Monday, November 30, 2015

ہم لوگ نہ تھے ایسے

ہم لوگ نہ تھے ایسے
جیسے ہیں نظر آتے
اے وقت گواہی دے
یہ شہر نہ تھا ایسا
یہ روگ نہ تھے ایسے
دیوار نہ تھے رستے
زنداں نہ تھی بستی
آزار نہ تھے رشتے
خلجان نہ تھی ہستی
یوں موت نہ تھی سستی!!
یہ آج جو صورت ہے
حالات نہ تھے ایسے
یوں غیر نہ تھے موسم
دن رات نہ تھے ایسے
تفریق نہ تھی ایسی
سنجوگ نہ تھے ایسے
اے وقت گواہی دے
ہم لوگ نہ تھے ایسے

ﻋﺰﯾﺰ ﻟﻮﮔﻮ، ﮐﮩﺎﮞ ﮔﺌﮯ ﮨﻮ

ﻋﺰﯾﺰ ﻟﻮﮔﻮ، ﮐﮩﺎﮞ ﮔﺌﮯ ﮨﻮ
ﺍﺩﺍﺱ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺣﯿﺎﺕ ﻣﯿﺮﯼ۔۔
ﻋﺰﯾﺰ ﻟﻮﮔﻮ
ﮐﮩﺎﮞ ﺳﮯ ﮈﮬﻮﻧﮉﻭﮞ
ﻭﮦ ﻣﯿﭩﮭﯽ ﺑﺎﺗﯿﮟ، ﻭﮦ ﺩﮬﯿﻤﮯ ﻟﮩﺠﮯ
ﻭﮦ ﮐﮭﻨﮑﮭﻨﺎﺗﯽ ﮨﻨﺴﯽ ﺗﻤﮭﺎﺭﯼ
ﻣﺤﺒﺘﻮﮞ ﺑﮭﺮﺍ ﻭﮦ ﻏﺼﮧ
ﺗﻤﺎﻡ ﺍﭘﻨﻮﮞ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﺗﻮﮞ ﮐﺎ
ﺧﯿﺎﻝ ﺭﮐﮭﻨﺎ، ﻣﻼﻝ ﺭﮐﮭﻨﺎ۔۔۔۔
ﻋﺰﯾﺰ ﻟﻮﮔﻮ،
ﺗﻤﮭﺎﺭﯼ ﯾﺎﺩﯾﮟ ﺩﻝِ ﺷِﮑﺴﺘﮧ ﮐﻮ
ﻧﺎﺗﻮﺍﮞ ﺳﮯ ﻧﺎﺗﻮﺍﮞ ﺗﺮَ
ﮐﺮ ﺭﮨﯽ ﮨﯿﮟ !!
ﻋﺰﯾﺰ ﻟﻮﮔﻮ،
ﮐﺒﮭﯽ ﺗﻮ ﺧﻮﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﺁﻭ ﺗﻢ
ﺣﻘﯿﻘﺘﻮﮞ ﮐﺎ ﺭﻭﭖ ﻟﮯ ﮐﺮ !
ﺟِﺴﻢ ﻭ ﺭﻭﺡ ﭘﮧ ﺑﮭﯽ
ﮔﻼﺏ ﺭﺕ ﮨﻮ،
ﻋﺰﯾﺰ ﻟﻮﮔﻮ۔۔

جو پوچھتے ہیں کہاں

جو پوچھتے ہیں کہاں

سنا ہے
رائیگانی کے سفر میں
جب کبھی
مٹھی میں سوکھی ریت بھر کر
ساحلوں سے شہر کی جانب چلیں
تو ہاتھ میں کچھ بھی نہیں رہتا
اگر
جھولی میں پانی بھی بھر لیں
تو۔۔۔ تشنگی کے ریگ زاروں تک
فقط واماندگی اور آنسوؤں کا درد جاتا ہے
طلب کی الجھنیں
تقسیم در تقسیم ہوتی ہیں
سنو اس پل
در افسوس پر دستک نہ دو
کچھ فیصلوں پر دستخط۔۔۔
تاخیر کی جھولی میں رہنے دو
سفر تکمیل سے پہلے
رہِ سود و زیاں کی ڈائری میں درج
کچھ لمحات، کچھ سچائیاں ، تبدیل کرتے ہیں
وہ سارے پل، سبھی وعدے، ارادے، خوش گمانی
مشترک منزل کی خواہش میں سفر
آسودگی، افزوں تر آزارِ طلب
اک پوٹلی میں باندھ کر
گھر میں ہی رکھتے ہیں
چلو یوں ہی بھٹکتے ہیں
طلب کی رائیگانی میں مسافت منتظر ہے
اور ہم
تاخیر کے جرمِ قضا کے مرتکب ٹھہرے
سنو
کس سوچ کی انگلی پکڑ کے
حیرتوں میں کھو گئے ہو تم؟
بھٹکنا بھی نہیں آتا،،،،،،،

