Saturday, September 16, 2017

خواب

چلو کچھ خواب بنتے ہیں
نظر میں رات اتری ہے
افق پر چاند پھیلا ہے
ستارے سارے پربت پر
وہ اپنی ہی ضیافت میں
وہ کیسے جھلملاتے ہیں
خلش اک دل میں اٹھی ہے
ہے سناٹا ذہن میں اب
خلش جو دل میں اٹھی ہے
اسی پر غور کرتے ہیں
صدا اس کی ہی سنتے ہیں
چلو کچھ خواب بنتے ہیں

ہیں کل سے رتجگی آنکھیں
نہ نیندوں کی سجی لوری
نہ غم کی ہے تھمی آندھی
نہ سوچوں پر ہے کچھ قابو
دشائیں چارسو اس دھن
میں گم سم ہیں فسردہ ہیں
یہ سناٹا بپا کیوں ہے
دلوں کے قہقہوں میں اب
اسی محو- توجھ میں
نئے فقروں کو چنتے ہیں
چلو کچھ خواب بنتے ہیں

گلابوں کے نگینوں میں
مکینوں کے دریچوں میں
نگاہوں کے سفینوں ًمیں
دلوں کے اضطرابوں میں
ندی کے  آبلاپوں میں
چمن کی سرمئی شاموں
کی شادابی کی راہوں میں
قلم سے کچھ لکھو مریم
تیرے سب نظم
انھی نظموں کی شمع میں
ترے لفظوں  کی مالا میں
چلو جیون پروتے ہیں
چلو کچھ خواب بنتے ہیں
چلو کچھ خواب بنتے ہیں

No comments:

Post a Comment