حیرتی ہوں کہ سرخ ہوتی نہیں
ذرد موسم ہرے نہیں ہوتے
چشمِ نمناک آہ بھرتی ہے
اک ادھوری دعا مسلط ہے
جو سلگتی ہے
لب پہ آتی نہیں
سرد ہوتے ہوئے لہو میں سدا
یہ ہمکتی ہے سرخ ہوتی نہیں
سات پردوں میں وحشتوں کے دروں
لو چراغوں کو رنگ دیتی ہے
تیرگی انجذاب ہوتی ہے
دل یہ روتا ہے پر نہیں روتا
آنکھ سوتی ہے پر نہیں سوتی
ایک سناٹا اوڑھ لیتی ہے
اونگھتی ہے یہ سرد راتوں میں
بارہا اسم پھونکتی بھی ہے
میرا نروان بھی عجب شے ہے
ذردیوں کا سراب سہتا ہے
صبحِ ناہید کوکتی بھی ہے
ایسا لگتا ہے کچھ ضروری ہے
ایسا لگتا ہے
پر نہیں ؟؟؟
ارشاد نیازی
No comments:
Post a Comment