آخر کن تک

آخر کن تک

کیا تم، اس نقطے سے باہر جا سکتے ہو
اڑ کر، جست لگا کر
گھومتے گھومتے
سیدھے، خط میں
قوس میں چل کر
یا پھر اک کوندے کی صورت
وجد میں آکر
نقطہ، جس کی قید میں ہو
اک گبند ہے
اور باہر جانے کی ضد کرنے والے، سب
اسفل ٹھہرائے جاتے ہیں
ان کی روحیں خالی ہیں
اور ان کے جسم 
خود اپنے ہی باطن کی روشنیوں کو 
پی کر زندہ ہیں
کیا تم اس الزام کو سر لینے کی جرآت کر سکتے ہو
کیا تم جینے کی کوشش میں مر سکتے ہو!

بتلاؤ ناں.....!
اے محبوس پرندے کب تک
نازک جسم پہ زخم سجاتے رہنا ہے
بند کواڑوں سے ٹکراتے رہنا ہے

دسمبر آ رہا ہے مجھے تم یاد آتے ہو

دسمبر آ رہا ہے
مجھے تم یاد آتے ہو
کسی سرسبز وادی میں
کسی خوش رنگ جگنو کو
کبھی اڑتے ہوئے دیکھوں
مجھے تم یاد آتے ہو
خیالوں میں، سوالوں میں
محبت کے حوالوں میں
تمہیں آواز دیتی ہوں
تمہیں واپس بلاتی ہوں
یوں خود کو آزماتی ہوں
کوئی جب نظم لکھتی ہوں
اسے عنوان دیتی ہوں
مجھے تم یاد آتے ہو
کبھی باہر نکلتی ہوں
کسی رستے پہ چلتی ہوں
کہیں دو دوستوں کو کھل کھلاتے
مسکراتے دیکھتی ہوں
کسی کو گنگناتے دیکھ لیتی ہوں
تو پھر میری رفاقت کہ اول و آخر
مجھے تم یاد آتے ہو
دسمبر میں جو موسم کا مزے لینے کو جی چاہے
کوئی پیاری سہیلی فون پر بولے
بڑا ہی مست موسم ہے
چلو باہر نکلتے ہیں
چلو بوندوں سے کھیلتے ہیں
چلو بارش میں بھیگیں گے
تو اسی لمحے تیری یاد ہولے سے
کوئی سرگوشی کرتی ہے
یہ پلکیں بھیگ جاتی ہیں
دو آنسو ٹوٹ کر گرتے ہیں
میں آنکھوں کو جھکاتی ہوں
بظاہر مسکراتی ہوں
فقط اتنا ہی کہہ سکتی ہوں
مجھے کتنا ستاتے ہو
مجھے تم یاد آتے ہو
مجھے تم یاد آتے ہو

سُنا ہے لوگ اُسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں

سُنا ہے لوگ اُسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
سو اُس کے شہر میں کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں
سُنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں
یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں
سُنا ہے ربط ھے اُس کو خراب حالوں سے
سو اپنے آپ کو برباد کر کے دیکھتے ہیں
سُنا ہے دن میں اُسے تتلیاں ستاتی ہیں
سُنا ہے رات کو جگنو ٹھہر کے دیکھتے ہیں 
سُنا ہے اُس کے بدن کی تراش ایسی ہے
کہ پھول اپنی قبائیں کتر کے دیکھتے ہیں
سُنا ہے اُسے بھی ہے شعر و شاعری سے شغف
سو ہم بھی معجزے اپنے ھُنر کے دیکھتے ہیں
سُنا ہے درد کی گاہگ ہے چشمِ ناز اُس کی
سو ہم بھی اُس کی گلی سے گزر کے دیکھتے ہیں
سُنا ہے حشر ہیں اُس کی غزال سی آنکھیں
سُنا ہے اُس کو ہرن دشت بھر کے دیکھتے ہیں
سُنا ہے اُس کی سیاہ چشمگیں قیامت ہے
سو اُس کو سُرمہ فروش آہ بھر کے دیکھتے ہیں
سُنا ہے رات اُسے چاند تکتا رہتا ہے
ستارے بامِ فلک سے اُتر کے دیکھتے ہیں
سُنا ہے رات سے بڑھ کر ہیں کاکلیں اُس کی
سُنا ہے شام کو سائے گزر کے دیکھتے ہیں
سُنا ہے اُس کے لبوں سے گلاب جلتے ہیں
سو ہم بہار پر الزام دھر کے دیکھتے ہیں
سُنا ہے اُس کے شبستاں سے مُتصل ہے بہشت
مکیں اُدھر کے بھی جلوے اِدھر کے دیکھتے ہیں
سُنا ہے آئینہ تمثال ہے جبیں اُس کی
جو سادہ دل ہیں اُسے بن سنور کے دیکھتے ہیں
سُنا ہے چشمِ تصور سے دشتِ اِمکاں میں
پلنگ زاویے اُس کی کمر کے دیکھتے ہیں 
رُکے تو گردشیں اُس کا طواف کرتی ہیں
چلے تو اُس کو زمانے ٹھہر کے دیکھتے ہیں
بس اِک نگاہ سے لُٹتا ہے قافلہ دل کا
سو راہروانِ تمنّا بھی ڈر کے دیکھتے ہیں
اب اُس کے شہر میں ٹھہریں یا کُوچ کر جائیں
فراز آؤ ستارے سفر کے دیکھتے ہیں

