آخر کن تک
کیا تم، اس نقطے سے باہر جا سکتے ہو
اڑ کر، جست لگا کر
گھومتے گھومتے
سیدھے، خط میں
قوس میں چل کر
یا پھر اک کوندے کی صورت
وجد میں آکر
نقطہ، جس کی قید میں ہو
اک گبند ہے
اور باہر جانے کی ضد کرنے والے، سب
اسفل ٹھہرائے جاتے ہیں
ان کی روحیں خالی ہیں
اور ان کے جسم
خود اپنے ہی باطن کی روشنیوں کو
پی کر زندہ ہیں
کیا تم اس الزام کو سر لینے کی جرآت کر سکتے ہو
کیا تم جینے کی کوشش میں مر سکتے ہو!
بتلاؤ ناں.....!
اے محبوس پرندے کب تک
نازک جسم پہ زخم سجاتے رہنا ہے
بند کواڑوں سے ٹکراتے رہنا ہے
No comments:
Post a Comment