چلو کچھ خواب بنتے ہیں
نظر میں رات اتری ہے
افق پر چاند پھیلا ہے
ستارے سارے پربت پر
وہ اپنی ہی ضیافت میں
وہ کیسے جھلملاتے ہیں
خلش اک دل میں اٹھی ہے
ہے سناٹا ذہن میں اب
خلش جو دل میں اٹھی ہے
اسی پر غور کرتے ہیں
صدا اس کی ہی سنتے ہیں
چلو کچھ خواب بنتے ہیں
ہیں کل سے رتجگی آنکھیں
نہ نیندوں کی سجی لوری
نہ غم کی ہے تھمی آندھی
نہ سوچوں پر ہے کچھ قابو
دشائیں چارسو اس دھن
میں گم سم ہیں فسردہ ہیں
یہ سناٹا بپا کیوں ہے
دلوں کے قہقہوں میں اب
اسی محو- توجھ میں
نئے فقروں کو چنتے ہیں
چلو کچھ خواب بنتے ہیں
گلابوں کے نگینوں میں
مکینوں کے دریچوں میں
نگاہوں کے سفینوں ًمیں
دلوں کے اضطرابوں میں
ندی کے آبلاپوں میں
چمن کی سرمئی شاموں
کی شادابی کی راہوں میں
قلم سے کچھ لکھو مریم
تیرے سب نظم
انھی نظموں کی شمع میں
ترے لفظوں کی مالا میں
چلو جیون پروتے ہیں
چلو کچھ خواب بنتے ہیں
چلو کچھ خواب بنتے ہیں
No comments:
Post a Comment