دِلِ گمشدہ! کبھی مل ذرا
کسی خشک خاک کے ڈھیر پر
یا کسی مکاں کی منڈیر پر
دِلِ گمشدہ! کبھی مِل ذرا
جہاں لوگ ہوں، اُسے چھوڑ کر
کسی راہ پر، کسی موڑ پر
دِلِ گمشدہ! کبھی مِل ذرا
مجھے وقت دے، مری بات سُن
مری حالتوں کو تو دیکھ لے
مجھے اپنا حال بتا کبھی
کبھی پاس آ! کبھی مِل سہی
مرا حال پوچھ! بتا مجھے
مرے کس گناہ کی سزا ہے یہ
تُو جنون ساز بھی خود بنا
مری وجہِ عشق یقیں ترا
مِلا یار بھی تو، ترے سبب
وہ گیا تو ، تُو بھی چلا گیا
دِلِ گمشدہ؟ یہ وفا ہے کیا
اِسے کِس ادا میں لکھوں بتا
اِسے قسمتوں کا ثمر لکھوں
یا لکھوں میں اِس کو دغا، سزا
دِلِ گمشدہ! دِلِ گمشدہ
No comments:
Post a Comment