کچھ پنچھی جھنڈ میں اڑتے ھوں
اور راستہ بھی کچھ مشکل ھو
کچھ دور افق پہ منزل ھو
اک پنچھی گھائل ھو جائے
اور بے دم ھو کر گر جائے
تو رشتے ناتے پیارے سب
کب اس کی خاطر رکتے ہیں
اس دنیا کی ھے ریت یہی
جواڑتےرھوتوساتھ بہت
جورک جاؤ توتنہاھو
Friday, September 30, 2016
جورک جاؤ توتنہاھو
سُن مرے اسیرا سُن
سُن مرے اسیرا سُن
خواب ٹوٹ جانے سے
خواب مر نہیں جاتے
آگ کی محبت میں
ہاتھ جل بھی جائیں تو
درد ٹھہر سکتا ہے
پر نشاں نہیں جاتے
سُن مرے فقیرا سُن
رات کے اُجالے لوگ
چاند چہرے والے لوگ
روشنی میں کھو جائیں
پھر کبھی نہیں ملتے
درد کے امیرا سُن
ضبط کے سفیرا سُن
ہاتھ کے ملانے سےیا
گلے لگانے سے
رابطہ تو رہتا ہے
روح مل نہیں جاتی
اور پھر پرانے لوگ
شام سے سہانے لوگ
یاد نہ بھی آتے ہوں
بھول تو نہیں جاتے
اے مرے اسیرا سُن
سُن مرے فقیرا سُن
تو بھید بتا دے مِٹی کا
تو بھید بتا دے مِٹی کا
مرے مِٹی ہونے سے پہلے
میں کب سے بیٹھا سبق یادکئیے
تو سُن لے چُھٹی ہونے سےپہلے
... کیا بھید تھا __خالی لانےمیں؟
کیا بھید ہےخالی لے جانے میں؟
یہ راز عیاں کردے مُجھ پر
بند مُٹھی ہونے سے پہلے
تو بھید بتا دے مِٹی کا
مرے مِٹی ہونے سے پہلے..
سب کچھ نام تمھارے
ساحل
ریت
سمندر
لہریں
بستی
دوستی
صحرا
دریا
خوشبو
موسم
پھول
دریچے
بادل
سورج
چاند
ستارے
آج یہ سب کچھ نام تمھارے
خواب کی باتیں
یاد کے قصے
سوچ کے پہلو
نیند کے لمحے
درد کے آنسو
چین کے نغمے
اڑتے وقت کے بہتے دھارے
روح کی آہٹ
جسم کی جنبش
خون کی گردش
سانس کی لرزش
آنکھ کا پانی
چاہت کے یہ عنوان سارے
آج یہ سب کچھ نام تمھارے
Tuesday, September 27, 2016
دِلِ گمشدہ!
دِلِ گمشدہ! کبھی مل ذرا
کسی خشک خاک کے ڈھیر پر
یا کسی مکاں کی منڈیر پر
دِلِ گمشدہ! کبھی مِل ذرا
جہاں لوگ ہوں، اُسے چھوڑ کر
کسی راہ پر، کسی موڑ پر
دِلِ گمشدہ! کبھی مِل ذرا
مجھے وقت دے، مری بات سُن
مری حالتوں کو تو دیکھ لے
مجھے اپنا حال بتا کبھی
کبھی پاس آ! کبھی مِل سہی
مرا حال پوچھ! بتا مجھے
مرے کس گناہ کی سزا ہے یہ
تُو جنون ساز بھی خود بنا
مری وجہِ عشق یقیں ترا
مِلا یار بھی تو، ترے سبب
وہ گیا تو ، تُو بھی چلا گیا
دِلِ گمشدہ؟ یہ وفا ہے کیا
اِسے کِس ادا میں لکھوں بتا
اِسے قسمتوں کا ثمر لکھوں
یا لکھوں میں اِس کو دغا، سزا
دِلِ گمشدہ! دِلِ گمشدہ
Monday, September 26, 2016
بچاﺅ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﺍﮮ ﻟﮍﮐﯿﻮں
بچاﺅ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﺍﮮ ﻟﮍﮐﯿﻮں
ﯾﮧ ﻧﺮﻡ ﻟﮩﺠﮯ ﻣﯿﮟ
ﺗﻢ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ
ﺑﺎﺗﻮﮞ ﺑﺎﺗﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﮐﮭﯿﻞ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ
ﺗﻢ ﺳﻤﺠﮭﺘﯽ ﮨﻮ
ﭘﯿﺎﺭ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﺣﻘﯿﻘﺖ ﻣﯿﮟ ﻭﮦ
ﻭﺍﺭ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﯾﮧ ﻣﯿﭩﮭﮯ ﺑﻮﻝ ﺑﻮﻟﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺍﮐﺜﺮ
ﺩﻟﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻣﺮﺽ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ
ﺳﻨﻮ ﺑﺎﺗﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻧﮧ ﺁﻧﺎ
ﻧﮧ ﻟﮩﺠﮧ ﺍﭘﻨﺎ ﺷﯿﺮﯾﮟ ﮐﺮﻧﺎ
