وہ کہہ رہا تھا ابھی نہ جاؤ
ابھی محبت نئی نئی ھے
ابھی رفاقت کی دلکشی ھے
ابھی نہ جاؤ
ابھی سفر میں پڑاؤ کتنے ہی منتظر ہیں
ابھی ستارے بھی راہبر ہیں
ابھی تو قاتل بھی چارہ گر ہیں
ابھی تو فُرقت سے بے خبر ہیں
ابھی نہ جاؤ
یہ گنگناتا وصال موسم
یہ ملگجا سا سوال موسم
یہ کاسنی سا کمال موسم
چلا تو جائے
ابھی نہ جاؤ
ابھی سمندر کو جاگنے دو
ابھی تو ناؤ کو سوچنا ھے
دیا دریچے پہ بھی جلانا ابھی ھے باقی
ابھی ہواؤں کو روکنا ھے
ابھی زمانے کو ٹوکنا ھے
ابھی بہت سے ہیں کام باقی
ابھی ھے جیون کی شام باقی
بہت سے کرنے ہیں کام باقی
ابھی نہ جاؤ
ابھی محبت نئی نئی ھے
No comments:
Post a Comment