو وزنی باٹ سے بھر دو
یا روزانہ نیا منظر بنا کر حال کے پلڑے میں رکھو
اس ترازو کی سوئی ساکن رہے گی
منظروں ، رشتوں ، سبھی یادوں کی اپنی اپنی صورت اپنا اپنا وزن ہوتا ہے
ابھی تم ساتھ ہو
بانہوں میں ہو
لیکن نجانے کب مری شاخوں سے کٹ کر
اجنبی ہاتھوں پہ ان ہاتھوں کا اک پیوند لگ جائے
یہ قلمیں یونہی لگتی ہیں
‍‍‍‍‍‍ ‍‍
سمے اور دوریوں کی خندقوں کے زخم پر وعدوں،ارادوں سے بنی سردائی کا مرہم اثر کرتا نہیں لیکن
کبھی جو گنتیوں کی ریل میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو دیکھو
(جن کو چہرے نوٹ لگتے ہیں
جو ہر چہرے کو لو آنکھوں کی اونچی کر کے اپنے ناخنوں سے کونوں ، کھدروں کو کھرچتے ہیں ، دلوں میں کھوجتے ہیں تار چاندی کا
کہ سچے نوٹ کو ایسے ہی جانچا ، پرکھا جاتا ہے )
تو اپنی نیند کا اک خواب میرے گھر کے دروازے پہ رکھ کر لوٹ جانا
میں روزانہ صبح اپنی دونوں آنکھوں کو وہیں دہلیز پہ دھر کرہی نکلوں گا
گری جیسی سفیدی دل میں لے کر
ناریل جیسے دنوں سے اجنبی میزوں کے ماتھے پھوڑ کر ڈرتا رہوں گا
آسماں کی پٹڑیوں پربھاگتے اتنے ستارے
سارے رشتے ، ساری یادیں سارے منظر روند نہ ڈالیں
تمھارے خواب کا ہونا ضروری ہے
کہ خوابوں ، منظروں ، رشتوں سبھی یادوں کی اپنی اپنی صورت اپنا اپنا وزن ہوتا ہے
(ہمایوں احمد منصور )

No comments:

Post a Comment