عجب سی یہ محبت ہے

عجب سی یہ محبت ہے
عجب سا ربط ہے ہم میں
نہ اک دوجے کو دیکھا ہے
نہ اک دوجے کی آوازوں میں اک دوجے کو ڈھونڈا ہے
تمہیں جو کچھ کہا میں نے، اُسے تم سچ سمجھتی ہو
مجھے جو کچھ کہا تم نے ، اُسے میں سچ سمجھتا ہوں
اِسی اک (Chat Window) چیٹ ونڈومیں
ہم اِک دوجے کے جیون کے ہر اِک موسم میں رہتے ہیں
عجب سا ربط ہے ہم میں
عجب سی یہ محبت ہے
جسے تصویر اور آواز سے کچھ بھی نہیں لینا
جسے خواہش نہیں کوئی
کِسی کو رُوبُرو دیکھیں
کِسی آواز کو پُوجیں
محبت کی شباہت کو
کِسی انمول ساعت کو
کِسی کے عکس میں ڈُھونڈیں
عجب سی یہ محبت ہے
کہ جس میں لفظ کہتے ہیں اور آنکھیں کچھ نہیں کہتیں
یہ لفظوں سے بہلتی ہے، یہ اُن میں سانس لیتی ہے
یہ ان بےجان تصویروں میں کتنے رنگ بھرتی ہے
عجب سا ربط ہے ہم میں
عجب سی یہ محبت ہے
جسے آواز اور تصویر سے کچھ بھی نہیں لینا
کہ جو لفظوں کی خوشبو سے دلوں میں گنگناتی ہے
کہ جو پلکوں پہ چاہت کے ہزاروں خواب لکھتی ہے
تمہارے اور میرے درمیاں جو سانس لیتی ہے
عجب سی وہ محبت ہے

