ہاں مجھے محبت ہے تم سے
محبّت میں اگر کوئی جھوٹ بولے تو
محبّت روٹھ جاتی ہے
محبّت ٹوٹ جاتی ہے
محبّت میں اداکاری نہیں چلتی
محبّت میں ریا کاری نہیں چلتی
محبّت سچّے جذبوں سے بنا انمول موتی ہے
محبّت زندگی میں فقط اک بار ہوتی ہے
محبّت کانچ کی مانند
محبّت آنچ کی مانند
کہ جوں جوں وقت گزرے تو
یہ ہر پل تیز ہوتی ہے
سلگتی آگ کی مانند
محبّت راگ کی مانند
کہ اس کے سننے والوں پر
عجب مدہوشی چھاتی ہے
محبّت جھلملاتی ہے
چمکتے چاند کی مانند
محبّت ایک مورت ہے
محبّت خوبصورت ہے
یہ مورت سب کو بھاتی ہے
کئی سجدے کراتی ہے
محبّت ریل کی مانند
کہ انجانے مسافر اس کی ہر پل
راہ تکتے ہیں
یہ بس اک بار آتی ہے
اگر یہ چھوٹ جائے تو
مسافر سوگ کرتے ہیں
مسافر روگ کرتے ہیں
محبّت جوگ کی مانند
جسے اک بار لگ جائے
وہ سب کُچھ بھول جاتا ہے
محبّت دیوار سے لپٹی اک بیل کی مانند
جو سدا بڑھتی ہی جاتی ہے
محبّت خوشبو کی مانند
جو ہر سو پھیل جاتی ہے
محبّت گنگناتی ہے
سُریلے گیت کے مانند
کسی کے نرم ہونٹوں سے
یہ جب لفظوں کی صورت میں نکلتی ہے
تمنّا پھر مچلتی ہے
محبّت راکھ ہوتی ہے
محبّت پاک ہوتی ہے
محبّت معصوم سا سچ ہے
کہ اس کو بولنے سے روح میں
پاکیزگی سی لوٹ آتی ہے
تبھی تو! محبّت میں اگر کوئی جھوٹ بولے تو
!!!!محبّت روٹھ جاتی ہے
Saturday, September 16, 2017
محبّت روٹھ جاتی ہے
روئیے مار دیتے ہیں یہ لہجے مار دیتے ہیں
روئیے مار دیتے ہیں یہ لہجے مار دیتے ہیں
وہی جو جان سے پیارے ہیں رشتے مار دیتے ہیں
کبھی برسوں گزرنے پر کہیں بھی کچھ نہیں ہوتا
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ لمحے مار دیتے ہیں
کبھی منزل پہ جانے کے نشاں تک بھی نہیں ملتے
جو رستوں میں بھٹک جائیں تو رستے مار دیتے ہیں
کہانی ختم ہوتی ہے کبھی انجام سے پہلے
ادھورے نامکمل سے یہ قصے مار دیتے ہیں
ہزاروں وار دنیا کے سہے جاتے ہیں ہنس ہنس کے
مگر اپنوں کے طعنے اور شکوے مار دیتے ہیں
مجھے اکثر یہ لگتا ہے کہ جیسے ہوں نہیں ہوں میں
مجھے ہونے نہ ہونے کے یہ خدشے مار دیتے ہیں
کبھی مرنے سے پہلے بھی بشر کو مرنا پڑتا ہے
یہاں جینے کے ملتے ہیں جو صدمے مار دیتے ہیں
بہت احسان جتانے سے تعلق ٹوٹ جاتا ہے
بہت ایثار وقربانی کے جذبے مار دیتے ہیں
کبھی طوفاں کی زد سے بھی سفینے بچ نکلتے ہیں
کبھی سالم سفینوں کو کنارے مار دیتے ہیں
وہ حصہ کاٹ ڈالا زہر کا خدشہ رہا جس میں
جو باقی رہ گئے مجھ میں وہ حصے مار دیتے ہیں
جو آنکھوں میں رہیں نزہتؔ وہی تو خواب اچھے ہیں
جنھیں تعبیر مل جائے وہ سپنے مار دیتے ہیں
وہ نمازوں میں دعاوں کے وظیفوں جیسا
وہ نمازوں میں دعاوں کے وظیفوں جیسا
میں رعایا کی طرح ہوں وہ خلیفوں جیسا
اس کا ہر نقش ہے ازبر مجھے آیت کی طرح
اس کا ہر لمس میسر ہے صحیفوں جیسا
اب کے یہ دشت مرے پاوں پڑا ہے ورنہ
اس کا میرا تو تعلق تھا حریفوں جیسا
یہ تعلق بھی توانائی گنوا بیٹھا ہے
بوڑھے احساس کی مانند، ضعیفوں جیسا
زندگی پاوں کی ٹھوکر پہ ہمیں رکھتی ہے....
اس کا انداز نہیں یار! شریفوں جیسا
نبض تھم جائے اگر یاد کا موسم اترے
عشق میں حال ہوا دیکھ نحیفوں جیسا
دونوں مل جل کے کریں جیت کو کومل تقسیم
کیوں نہ اس بار جمے کھیل حلیفوں جیسا....!!
