Monday, November 30, 2015

دسمبر آ رہا ہے مجھے تم یاد آتے ہو

دسمبر آ رہا ہے
مجھے تم یاد آتے ہو
کسی سرسبز وادی میں
کسی خوش رنگ جگنو کو
کبھی اڑتے ہوئے دیکھوں
مجھے تم یاد آتے ہو
خیالوں میں، سوالوں میں
محبت کے حوالوں میں
تمہیں آواز دیتی ہوں
تمہیں واپس بلاتی ہوں
یوں خود کو آزماتی ہوں
کوئی جب نظم لکھتی ہوں
اسے عنوان دیتی ہوں
مجھے تم یاد آتے ہو
کبھی باہر نکلتی ہوں
کسی رستے پہ چلتی ہوں
کہیں دو دوستوں کو کھل کھلاتے
مسکراتے دیکھتی ہوں
کسی کو گنگناتے دیکھ لیتی ہوں
تو پھر میری رفاقت کہ اول و آخر
مجھے تم یاد آتے ہو
دسمبر میں جو موسم کا مزے لینے کو جی چاہے
کوئی پیاری سہیلی فون پر بولے
بڑا ہی مست موسم ہے
چلو باہر نکلتے ہیں
چلو بوندوں سے کھیلتے ہیں
چلو بارش میں بھیگیں گے
تو اسی لمحے تیری یاد ہولے سے
کوئی سرگوشی کرتی ہے
یہ پلکیں بھیگ جاتی ہیں
دو آنسو ٹوٹ کر گرتے ہیں
میں آنکھوں کو جھکاتی ہوں
بظاہر مسکراتی ہوں
فقط اتنا ہی کہہ سکتی ہوں
مجھے کتنا ستاتے ہو
مجھے تم یاد آتے ہو
مجھے تم یاد آتے ہو

No comments:

Post a Comment