ﺭﻭﯾﮧ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺗﻢ ﺍﭘﻨﺎ
ﺑﻠﮑﻞ ﺍﯾﮏ ﺳﺎ ﺭﮐﮭﻨﺎ
ﯾﮩﺎﮞ ﻧﺮﻣﯽ ﺫﺭﺍ ﺳﯽ ﺩﮐﮭﻼﺋﯽ
ﻭﮨﺎﮞ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﺧﯿﺎﻝ ﺁﯾﺎ
ﯾﮧ ﺗﻮ ﭘﮕﮭﻞ ﮔﺌﯽ ﺟﻠﺪﯼ
ﯾﻌﻨﯽ ﭘﮩﻼ ﺯﻭﺍﻝ ﺁﯾﺎ
ﻣﺤﺭﻡ ﮐﮯ ﺳﻮﺍ
ﮐﻮﺋﯽ ﺍﭘﻨﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ
ﺍﺩﺍﺋﯿﮟ ﺩﮐﮭﺎﺅ ﮔﯽ
ﭘﯿﺎﺭ ﭼﮭﻠﮑﺎﺅ ﮔﯽ
ﮨﺮ ﮨﺮ ﺑﺎﺕ ﮐﮩﮧ ﺟﺎﺅ ﮔﯽ
ﻣﻮﻗﻊ ﺧﻮﺩ ﮨﯽ ﺩﮮ ﺟﺎﺅ ﮔﯽ
ﻣﮑﮭﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﺟﮭﭙﭩﯿﮟ ﮔﮯ
ﺍﻟﻔﺎﻅ ﮐﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﻟﭙﭩﯿﮟ ﮔﮯ
ﮨﻨﺴﯽ ﻣﺬﺍﻕ ﺳﮯ ﮔﺮﺩ ﺳﻤﭩﯿﮟ ﮔﮯ
ﺑﭻ ﻧﮧ ﭘﺎﺅ ﮔﯽ
ﮔﮭﻞ ﻣﻞ ﺟﺎﺅ ﮔﯽ
ﻣﻘﺎﻡ ﺍﭘﻨﺎ ﮔﻨﻮﺍﺅ ﮔﯽ
ﺑﺮﺍﺋﯽ ﺗﮏ ﻧﮧ ﺳﻤﺠﮭﻮ ﮔﯽ
ﮐﮧ ﯾﮧ ﺗﻮ ﻣﯿﺮﮮ ﺍﭘﻨﮯ ﮨﯿﮟ
ﮐﺘﻨﮯ ﺳﭽﮯ ﻣﺨﻠﺺ ﮨﯿﮟ
ﺩﮬﻮﮐﮯ ﻣﯿﮟ ﺁﺟﺎﺅ ﮔﯽ
ﻣﻘﺼﺪ ﮐﻮ ﺑﮭﻼﺅ ﮔﯽ
ﮔﮭﯿﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﻧﮧ ﺁﻧﺎ
ﺧﺪﺍ ﮐﻮ ﯾﺎﺩ ﺗﻢ ﮐﺮﻧﺎ
ﻗﺮﺁﻥ ﮐﻮ ﺫﺭﺍ ﭘﮍﮬﻨﺎ
ﺭﺏ ﮐﮩﺘﺎ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ﻏﻮﺭ ﺳﮯ ﺳﻨﻨﺎ
ﺳﻮﺭﻩ ﺍﻻﺣﺰﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ
ﻟﮩﺠﮧ ﻧﺮﻡ ﻧﮧ ﺗﻢ ﺍﭘﻨﺎ ﮐﺮﻧﺎ ”
ﺑﺎﺕ ﻣﺨﺘﺼﺮ ﺑﺎﻣﻘﺼﺪ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﮐﺮﻧﺎ
“ ﻭﺭﻧﮧ ﻣﺮﺩ ﮐﺎ ﻣﺮﺽ ﮨﮯ ﺑﮍﮬﻨﺎ
ﯾﮧ ﻣﻨﮧ ﺑﻮﻟﮯ ﺭﺷﺘﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺣﻘﯿﻘﺖ ﻧﮩﯿﮟ
ﺍﺻﻞ ﻣﯿﮟ ﺗﻮ ﯾﮧ ﺍﮎ ﺣﺠﺎﺏ ﮨﻮﻧﺎ ﭼﺎﮨﯿﮯ ﺗﮭﺎ ﻣﮕﺮ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺗﻮ ﮐﻮﺋﯽ
ﺣﺠﺎﺏ ﺑﺎﻗﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮨﺘﺎ ﺧﻄﺎ ﮨﮯ ﻓﻄﺮﺕ ﺍﻧﺴﺎﻧﯽ
ﺗﻮﺑﮧ ﮨﮯ ﺷﯿﻮﻣﺴﻠﻤﺎﻧﯽ
ﺟﻮ ﺟﺐ ﭘﻠﭩﮯ ﺭﺏ ﮈﮬﺎﻧﭗ ﻟﮯ ﺍﺱ ﮐﻮ ...
ﺍﮮ ﮐﺎﺵ ﮐﻮﺋﯽ ﺟﻠﺪ ﺑﮭﺎﻧﭗ ﻟﮯ ﺍﺱ ﮐﻮ
آمین یا رب
ملو مجھ سے
ملو مجھ سے
نگاہوں کے اشاروں سے پرے ہو کر
زمانے کے فشاروں سے پرے ہو کر
گلوں سے اور بہاروں سے پرے ہو کر
کسی بے چین دریا کے کناروں سے پرے ہو کر
ان آنکھوں سے نکلتی آبشاروں سے پرے ہو کر
ہمارے دل میں پھیلے اک گھنے غم کے سیاہ جنگل میں بکھری، درد کے پیڑوں کی شاخوں
اور رستوں میں کہیں بکھری پڑی کچھ سخت جھاڑوں سے پرے ہو کر، ملو مجھ سے
ملو مجھ سے
خساروں سے پرے ہو کر
اکیلے تم، اکیلا میں
ملو مجھ سے
ہزاروں سے پرے ہو کر
زمیں کی وسعتیں محدود ہیں
پھر بھی جدائی کیوں نگاہیں پھاڑ کر تکنے لگی ہے راہگزر ایسے
کہ جیسے آسمانوں میں بھی اک پھیلی ہوئی ایسی جدائی ہے
مسلسل جو ہمیں باور کراتی ہے کہ جیسے لامکاں کی وسعتوں میں بھی نہیں ممکن تمہیں ملنا
تمہیں ملنے کی خاطر آسرے کی سخت حاجت ہے
مگر میں تم سے کہتا ہوں
کوئی بھی آسرا لے کر
کسی محتاج لمحے کی کسی ٹوٹی ہوئی ساعت میں اب
تم سے نہیں ملنا۔
مگر تم جس قدر چاہو ، جہاں چاہو
ملو مجھ سے
مگر دیکھو،
سہاروں سے پرے ہو کر
حرف حرف ۔۔۔۔ لہو لہو
مجھے خط ملا ہے غنیم کا
بڑی عجلتوں میں لکھا ہوا
کہیں رنجشوں کی کہانیاں
کہیں دھمکیوں کا ہے سلسلہ
مجھے کہہ دیا ہے امیر نے
کرو حسنِ یار کا تذکرہ
تمہیں کیا پڑی ہے کہ رات دن
کہو حاکموں کو برا بھلا
تمہیں فکرِ عمرِ عزیز ہے
تو نہ حاکموں کو خفا کرو
جو امیرِ شہر کہے تمہیں
وہی شاعری میں کہا کرو
کوئی واردات کہ دن کی ہو
کوئی سانحہ، کسی رات ہو
نہ امیرِ شہر کا ذکر ہو
نہ غنیمِ وقت کی بات ہو
کہیں تار تار ہوں عصمتیں
مرے دوستوں کو نہ دوش دو
جو کہیں ہو ڈاکہ زنی اگر
