Wednesday, January 13, 2016

ابھی نہ جاؤ

وہ کہہ رہا تھا ابھی نہ جاؤ
ابھی محبت نئی نئی ھے
ابھی رفاقت کی دلکشی ھے
ابھی نہ جاؤ
ابھی سفر میں پڑاؤ کتنے ہی منتظر ہیں
ابھی ستارے بھی راہبر ہیں
ابھی تو قاتل بھی چارہ گر ہیں
ابھی تو فُرقت سے بے خبر ہیں
ابھی نہ جاؤ
یہ گنگناتا وصال موسم
یہ ملگجا سا سوال موسم
یہ کاسنی سا کمال موسم
چلا تو جائے
ابھی نہ جاؤ
ابھی سمندر کو جاگنے دو
ابھی تو ناؤ کو سوچنا ھے
دیا دریچے پہ بھی جلانا ابھی ھے باقی
ابھی ہواؤں کو روکنا ھے
ابھی زمانے کو ٹوکنا ھے
ابھی بہت سے ہیں کام باقی
ابھی ھے جیون کی شام باقی
بہت سے کرنے ہیں کام باقی
ابھی نہ جاؤ
ابھی محبت نئی نئی ھے

No comments:

Post a Comment