Friday, December 4, 2015

وہ لمحے کتنے دروغ گو تھے۔

وہ لمحے کتنے دروغ گو تھے۔
تمہاری پوروں کا لمس اب تک
مری کفِ دست پر ہے
اور ميں سوچتا ہوں
وہ لمحے کتنے دروغ گو تھے
وہ کہہ گئے تھے
کہ اب کے جو ہاتھ تيرے ہاتھوں کو چھو گئے ہيں
تمام ہونٹوں کے سارے لفظوں سے معتبر ہيں
وہ کہہ گئے تھے
تمہاری پوريں
جو ميرے ہاتھوں کو چھو رہی تھيں
وہی تو قسمت تراش ہيں
اور اپنی قسمت کو 
سارے لوگوں کي قسمتوں سے بلند جانو
ہماری مانو
تو اب کسی اور ہاتھ کو ہاتھ مت لگانا
ميں اُس سمے سے
تمام ہاتھوں
وہ ہاتھ بھی 
جن ميں پھول شاخوں سے بڑھ کر لطف نمو اٹھائيں
وہ ہاتھ بھی جو صدا کے محروم تھے
اور ان کی ہتھيلياں زخم زخم تھيں
اور وہ ہاتھ بھی جو چراغ جيسے تھے
اور رستے ميں سنگ فرسنگ کی طرح جا بجا گڑھے تھے۔
وہ ہاتھ بھی جن کے ناخنوں کے نشاں 
معصوم گردنوں پرمثال طوق ستم پڑے تھے
تمام نا مہربان اور مہربان ہاتھوں سے
دست کش يوں رہا ہوں جيسے
يہ مٹھياں ميں نے کھول ديں تو
وہ ساري سچائيوں کے موتی 
مسرتوں کے تمام جگنو
جو بے يقينی کے جنگلوں ميں
يقيں کا راستہ بناتےہيں
روشنی کی لکير کا قافلہ بناتے ہيں
ميرے ہاتھوں سے روٹھ جائيں گے
پھر نہ تازہ ہوا چلے گی 
نہ کوئی شمع صدا جلے گی
ميں ضبط اور انتظار کے اس حصار ميں مدتوں رہا ہوں
مگر جب اک شام
اور وہ پت جھڑ کي آخری شام تھی 
ہوا اپنا آخری گيت گا رہی تھی 
مرے بدن ميں مرا لہو خشک ہو رہا تھا
تو مٹھياں ميں نے کھول ديں
اور ميں نے ديکھا
کہ ميرے ہاتھوں ميں
کوئی جگنو
نہ کوئی موتی 
ہتھيليوں پر فقط میری نامراد آنکھيں دھری ہوئی تھيں
اور ان ميں
قسمت کی سب لکيريں مری ہوئی تھيں

احمد فراز

No comments:

Post a Comment