تو نہ کوتوال کا نام لو
کسی تاک میں ہیں لگے ہوئے
مرے جاں نثار گلی گلی
ہیں مرے اشارے کے منتظر
مرے عسکری، مرے لشکری
جو تمہارے جیسے جوان تھے
کبھی میرے آگے رکے نہیں
انہیں اس جہاں سے اٹھا دیا
وہ جو میرے آگے جھکے نہیں
جنہیں جان و مال عزیز تھے
وہ تو میرے ڈر سے پگھل گئے
جو تمہاری طرح اٹھے بھی تو
انہیں بم کے شعلے نگل گئے
مرے جاں نثاروں کو حکم ہے
کہ گلی گلی یہ پیام دیں
جو امیرِ شہر کا حکم ہے
بِنا اعتراض وہ مان لیں
جو مرے مفاد کے حق میں ہیں
وہی عدلیہ میں رہا کریں
مجھے جو بھی دل سے قبول ہوں
سبھی فیصلے وہ ہوا کریں
جنہیں مجھ سے کچھ نہیں واسطہ
انہیں اپنے حال پہ چھوڑ دو
وہ جو سرکشی کے ہوں مرتکب
انہیں گردنوں سے مروڑ دو
وہ جو بے ضمیر ہیں شہر میں
انہیں زر کا سکہّ اچھال دو
جنہیں اپنے درش عزیز ہوں
انہیں کال کوٹھی میں ڈال دو
جو مرا خطیب کہے تمہیں
وہی اصل ہے اسے مان لو
جو مرا امام بیاں کرے
وہی دین ہے سبھی جان لو
جو غریب ہیں مرے شہر میں
انہیں بھوک پیاس کی مار دو
کوئی اپنا حق جو طلب کرے
تو اسے زمیں میں اتار دو
جو مرے حبیب و رفیق ہیں
انہیں خوب مال و منال دو
جو مرے خلاف ہیں بولتے
انہیں نوکری سے نکال دو
جو ہیں بے خطا، وہی دربدر
یہ عجیب طرزِ نصاب ہے
جو گنہ کریں، وہی معتبر
یہ عجیب روزِ حساب ہے
یہ عجیب رت ہے بہار کی
کہ ہر ایک زیرِ عتاب ہے
’’کہیں پر شکستہ ہے فاختہ
کہیں زخم زخم گلاب ہے‘‘
مرے دشمنوں کو جواب ہے
نہیں غاصبوں پہ شفیق مَیں
مرے حاکموں کو خبر کرو
نہیں آمروں کا رفیق مَیں
مجھے زندگی کی ہوس نہیں
مجھے خوفِ مرگ نہیں ذرا
مرا حرف حرف، لہو لہو
مرا لفظ لفظ ہے آبلہ
محبت مہربان ہو گی
محبت مہربان ہو گی
پریشان تم نہیں ہونا
کبھی چھپ کر نہیں رونا
جدائی زہر ہوتی ہے
مجھ معلوم ہے لیکن
فراق و ہجر کا موسم
یقینا بیت جائے گا
یقینا وصل کے لمحے
دوبارہ لوٹ آئیں گے
وہی شامیں
وہی راتیں
وہی قصے
وہی باتیں
وہی پھر داستاں ہوگی
محبت مہربان ہوگی
کوئی
کوئی تو ہو جو
تسلیوں کے حروف دے کر
رگوں میں پھرتی اذیتوں کا
غرور توڑے
کوئی تو ہو جو
حدوں سے بڑھتا
یہ درد بانٹے
مگر یہ کوئی کبھی ملاہے
مگر یہ کوئی کہیں نہیں ہے
مگر یہ کوئی
کوئی نہیں ہے
محبت
محبت حق نہیں ہوتا،
میں تم سے چھینتا کیسے،
محبت بهیک بھی نہیں،
میں تم سے مانگتا کیسے،
محبت جھوٹ ہوتی تو،
میں تم سے بولتا کیسے،
محبت سچ ہی ہے شائد،
یہ دھوکہ ہو نہیں سکتی،
یہ تو وردان ہوتی ہے،
اترتی ہے لیپٹتی ہے،
اگر یہ ہو ہی جائے تو،
اسے اوڑهو اسے پہنو،
کہ محبت وردان نہ ہو تو،
کسی کو ہو نہیں سکتی...
Saturday, September 24, 2016
ﻣﺠﮭﮯ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮐﺮﻧﮯ ﺩﻭ
ﺫﺭﺍ ﭨﮭﮩﺮﻭ !
ﻣﺠﮭﮯ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮐﺮﻧﮯ ﺩﻭ
ﺟُﺪﺍﺋﯽ ﺁﻥ ﭘﮩﻨﭽﯽ ﮨﮯ
ﻣﺠﮭﮯ ﺗﻢ ﺳﮯ ﺑﭽﮭﮍﻧﺎ ﮨﮯ
ﺗﻤﮭﺎﺭﯼ ﻣﺴﮑﺮﺍﮨﭧ، ﮔﻔﺘﮕﻮ، ﺧﺎﻣﻮﺷﯿﺎﮞ
ﺳﺐ ﮐﭽﮫ ﺑﮭُﻼﻧﺎ ﮨﮯ
ﺗﻤﮭﺎﺭﮮ ﺳﺎﺗﮫ ﮔﺰﺭﮮ ﺻﻨﺪﻟﯿﮟ ﻟﻤﺤﻮﮞ ﮐﻮ
ﺍﺱ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﺑﺴﺎﻧﺎ ﮨﮯ
ﺗﻤﮭﺎﺭﯼ ﺧﻮﺍﺏ ﺳﯽ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﻋﮑﺲ ﮐﯽ
ﭘﺮﭼﮭﺎﺋﯽ ﮐﻮ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮐﺮﻧﮯ ﺩﻭ
ﺫﺭﺍ ﭨﮭﮩﺮﻭ ﻣﺠﮭﮯ ﺗﻨﮩﺎﺋﯽ ﮐﻮ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮐﺮﻧﮯ ﺩﻭ
ﺫﺭﺍ ﭨﮭﮩﺮﻭ !