Friday, November 27, 2015

ﭼﻠﻮ ﮨﻢ ﻓﺮﺽ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ

ﭼﻠﻮ ﮨﻢ ﻓﺮﺽ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﻭﮨﯽ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﺟﻮ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﯿﮟ
ﭼﻠﻮ ﮨﻢ ﻓﺮﺽ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﮐﮧ ﮨﺮ ﺳﻮ ﻧﻮﺭ ﭘﮭﯿﻼ ﮨﮯ
ﻧﮧ ﺩﻥ ﻣﯿﮟ ﭼﮭﺎﯾﺎ ﺳﻨﺎﭨﺎ
ﻧﮧ ﺭﺍﺗﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﺪﮬﯿﺮﺍ ﮨﮯ
ﻧﮧ ﺳﻮﺭﺝ ﺷﺐ ﻣﯿﮟ ﺳﻮﺗﺎ ﮨﮯ
ﻧﮧ ﺩﻥ ﻣﯿﮟ ﭼﺎﻧﺪ ﮐﮭﻮﺗﺎ ﮨﮯ
ﮨﮯ ﮨﺮ ﺩﻝ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﺳﮯ ﭘﺮ
ﺍﻭﺭ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﺟﺎﻟﮯ ﮨﯿﮟ
ﭼﻠﻮ ﮨﻢ ﻓﺮﺽ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﮐﮧ ﮨﺮﻣﻮﺳﻢ ﺑﮩﺎﺭﺍﮞ ﮨﮯ
ﺧﺰﺍﮞ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﻮﻝ ﮐﮭﻠﺘﮯ ﮨﯿﮟ
ﻧﮕﺎﮨﯿﮟ ﺭﻧﮓ ﺳﮯ ﻣﮩﮑﺘﯽ ﮨﯿﮟ
ﮔﻠﻮﮞ ﮐﯽ ﺧﻮﺷﺒﻮﺅﮞ ﺳﮯ
ﺳﺐ ﻧﻈﺎﺭﮮ ﻣﻌﻄﺮ ﮨﯿﮟ
ﭘﺮﻧﺪﮮ ﭼﮩﭽﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﺧﻮﺷﯽ ﮐﮯ ﮔﯿﺖ ﮔﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﭼﻠﻮ ﮨﻢ ﻓﺮﺽ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﮐﮧ ﮨﺮ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﻣﺤﺒّﺖ ﮨﮯ
ﮐﮩﯿﮟ ﺟﮭﮕﮍﮮ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﮯ
ﻧﮧ ﺑﺎﺭﺵ ﺩﮐﮫ ﮐﯽ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ
ﻧﮧ ﺁﻧﺪﮬﯽ ﻏﻢ ﮐﯽ ﭼﻠﺘﯽ ﮨﮯ
ﻧﮧ ﻧﻔﺮﺕ ﭘﮭﺎﻧﺲ ﺑﻨﺘﯽ ﮨﮯ
ﮨﯿﮟ ﺳﺒﮭﯽ ﭼﮩﺮﻭﮞ ﭘﮯ ﻣﺴﮑﺎﻧﯿﮟ
ﮐﮩﯿﮟ ﺟﮭﮕﮍﮮ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﮯ
ﭼﻠﻮ ﮨﻢ ﻓﺮﺽ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﮐﮧ ﻏﻢ ﺧﻮﺷﯿﻮﮞ ﺳﮯ ﺑﮩﺘﺮ ﮨﯿﮟ
ﭼﻠﻮ ﮨﻢ ﻓﺮﺽ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﯾﮧ ﺩﻧﯿﺎ ﺗﻢ ﺳﮯ ﺑﮩﺘﺮ ﮨﮯ
ﺫﺭﺍ ﭨﮩﺮﻭ
ﻣﮕﺮ ﮨﻢ ﻓﺮﺽ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﺮ ﻟﯿﮟ
ﯾﻘﯿﮟ ﻣﺠﮫ ﮐﻮ ﺑﺘﺎﺗﺎ ﮨﮯ
ﺣﻘﯿﻘﺖ ﺗﻮ ﺣﻘﯿﻘﺖ ﮨﮯ
ﻣﯿﮟ ﺳﺐ ﮐﭽﮫ ﺟﺎﻥ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﻮﮞ
ﻧﮧ ﺳﻮﺭﺝ ﺷﺐ ﻣﯿﮟ ﭼﻤﮑﮯ ﮔﺎ
ﻧﮧ ﺩﻥ ﻣﯿﮟ ﭼﺎﻧﺪ ﻧﮑﻠﮯ ﮔﺎ
ﺧﺰﺍﮞ ﻣﯿﮟ ﮔﻞ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮭﻠﺘﮯ
ﯾﮧ ﻧﻔﺮﺕ ﻣﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﯽ
ﻧﮧ ﻏﻢ ﺧﻮﺷﯿﻮﮞ ﺳﮯ ﺑﮩﺘﺮ ﮨﯿﮟ
ﻧﮧ ﺩﻧﯿﺎ ﺗﻢ ﺳﮯ ﺑﮩﺘﺮ ﮨﮯ
ﮨﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﺣﻘﯿﻘﺖ ﮐﯿﺎ
ﻓﻘﻂ ﺍﯾﮏ ﺗﻢ ﮨﯽ ﺍﭼﮭﮯ ﮨﻮ
ﺟﮩﺎﻧﻮﮞ ﺳﮯ ﺯﻣﺎﻧﻮﮞ ﺳﮯ
ﻣﮑﺎﻧﻮﮞ ﻻ ﻣﮑﺎﻧﻮﮞ ﺳﮯ
ﯾﮧ ﺳﺐ ﮐﭽﮫ ﮨﮯ ﻭﮨﯽ ﺟﻮ
ﺍﺳﯽ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ
ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﮨﻢ ﻓﺮﺽ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﺮﻟﯿﮟ
ﻓﻘﻂ ﺍﯾﮏ ﺗﻢ ﮨﯽ ﺍﭼﮭﮯ ﮨﻮ

