جو پوچھتے ہیں کہاں
سنا ہے
رائیگانی کے سفر میں
جب کبھی
مٹھی میں سوکھی ریت بھر کر
ساحلوں سے شہر کی جانب چلیں
تو ہاتھ میں کچھ بھی نہیں رہتا
اگر
جھولی میں پانی بھی بھر لیں
تو۔۔۔ تشنگی کے ریگ زاروں تک
فقط واماندگی اور آنسوؤں کا درد جاتا ہے
طلب کی الجھنیں
تقسیم در تقسیم ہوتی ہیں
سنو اس پل
در افسوس پر دستک نہ دو
کچھ فیصلوں پر دستخط۔۔۔
تاخیر کی جھولی میں رہنے دو
سفر تکمیل سے پہلے
رہِ سود و زیاں کی ڈائری میں درج
کچھ لمحات، کچھ سچائیاں ، تبدیل کرتے ہیں
وہ سارے پل، سبھی وعدے، ارادے، خوش گمانی
مشترک منزل کی خواہش میں سفر
آسودگی، افزوں تر آزارِ طلب
اک پوٹلی میں باندھ کر
گھر میں ہی رکھتے ہیں
چلو یوں ہی بھٹکتے ہیں
طلب کی رائیگانی میں مسافت منتظر ہے
اور ہم
تاخیر کے جرمِ قضا کے مرتکب ٹھہرے
سنو
کس سوچ کی انگلی پکڑ کے
حیرتوں میں کھو گئے ہو تم؟
بھٹکنا بھی نہیں آتا،،،،،،،
No comments:
Post a Comment