ﻣﺠﮭﮯ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮐﺮﻧﮯ ﺩﻭ
ﺍﺫﯾﺖ ﺳﮯ ﺑﮭﺮﮮ ﻟﻤﺤﮯ
ﺑﭽﮭﮍﺗﮯ ﻭﻗﺖ ﮐﮯ ﻗﺼﮯ
ﮐﮧ ﺟﺐ ﺧﺎﻣﻮﺵ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﮐﮯ ﮐﻨﺎﺭﻭﮞ ﭘﺮ ﻣﺤﺒﺖ ﺟﻞ ﺭﮨﯽ
ﮨﻮﮔﯽ
ﮐﺌﯽ ﺟﻤﻠﮯ ﻟﺒﻮﮞ ﮐﯽ ﮐﭙﮑﭙﺎﮨﺖ ﺳﮯ ﮨﯽ ﭘﺘﮭﺮ ﮨﻮ ﺭﮨﮯ ﮨﻮﮞ
ﮔﮯ
ﻣﺠﮭﮯ ﺍﻥ ﭘﺘﮭﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﻦ ﮐﺮﺗﯽ ﭼﯿﺨﺘﯽ ﮔﻮﯾﺎﺋﯽ ﮐﻮ
ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮐﺮﻧﮯ
ﺩﻭ
ﺫﺭﺍ ﭨﮭﮩﺮﻭ ﻣﺠﮭﮯ ﺗﻨﮩﺎﺋﯽ ﮐﻮ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮐﺮﻧﮯ ﺩﻭ
ﺫﺭﺍ ﭨﮭﮩﺮﻭ !
ﻣﺠﮭﮯ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮐﺮﻧﮯ ﺩﻭ
ﺗﻤﮭﺎﺭﮮ ﺑﻌﺪ ﮐﺎ ﻣﻨﻈﺮ
ﺩﻝِ ﺑﺮﺑﺎﺩ ﮐﺎ ﻣﻨﻈﺮ
ﺟﮩﺎﮞ ﭘﺮ ﺁﺭﺯﻭﺅﮞ ﮐﮯ ﺟﻮﺍﮞ ﻻﺷﻮﮞ ﭘﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﺭﻭ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮔﺎ
ﺟﮩﺎﮞ ﻗﺴﻤﺖ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﯽ ﮐﮩﺎﻧﯽ ﻣﯿﮟ ﺟُﺪﺍﺋﯽ ﻟﮑﮫ ﺭﮨﯽ
ﮨﻮﮔﯽ
ﻣﺠﮭﮯ ﺍﻥ ﺳﺮﺩ ﻟﻤﺤﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﺴﮑﺘﮯ ﺩﺭﺩ ﮐﯽ ﮔﮩﺮﺍﺋﯽ ﮐﻮ
ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮐﺮﻧﮯ ﺩﻭ
ﺫﺭﺍ ﭨﮭﮩﺮﻭ ﻣﺠﮭﮯ ﺗﻨﮩﺎﺋﯽ ﮐﻮ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮐﺮﻧﮯ ﺩﻭ
ﺫﺭﺍ ﭨﮭﮩﺮﻭ !
ﻣﺠﮭﮯ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮐﺮﻧﮯ ﺩﻭ
ﺟُﺪﺍﺋﯽ ﺁﻥ ﭘﮩﻨﭽﯽ ﮨﮯ
ﻣﺠﮭﮯ ﺗﻢ ﺳﮯ ﺑﭽﮭﮍﻧﺎ ﮨﮯ
ﺍﺫﯾﺖ ﺳﮯ ﺑﮭﺮﮮ ﻟﻤﺤﮯ
ﺑﭽﮭﮍﺗﮯ ﻭﻗﺖ ﮐﮯ ﻗﺼﮯ
ﺗﻤﮭﺎﺭﮮ ﺑﻌﺪ ﮐﺎ ﻣﻨﻈﺮ
ﺩﻝِ ﺑﺮﺑﺎﺩ ﮐﺎ ﻣﻨﻈﺮ
ﺫﺭﺍ ﭨﮭﮩﺮﻭ !
ﻣﺠﮭﮯ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮐﺮﻧﮯ ﺩﻭ
وہ تیری آنکھوں کے خواب سارے
وہ تیری آنکھوں کے خواب سارے
وہ باتیں ساری حساب سارے
سوال سارے جواب سارے
وہ خوشیاں ساری عذاب سارے
نشہ تھا اک جو اتر گیا ہے
کچھ تو ہے تُو بدل گیا ہے
جو مجھ سے ملنے کی آرزو تھی
جو مجھ کو پانے کی جستجو تھی
ہوئی جو چاہت ابھی شروع تھی
جو تیری آنکھوں میں روشنی تھی
جو تیری باتوں کی راگنی تھی
جو تیری سانسوں کی تازگی تھی
جو تیرے لہجے میں چاشنی تھی
وہ میٹھا سارا پگھل گیا ہے
کچھ تو ہےتُو بدل گیا ہے
کیا عجیب رشتہ ہے
کیا عجیب رشتہ ہے
موت زندگی کا بهی
دل سے شاعری کا بهی
دهڑکنوں سے سانسوں کا
مجهہ سے تیری یادوں کا
کچهہ سمجهہ نہیں آتا
ضبط آخری حد تک
آزمائے جاتے ہیں
اور ایسے رشتوں کو
ہم نبهائے جاتے ہیں
اسے کہنا! قسم لے لو تمہارے بعد.
اسے کہنا! قسم لے لو تمہارے بعد.
کسی کا خواب دیکھا ہو.
کسی کو ہم نے چاہا ہو.
کسی کو ہم نے سوچا ہو.
کسی کی آرزو کی ہو.
کسی کی جستجو کی ہو.
کسی کی راہ دیکھی ہو.
اسے کہنا! قسم لے لو.
کسی کا قرب مانگا ہو.
کسی کو ساتھ رکھا ہو.
کسی سے آس رکھی ہو.
کوئی امید باندھی ہو.
کوئی دل میں اترا ہو.
کوئی تم سے پیارا ہو.
اسے کہنا! قسم لے لو.
کوئی دل میں بسایا ہو.
کوئی اپنا بنایا ہو.
کوئی روٹھا ہو تو ہم نے.
اسے رو رو منایا ہو.
کسی کی یاد کا موسم.
میرے آنگن میں آیا ہو.
اسے کہنا! قسم لے لو.
کسی سے بات کرنے کو.
کبھی یہ ہونٹ ترسے ہوں.
کسی کی بے وفائی پر.
کبھی یہ نین برسے ہوں.
کبھی راتوں کو اٹھ اٹھ کر.
تیرے دکھ میں نہ روۓ ہوں.
تمہارے بعد ہم ایک پل بھی.
اگر جو چین سے سوۓ ہوں.