ﺁﮨﭧ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﻧﺎ

ﺳﻨﻮ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ﺁﮨﭧ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﻧﺎ
ﺑﮍﯼ ﻣﻨﺖ ﺳﻤﺎﺟﺖ ﺍﻭﺭ ﻟﺠﺎﺟﺖ ﺳﮯ
ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺧﻮﺍﺏ ﮐﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ
ﺳﻼﯾﺎ ﮬﮯ
ﮐﻮﺉ ﺁﮨﭧ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﻧﺎ
ﺑﮩﺖ ﻣﺠﺒﻮﺭ ﮬﻮ ﻧﺎ ﺗﻢ ؟
ﺳﻨﻮ ﺧﺎﻣﻮﺵ ﺑﯿﭩﮭﻮ ﺗﻢ
ﮐﻮﺉ ﺁﻧﺴﻮ, ﮐﻮﺉ ﺳﺴﮑﯽ , ﮐﻮﺉ ﮨﭽﮑﯽ
ﮐﻮﺉ ﺁﮨﭧ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﻧﺎ
ﻣﺠﮭﮯ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﺗﮭﺎ ﯾﮧ ﺳﺐ
ﻣﯿﺮﺍ ﻭﺟﺪﺍﻥ ﮐﮩﺘﺎ ﺗﮭﺎ
ﺗﻤﮩﯿﮟ ﯾﮧ ﺣﺎﺩﺛﮧ ﺩﺭﭘﯿﺶ ﮬﻮﻧﺎ ﮬﮯ
ﻣﺠﮭﮯ ﺩﺭﻭﯾﺶ ﮬﻮﻧﺎ ﮬﮯ
ﺳﻨﻮ ۔۔۔۔۔۔۔ ﺟﺎﺅ
ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺩﻝ ﺳﮯ ﺍﺟﺎﺯﺕ ﮬﮯ
ﻣﯿﺮﮮ ﺟﯿﻮﻥ ﮐﮯ ﺩﮬﺎﺭﮮ ﮐﯽ ﺭﻭﺍﻧﯽ ﮐﻮ
ﻣﺤﺒﺖ ﮐﮯ ﻋﻼﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﺑﮩﺖ ﻏﻢ ﮬﯿﮟ
ﺳﻨﻮ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ﺟﺎﺅ
ﭘﻠﭧ ﮐﺮ ﭘﮭﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﻧﺎ
ﻣﺤﺒﺖ ﮐﮯ ﺗﻘﺎﺿﻮﮞ ﮐﺎ
ﺑﮭﺮﻡ ﺭﮐﮭﻨﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﻧﺎ
ﺭﻭﺍﺩﺍﺭﯼ ﻣﯿﮟ ﻣﺖ ﭘﮍﻧﺎ
ﮐﻮﺉ ﺁﮨﭧ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﻧﺎ
ﭘﻠﭧ ﮐﺮ ﭘﮭﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﻧﺎ

نومبر پھر چلا آیا

نومبر کا مہینہ تھا,
کہ جب میں نے جیے تھے
زندگی کے خوبصورت پل...
یہی دن تھے,
کہ جب میں نے ملائم نرم ہر احساس کو
لفظوں میں ڈھالا تھا,
انہی ایام کی
لمبی, جواں راتوں میں ہی بنیاد رکھی تھی
کئی رنگین خوابوں کی,
یہی آغاز سرما کی حسیں راتیں,
کہ جب تھا چاند بھی آدھا,
نہ میں سوتی , نہ تم سوتے,
کسے پرواہ تھی نیندوں کی?
اس اک رشتے کی بنیادوں میں کتنے رتجگے ڈالے
وہ سب لمحے,
کہ جب اک دوسرے کے ساتھ
کتنے پل گزرتے تھے,
کبھی باتیں محبت کی,
کبھی اقرار کے قصے,
کبھی عہد وفا کرنا,
کبھی خود پر بہت ہنسنا,
کسی انجام سے انجان سے ہو کر,
ہم آگے بڑھتے جاتے تھے,
ٹھٹھرتی ٹھنڈ میں, اپنا تعلق
گرم جوشی سے پھلا پھولا,
وہ روز و شب,
ہمارے ربط کی معراج تھے شاید..
مگر دیکھو,
گزرتے وقت کو, موسم کو کوئی روک کب پایا,
طلمساتی وہ پل سارے,
پگھلتی برف کی گرمی نہ سہہ پاۓ,
اتر آئی عجب اک سرد مہری درمیاں اپنے
وہی رشتہ جو آتی سردی میں معراج تک پہنچا,
وہ جاتی سردیوں کا ڈر نہ سہہ پایا,
تھپیڑے دھوپ کے,
گرمی , تمازت وہ نہ سہہ پایا,
یوں وہ انجام کو پہنچا....
وہ ساری بسری یادیں,
بھولی باتیں ساتھ میں لےکر
نومبر پھر چلا آیا