ﺳﺐ ﮐﭽﮫ ﻧﺎﻡ ﺗﯿﺮﮮ
ﮐﺒﮭﯽ ﺍُﻟﻔﺖ ﺑﮭﺮﺍ ﻟﮩﺠﮧ
ﮐﺒﮭﯽ ﺍُﺗﺮﺍ ﮨُﻮﺍ ﭼﮩﺮﮦ
ﺳﻤﺠﮫ ﻣﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺗﺎ
ﺑﺘﺎ ﻣﯿﺮﺍ ﮔﻨﺎﮦ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ؟
ﻣﯿﺮﯼ ﺍُﻟﺠﮭﻦ ﻣﭩﺎ ﺗﻮ ﺩﮮ
ﻣﺠﮭﮯ ﺍﺗﻨﺎ ﺑﺘﺎ ﺗﻮ ﺩﮮ
ﻣﯿﮟ ﻣُﺠﺮﻡ ﮨﻮﮞ ﯾﺎ ﻣﺤﺮﻡ ﮨﻮﮞ
ﺳﺰﺍ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ؟
ﺟﺰﺍ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ؟
ﻣﯿﺮﯼ ﺳﺎﻧﺴﯿﮟ ﺗﻮ ﭼﻠﺘﯿﮟ ﮨﯿﮟ
ﺗﯿﺮﯼ ﯾﺎﺩﻭﮞ ﺳﮯ ﺍﮮ ﮨﻤﺪﻡ
ﻧﮩﯿﮟ ﻓﺮﺻﺖ ﮐﮧ ﯾﮧ ﺳﻮﭼﻮﮞ
ﻓﻨﺎ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ؟
ﺑﻘﺎ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ؟
ﻣﯿﺮﺍ ﯾﮧ ﺩﻝ، ﻣﯿﺮﯼ ﺩﮬﮍﮐﻦ
ﻣﯿﺮﯼ ﺳﺎﻧﺴﯿﮟ، ﯾﮧ ﻣﯿﺮﯼ ﺟﺎﮞ
ﯾﮧ ﺳﺐ ﮐﭽﮫ ﻧﺎﻡ ﺗﯿﺮﮮ ﮨﮯ
ﺑﺘﺎ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﺑﭽﺎ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ؟
وہ خواب ہواؤں میں بکھر کیوں نہیں جاتا
بے نام سا یہ درد ٹھہر کیوں نہیں جاتا
جو بیت گیا ہے وہ گزر کیوں نہیں جاتا
سب کچھ تو ہے کیا ڈھونڈھتی رہتی ہیں نگاہیں
کیا بات ہے میں وقت پے گھر کیوں نہیں جاتا
وہ ایک ہی چہرہ تو نہیں سارے جہاں میں
جو دور ہے وہ دل سے اتر کیوں نہیں جاتا
میں اپنی ہی الجھی ہوئی راہوں کا تماشہ
جاتے ہیں جدھر سب میں ادھر کیوں نہیں جاتا
وہ خواب جو برسوں سے نہ چہرہ نہ بدن ہے
وہ خواب ہواؤں میں بکھر کیوں نہیں جاتا
رنگریز میرے
اک بوند عشقیہ ڈال کوئی
میرے سات سمندر رنگ جائیں
میری حد بھی رنگ ، سرحد بھی رنگ
مندر مسجد ، میکدہ بھی رنگ
نیندیں رنگ دے ، کروٹ بھی رنگ
خوابوں سے پرے سلوٹ بھی رنگ
یہ تو ہی ہے ، حیرت رنگ دے
آ دل میں سما ، حسرت رنگ دے
پھر آجا اور وصلت رنگ دے
جو آنہ سکے فرقت رنگ دے
اک درد لئے میں زندہ ہوں
آجا میری صورت رنگ دے
میرا رنگ بھی تو رنگریز بھی تو
میری نیا بھی منجدھار بھی تو
تجھ میں ڈوبوں تجھ میں ابھروں
رنگریز میرے رنگریز میرے
خواب
چلو کچھ خواب بنتے ہیں
نظر میں رات اتری ہے
افق پر چاند پھیلا ہے
ستارے سارے پربت پر
وہ اپنی ہی ضیافت میں
وہ کیسے جھلملاتے ہیں
خلش اک دل میں اٹھی ہے
ہے سناٹا ذہن میں اب
خلش جو دل میں اٹھی ہے
اسی پر غور کرتے ہیں
صدا اس کی ہی سنتے ہیں
چلو کچھ خواب بنتے ہیں
ہیں کل سے رتجگی آنکھیں
نہ نیندوں کی سجی لوری
نہ غم کی ہے تھمی آندھی
نہ سوچوں پر ہے کچھ قابو
دشائیں چارسو اس دھن
میں گم سم ہیں فسردہ ہیں
یہ سناٹا بپا کیوں ہے
دلوں کے قہقہوں میں اب
اسی محو- توجھ میں
نئے فقروں کو چنتے ہیں
چلو کچھ خواب بنتے ہیں
گلابوں کے نگینوں میں
مکینوں کے دریچوں میں
نگاہوں کے سفینوں ًمیں
دلوں کے اضطرابوں میں
ندی کے آبلاپوں میں
چمن کی سرمئی شاموں
کی شادابی کی راہوں میں
قلم سے کچھ لکھو مریم
تیرے سب نظم
انھی نظموں کی شمع میں
ترے لفظوں کی مالا میں
چلو جیون پروتے ہیں
چلو کچھ خواب بنتے ہیں
چلو کچھ خواب بنتے ہیں