اسے کہنا! قسم لے لو.
کبھی جگنو، کبھی تارا.
کبھی ماہتاب دیکھا ہو.
اسے کہنا! قسم لے لو.
تمہارے بعد ہم نے.
جو کسی کا خواب دیکھا ہو.
قسم لے لو.
اسے کہنا! قسم لے لو
محبت کی ریاضی
ﺭﯾﺎﺿﯽ ﮐﮯ ﺍﺻﻮﻟﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﺑﻼ ﮐﮯ ﺁﭖ ﻣﺎﮨﺮ ﮨﻮ
ﮐﮩﺎﮞ ﭘﺮﮐﯿﺎ ﮔﮭﭩﺎﻧﺎ ﮨﮯ
ﮐﮩﺎﮞ ﮐﯿﺎ ﮐﭽﮫ ﺑﮍﮬﺎﻧﺎ ﮨﮯ
ﮐﮩﺎﮞ ﺍﻋﺪﺍﺩ ﮐﮯ ﺯﻣﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﺗﻘﺴﯿﻢ ﮐﺮﻧﺎ ﮨﮯ
ﮐﮩﺎﮞ ﺗﻔﺮﯾﻖ ﮐﺮﻧﺎ ﮨﮯ
ﮐﮩﺎﮞ ﭘﺮ ﺿﺮﺏ ﻟﮕﺎﻧﯽ ﮨﮯ
ﺗﻤﮩﯿﮟ ﯾﮧ ﺧﻮﺏ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ
ﻣﮕﺮ ﯾﮧ ﺟﻮ ﻣﺤﺒﺖ ﮨﮯ ﯾﮩﺎﮞ ﯾﮧ ﻓﻦ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﻠﺘﺎ
ﺿﺮﺏ ﺗﻘﺴﯿﻢ ﯾﺎ ﺗﻔﺮﯾﻖ ﭼﺎﮨﺖ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﯽ
ﯾﮧ ﺩﻭ ﮐﮯ ﻗﺎﻋﺪﮮ پہ ﺑﺲ ﺳﺪﺍ ﺁﺑﺎﺩ ﺭﮨﺘﯽ ﮨﮯ
ﺍﻭﺭ ﺩﻭ ﮐﮯ ﻗﺎﻋﺪﮮ ﻣﯿﮟ ﺗﯿﺴﺮﮮ ﮐﻮ ﺷﺮﮎ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ
ﺟﻮ ﺩﻭ ﺳﮯ ﺍﮎ ﻧﮑﻞ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﮐﭽﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﭽﺘﺎ
ﯾﮩﯽ ﮨﮯ ﻗﺎﻋﺪﮦ ﺍﺱ ﮐﺎ ﯾﮩﯽ ﺍﺳﮑﯽ ﺭﯾﺎﺿﯽ ﮨﮯ
ﻣﺤﺒﺖ ﺑﮯ ﻧﯿﺎﺯﯼ ﮨﮯ
ﮐﺒﮭﯽ ﻣﺎﯾﻮﺱ ﻣﺖ ﮨﻮنا
ﮐﺒﮭﯽ ﻣﺎﯾﻮﺱ ﻣﺖ ﮨﻮنا
ﺍﻧﺪﮬﯿﺮﺍ ﮐﺘﻨﺎ ﮔﮩﺮﺍ ﮨﻮ
ﺳﺤﺮ ﮐﯽ ﺭﺍﮦ ﻣﯿﮟ ﺣﺎﺋﻞ
ﮐﺒﮭﯽ ﺑﮭﯽ ﮨﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﺎ
ﺳﻮﯾﺮﺍ ﮨﻮ ﮐﮯ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﮯ
ﮐﺒﮭﯽ ﻣﺎﯾﻮﺱ ﻣﺖ ﮨﻮﻧﺎ
ﺍﻣﯿﺪﻭﮞ ﮐﮯ ﺳﻤﻨﺪﺭ ﻣﯿﮟ
ﺗﻼﻃﻢ ﺁﺗﮯ ﺭﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ
ﺳﻔﯿﻨﮯ ﮈﻭﺑﺘﮯ ﺑﮭﯽ ﮨﯿﮟ
ﺳﻔﺮ ﻟﯿﮑﻦ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮐﺘﺎ
ﻣﺴﺎﻓﺮ ﭨﻮﭦ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﻣﮕﺮ ﻣﺎﻧﺠﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﮑﺘﺎ
ﺳﻔﺮ ﻃﮯ ﮨﻮ ﮐﮯ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﮯ
ﮐﺒﮭﯽ ﻣﺎﯾﻮﺱ ﻣﺖ ﮨﻮﻧﺎ
ﺧﺪﺍ ﺣﺎﺿﺮ ﮨﮯ ﻧﺎﻇﺮ ﺑﮭﯽ
ﺧﺪﺍ ﻇﺎﮨﺮ ﮨﮯ ﻣﻨﻈﺮ ﺑﮭﯽ
ﻭﮨﯽ ﮨﮯ ﺣﺎﻝ ﺳﮯ ﻭﺍﻗﻒ
ﻭﮨﯽ ﺳﯿﻨﻮﮞ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺑﮭﯽ
ﻣﺼﯿﺒﺖ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﮬﯿﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ
ﮐﺒﮭﯽ ﺗﻢ ﻣﺎﻧﮓ ﮐﺮ ﺩﯾﮑﮭﻮ
ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﺁﻧﮑﮫ ﮐﮯ ﺁﻧﺴﻮ
ﯾﻮﮞ ﮨﯽ ﮈﮬﻠﻨﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﮮ ﮔﺎ
ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﺁﺱ ﮐﯽ ﮔﺎﮔﺮ
ﮐﺒﮭﯽ ﮔﺮﻧﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﮮ ﮔﺎ
ﮨﻮﺍ ﮐﺘﻨﯽ ﻣﺨﺎﻟﻒ ﮨﻮ
ﺗﻤﮩﯿﮟ ﻣﮍﻧﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﮮ ﮔﺎ
ﮐﺒﮭﯽ ﻣﺎﯾﻮﺱ ﻣﺖ ﮨﻮﻧﺎ
ﻭﮨﺎﮞ ﺍﻧﺼﺎﻑ ﮐﯽ ﭼﮑّﯽ
ﺫﺭﺍ ﺩﮬﯿﺮﮮ ﺳﮯ ﭼﻠﺘﯽ ﮨﮯ
ﻣﮕﺮ ﭼﮑّﯽ ﮐﮯ ﭘﺎﭨﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﺑﮩﺖ ﺑﺎﺭﯾﮏ ﭘﺴﺘﺎ ﮨﮯ
ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺍﯾﮏ ﮐﺎ ﺑﺪﻟﮧ
ﻭﮨﺎﮞ ﺳﺘﺮ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﮨﮯ
ﻧﯿﺖ ﺗﻠﺘﯽ ﮨﮯ ﭘﻠﮍﻭﮞ ﻣﯿﮟ
ﻋﻤﻞ ﻧﺎﭘﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎﺗﮯ
ﻭﮨﺎﮞ ﺟﻮ ﮨﺎﺗﮫ ﺍﭨﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ
ﮐﺒﮭﯽ ﺧﺎﻟﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺗﮯ
ﺫﺭﺍ ﺳﯽ ﺩﯾﺮ ﻟﮕﺘﯽ ﮨﮯ
ﻣﮕﺮ ﻭﮦ ﺩﮮ ﮐﮯ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﮯ
ﮐﺒﮭﯽ ﻣﺎﯾﻮﺱ ﻣﺖ ﮨﻮﻧﺎ
ﺩﺭﯾﺪﮦ ﺩﺍﻣﻨﻮﮞ ﮐﻮ ﻭﮦ
ﺭﻓﻮ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﺭﺣﻤﺖ ﺳﮯ
ﺍﮔﺮ ﮐﺶ ﮐﻮﻝ ﭨﻮﭨﺎ ﮨﻮ
ﺗﻮ ﻭﮦ ﺑﮭﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﻧﻌﻤﺖ ﺳﮯ
ﮐﺒﮭﯽ ﺍﯾﻮﺏؑ ﮐﯽ ﺧﺎﻃﺮ
ﺯﻣﯿﮟ ﭼﺸﻤﮧ ﺍﺑﻠﺘﯽ ﮨﮯ
ﮐﮩﯿﮟ ﯾﻮﻧﺲؑ ﮐﮯ ﮨﻮﻧﭩﻮﮞ ﭘﺮ
ﺍﮔﺮ ﻓﺮﯾﺎﺩ ﺍﭨﮭﺘﯽ ﮨﮯ
ﮐﺴﯽ ﺑﻨﺠﺮ ﺟﺰﯾﺮﮮ ﭘﺮ
ﮐﺪﻭ ﮐﯽ ﺑﯿﻞ ﺍﮔﺘﯽ ﮨﮯ
ﺟﻮ ﺳﺎﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﮨﮯ ﭘﺎﻧﯽ ﺑﮭﯽ
ﻋﻼﺝِ ﻧﺎ ﺗﻮﺍﻧﯽ ﺑﮭﯽ
ﮐﺒﮭﯽ ﻣﺎﯾﻮﺱ ﻣﺖ ﮨﻮﻧﺎ
ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺩﻝ ﮐﯽ ﭨﯿﺴﻮﮞ ﮐﻮ
ﯾﻮﮞ ﮨﯽ ﺩُﮐﮭﻨﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﮮ ﮔﺎ
ﺗﻤﻨﺎ ﮐﺎ ﺩﯾﺎ ﻋﺎﺻﻢؔ ﮐﺒﮭﯽ
ﺑﺠﮭﻨﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﮮ ﮔﺎ
ﮐﺒﮭﯽ ﻭﮦ ﺁﺱ ﮐﺎ ﺩﺭﯾﺎ
ﮐﮩﯿﮟ ﺭﮐﻨﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﮮ ﮔﺎ
ﮐﺒﮭﯽ ﻣﺎﯾﻮﺱ ﻣﺖ ﮨﻮﻧﺎ
ﺟﺐ ﺍُﺱ ﮐﮯ ﺭﺣﻢ ﮐﺎ ﺳﺎﮔﺮ
ﭼﮭﻠﮏ ﮐﮯ ﺟﻮﺵ ﮐﮭﺎﺗﺎ ﮨﮯ
ﻗﮩﺮ ﮈﮬﺎﺗﺎ ﮨﻮﺍ ﺳﻮﺭﺝ
ﯾﮑﺎ ﯾﮏ ﮐﺎﻧﭗ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ
ﮨﻮﺍ ﺍﭨﮭﺘﯽ ﮨﮯ ﻟﮩﺮﺍ ﮐﺮ
ﮔﮭﭩﺎ ﺳﺠﺪﮮ ﻣﯿﮟ ﮔﺮﺗﯽ ﮨﮯ
ﺟﮩﺎﮞ ﺩﮬﺮﺗﯽ ﺗﺮﺳﺘﯽ ﮨﮯ
ﻭﮨﯿﮟ ﺭﺣﻤﺖ ﺑﺮﺳﺘﯽ ﮨﮯ
ﺗﺮﺳﺘﮯ ﺭﯾﮓ ﺯﺍﺭﻭﮞ ﭘﺮ
ﺍﺑﺮ ﺑﮩﮧ ﮐﮯ ﮨﯽ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﮯ
ﻧﻈﺮ ﻭﮦ ﺍﭨﮫ ﮐﮯ ﺭﮨﺘﯽ ﮨﮯ
ﮐﺮﻡ ﮨﻮ ﮐﮯ ﮨﯽ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﮯ
ﺍﻣﯿﺪﻭﮞ ﮐﺎ ﭼﻤﮑﺘﺎ ﺩﻥ
ﺍﻣﺮ ﮨﻮ ﮐﮯ ﮨﯽ ﺭﮨﺘﺎ ہے
ﮐﺒﮭﯽ ﻣﺎﯾﻮﺱ ﻣﺖ ﮨﻮﻧﺎ
Tuesday, September 20, 2016
ﺯﻧﺪﮔﯽ
ﺯﻧﺪﮔﯽ!ﭼﻞ ﮐﮧ ﺫﺭﺍ ﻣﻮﺕ
ﮐﺎ ﺩﻡ ﺧﻢ ﺩﯾﮑﮭﯿﮟ
ﻭﺭﻧﮧ ﯾﮧ ﺟﺬﺑﮧ ﻟﺤَﺪ ﺗﮏ
ﮨﻤﯿﮟ ﻟﮯ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ
ﺁﮒ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﮐُﻮﺩﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ
ﮐﮭﯿﻞ ﻣﯿﮟ ﮨﺪﺍﯾﺖ ﺩﯾﻨﮯ
ﻭﺍﻟﮯ ﮐﯽ ﮐﯿﺎ ﺿﺮﻭﺭﺕ
. .ﭘﺮﯾﻢ ﮐﯽ ﺍﺭﺗﮭﯽ ﮐﻮ
ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﮯ ﮐﺎﻧﺪﮬﻮﮞ
ﺳﮯ ﮐﯿﺎ ﺳﺮﻭﮐﺎﺭ، ﯾﮧ
ﻻﺵ ﺗﻮ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺑﮭﺮ ﮨﻤﯿﮟ
ﺍﭘﻨﮯ ﮨﯽ ﮐﺎﻧﺪﮬﻮﮞ ﭘﺮ
ﺍُﭨﮭﺎﺋﮯ ﺍُﭨﮭﺎﺋﮯ ﺑﮭﺮﻧﺎ
ﮨﻮﮔﯽ
آؤ جانچ لیتے ہیں
آؤ جانچ لیتے ہیں
درد کے ترازو پر
کس آؤ جانچ لیتے ہیں
درد کے ترازو پر
کس کے غم کہاں تک ہیں
شّدتیں کہاں تک ہیں
کچھ عزیز لوگوں سے
پوچھنا تو پڑتا ہے
آج کل محبت کی
قیمتیں کہاں تک ہیں ؟
اک شام چلے آؤ
حالِ دِل کُھل کر کہہ لیں
کون جانے سانسوں کی
مہلتیں کہاں تک ہیں غم کہاں تک ہیں
شّدتیں کہاں تک ہیں
کچھ عزیز لوگوں سے
پوچھنا تو پڑتا ہے
آج کل محبت کی
قیمتیں کہاں تک ہیں ؟
اک شام چلے آؤ
حالِ دِل کُھل کر کہہ لیں
کون جانے سانسوں کی
مہلتیں کہاں تک ہیں
Friday, September 9, 2016
اے عشق نہ چھیڑ آ آ کے ہمیں
اے عشق نہ چھیڑ آ آ کے ہمیں
ہم بھولے ہوؤں کو یاد نہ کر!
پہلے ہی بہت ناشاد ہیں ہم
تو اور ہمیں ناشاد نہ کر!
قسمت کا ستم ہی کم نہیں کچھ
یہ تازہ ستم ایجاد نہ کر!
یوں ظلم نہ کر، بیداد نہ کر!
اے عشق ہمیں برباد نہ کر!
جس دن سے ملے ہیں دونوں کا
سب چین گیا، آرام گیا
چہروں سے بہار صبح گئی
آنکھوں سے فروغ شام گیا
ہاتھوں سے خوشی کا جام چھٹا
ہونٹوں سے ہنسی کا نام گیا
غمگیں نہ بنا، ناشاد نہ کر!
اے عشق ہمیں برباد نہ کر!
راتوں کو اٹھ اٹھ کر روتے ہیں
رو رو کے دعائیں کر تے ہیں
آنکھوں میں تصور،دل میں خلش
سر دھنتے ہیں آہیں بھرتےہیں
اے عشق! یہ کیسا روگ لگا
جیتے ہیں نہ ظالم مرتے ہیں؟
یہ ظلم تو اے جلاد نہ کر!
اے عشق ہمیں برباد نہ کر!
یہ روگ لگا ہے جب سے ہمیں
رنجیدہ ہوں میں بیمار ہے وہ
ہر وقت تپش، ہر وقت خلش بے
خواب ہوں میں،بیدار ہے وہ
جینے سے ادھر بیزار ہوں میں
مرنے پہ ادھر تیار ہے وہ
اور ضبط کہے فریاد نہ کر!
اے عشق ہمیں برباد نہ کر!
جس دن سے بندھا ہے دھیان ترا
گھبرائےہوئے سے رہتے ہیں
ہر وقت تصور کر کر کے
شرمائے ہوئے سے رہتے ہیں
کملائے ہوئے پھولوں کی طرح
کملائے ہوئے سے رہتے ہیں
پامال نہ کر، برباد نہ کر!
اے عشق ہمیں برباد نہ کر!
بیددر! ذرا انصاف تو کر!
اس عمر میں اور مغموم ہے وہ!
پھولوں کی طرح نازک ہے ابھی
تاروں کی طرح معصوم ہے وہ!
یہ حسن ، ستم! یہ رنج،غضب!
مجبور ہوں میں! مظلوم ہے وہ!
مظلوم پہ یوں بیداد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر!
اے عشق خدارا دیکھ کہیں
وہ شوخ حزیں بدنام نہ ہو !
وہ ماہ لقا بدنام نہ ہو !
وہ زہرہ جبیں بدنام نہ ہو !
ناموس کا اس کے پاس رہے
وہ پردہ نشیں بدنام نہ ہو!
اس پردہ نشیں کو یاد نہ کر!
اے عشق ہمیں برباد نہ کر!
امید کی جھوٹی جنت کے
رہ رہ کے نہ دکھلا خواب ہمیں!
آئندہ کی فرضی عشرت کے
وعدوں سے نہ کر بیتاب ہمیں!
کہتا ہے زمانہ جس کو خوشی
آتی ہے نظر کمیاب ہمیں!
چھوڑ ایسی خوشی کویاد نہ کر!
اے عشق ہمیں برباد نہ کر!
کیا سمجھےتھےاور تو کیا نکلا
یہ سوچ کےہی حیران ہیں ہم!
ہے پہلے پہل کا تجربہ اور
کم عمر ہیں ہم، انجان ہیں ہم!
اے عشق ! خدارا رحم و کرم!
معصوم ہیں ہم ،نادان ہیں ہم!
نادان ہیں ہم، ناشاد نہ کر!
اے عشق ہمیں برباد نہ کر!
وہ راز ہے یہ غم آہ جسے
پا جائے کوئی تو خیر نہیں!
آنکھوں سےجب آنسو بہتےہیں
آجائے کوئی تو خیر نہیں!
ظالم ہے یہ دنیا، دل کو یہاں
بھا جائے کوئی تو خیر نہیں!
ہے ظلم مگر فریاد نہ کر!
اے عشق ہمیں بر باد نہ کر!
دو دن ہی میں عہد طفلی کے
معصوم زمانے بھول گئے!
آنکھوں سےوہ خوشیاں مٹ سی گئیں
لب کووہ ترانےبھول گئے!
ان پاک بہشتی خوابوں کے
دلچسپ فسانے بھول گئے!
ان خوابوں سے یوں آزاد نہ کر!
اے عشق ہمیں برباد نہ کر!
اس جان حیا کا بس نہیں کچھ
بے بس ہے پرائے بس میں ہے
بے درد دلوں کو کیا ہے خبر
جو پیار یہاں آپس میں ہے
ہے بے بسی زہر اور پیار ہے رس
یہ زہر چھپا اس رس میں ہے
کہتی ہے حیا فریاد نہ کر!
اے عشق ہمیں برباد نہ کر!
آنکھوں کو یہ کیا آزار ہوا
ہر جذب نہاں پر رو دینا!
آہنگ طرب پر جھک جانا
آواز و فغاں پر رو دینا!
بربط کی صدا پر رو دینا
مطرب کے بیاں پر رو دینا!
احساس کو غم بنیاد نہ کر!
اے عشق ہمیں برباد نہ کر!
ہر دم ابدی راحت کا سماں
دکھلا کے ہمیں دلگیر نہ کر!
للہ حبابِ آب رواں پر
نقش بقا تحریر نہ کر!
مایوسی کے رمتے بادل پر
امید کے گھر تعمیر نہ کر!
تعمیر نہ کر، آباد نہ کر !
اے عشق ہمیں بر باد نہ کر!
جی چاہتا ہے اک دوسرے کو
یوں آٹھ پہر ہم یاد کریں!
آنکھوں میں بسائیں خوابوں کو
اور دل میں خیال آباد کریں!
خلوت میں بھی ہوجلوت کاسماں
وحدت کو دوئی سےشاد کریں!
یہ آرزوئیں ایجاد نہ کر!
اے عشق ہمیں برباد نہ کر!
دنیا کا تماشا دیکھ لیا
غمگین سی ہے ، بے تاب سی ہے!
امید یہاں اک وہم سا ہے
تسکین یہاں اک خواب سی ہے!
دنیا میں خوشی کا نام نہیں
دنیا میں خوشی نایاب سی ہے!
دنیا میں خوشی کو یاد نہ کر!
اے عشق ہمیں برباد نہ کر!
Thursday, September 8, 2016
بارش
ﻭﮦ ﭘِﭽﮭﻠﯽ ﺑﺎﺭﺷﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮨﻢ
ﺑﮍﮮ ﻧﺎﺩﺍﻥ ﮨﻮﺗﮯ ﺗﮭﮯ
ﺳَﺐ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮫ ﺳﮯ ﺑَﭻ ﮐﺮ
ﭘُﺮﺍﻧﯽ ﮐﺎﭘﯿﻮﮞ ﺳﮯ ﮨﻢ
ﻭَﺭﻕ ﮐُﭽﮫ ﻧﻮﭺ ﻟﯿﺘﮯ ﺗﮭﮯ
ﮨَﻢ ﺍِﮎ ﮐﺸﺘﯽ ﺑﻨﺎﺗﮯ ﺗﮭﮯ
ﻭﮦ ﭘﺎﻧﯽ ﭘﺮ ﭼﻼﺗﮯ ﺗﮭﮯ
ﮨﻤﯿﮟ ﻟﮕﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﺟﯿﺴﮯ ﮨﻢ
ﺍُﺱ ﮐﺸﺘﯽ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﮨﯿﮟ
ﻭﮦ ﮐﺸﺘﯽ ﮈُﻭﺏ ﺟﺎﺗﯽ ﺗﮭﯽ
ﺗﻮ ﮨﻢ ﺑﮭﯽ ﮈُﻭﺏ ﺟﺎﺗﮯ ﺗﮭﮯ
ﻭﮦ ﮐﺸﺘﯽ ﭘﺎﺭ ﻟﮕﺘﯽ ﺗﮭﯽ
ﺗﻮ ﮨﻢ ﺑﮭﯽ ﭘﺎﺭ ﻟﮕﺘﮯ ﺗﮭﮯ
ﭼﻠﻮ ﮔُﺰﺭﮮ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﻞ ﮐﮯ
ﻭﮦ ﭘَﻞ ﭘﮭﺮ ﮈﮬﻮﻧﮉ ﻻﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﭘُﺮﺍﻧﯽ ﮐﺎﭘﯿﺎﮞ ﻟﮯ ﮐﺮ
ﻧﺌﯽ ﮐﺸﺘﯽ ﺑﻨﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﻭﮦ ﭘﺎﻧﯽ ﭘﺮ ﭼﻼﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﭼﻠﻮ ﭘِﮭﺮ ﭘﺎﺭ ﻟﮕﺘﮯ ﮨﯿﮟ
ﭼﻠﻮ ﭘِﮭﺮ ﮈُﻭﺏ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ
Tuesday, September 6, 2016
تم
تم دعا ہو، تو
ﻣﺎﻧﮕﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﻤﮩﯿﮟ
ﺗﻢ ﮨﻮ ﺧﻮﺍﮨﺶ،
ﺗﻮ ﺭﻭﺯ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﮔﺮ ﮨﻮﺍ ﮨﻮ، ﺗﻮ
ﺍﭘﻨﮯ ﺳﯿﻨﮯ ﻣﯿﮟ
ﺳﺎﻧﺲ ﺩﺭ ﺳﺎﻧﺲ
ﺗﻢ ﮐﻮ ﺑﮭﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﺗﻢ ﮐﻮﺋﯽ ﺳﻮﭺ ﮨﻮ، ﺗﻮ
ﺳﻮﭼﺘﮯ ﮨﯿﮟ
ﮨﻮ ﻧﻈﺎﺭﺍ ﮐﻮﺋﯽ ﺗﻮ
ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ
ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮨﻮ، ﺗﻮ
ﺁﺅ ﺟﯿﺘﮯ ﮨﯿﮟ
ﮔﺮ ﺯﮨﺮ ﮨﻮ، ﺗﻮ
ﮨﻨﺲ کے ﭘﯿﺘﮯ ﮨﯿﮟ
ﺭﻭﮒ ﮨﻮ ﺗﻢ، ﺗﻮ
ﺭُﻭﺡ ﻣﯿﮟ ﭘﻞ ﺟﺎﺅ
ﻋﺸﻖ ﮨﻮ ﺗﻮ
ﺟﻨﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮈﮬﻞ ﺟﺎﺅ
ﮔﺮ ﮔﻤﺎﮞ ﮨﻮ
ﯾﻘﯿﮟ ﺑﻦ ﺟﺎﺅ
ﺗﻢ ﻣﯿﺮﮮ ﮨﻢ ﻧﺸﯿﻦ ﺑﻦ ﺟﺎﺅ