ھم لوگ نہ تھے ایسے
ہیں جیسے نظر آتے
اے وقت گواہی دے
ھم لوگ نہ تھے ایسے
یہ شہر نہ تھا ایسا
یہ روگ نہ تھے ایسے
دیوار نہ تھے رستے
زندان نہ تھی بستی
آزار نہ تھے رشتے
خلجان نہ تھی ہستی
یوں موت نہ تھی سستی
یہ آج جو صورت ہے
حالات نہ تھے ایسے
یوں غیر نہ تھے موسم
دن رات نہ تھے ایسے
تفریق نہ تھی ایسی
سنجوگ نہ تھے ایسے
اے وقت گواہی دے
ھم لوگ نہ تھے ایسے
Saturday, August 29, 2015
ھم لوگ نہ تھے ایسے
Monday, August 17, 2015
دِن رات کے آنے جانے میں
دِن رات کے آنے جانے میں
دنیا کے عجائب خانے میں
کبھی شیشے دھندلے ہوتے ہیں ، کبھی منظر صاف نہیں ہوتے
کبھی سورج بات نہیں کرتا
کبھی تارے آنکھ بدلتے ہیں
کبھی منزل پیچھے رہتی ہے
کبھی رستے آگے چلتے ہیں
کبھی آسیں توڑ نہیں چڑھتیں
کبھی خدشے پورے ہوتے ہیں
کبھی آنکھیں دیکھ نہیں سکتیں
کبھی خواب ادھورے ہوتے ہیں
یہ سب تو صحیح ہے لیکن اِس
آشوب کے منظر نامے میں
(دِن رات کے آنے جانے میں
دنیا کے عجائب خانے میں)
کچھ سایہ کرتی آنکھوں کے پیماں تو دکھائی دیتے ہیں
ہاتھوں سے اگرچہ دور سہی ، امکاں تو دکھائی دیتے ہیں
ہاں ریت کے اس دریا کے اُدھر
اِک پیڑوں والی بستی کے ، عنواں تو دکھائی دیتے ہیں
منزل سے کوسوں دور سہی
پُر درد سہی ، رنجور سہی
زخموں سے مسافر چُور سہی
پر کِس سے کہیں اے جانِ جہاں
کچھ ایسے گھائو بھی ہوتے ہیں ، جنہیں زخمی آپ نہیں دھوتے
بِن روئے ہوئے آنسو کی طرح ، سینے میں چُھپا کر رکھتے ہیں
اور ساری عمر نہیں روتے
نیندیں بھی مہیا ہوتی ہیں ، سپنے بھی دور نہیں ہوتے
کیوں پھر بھی جاگتے رہتے ہیں ، کیوں ساری رات نہیں سوتے
اب کِس سے کہیں اے جانِ وفا ، یہ اہلِ وفا
کِس آگ میں جلتے رہتے ہیں ، کیوں بُجھ کر راکھ نہیں ہوتے
Friday, August 7, 2015
اے وطن سے خفا خفا لوگو
(یومِ آزادی کے حوالے سے،اہلِ پاکستان کے لئے ایک نظم)
محفلِ شب کے ہم نوا ،لوگو
پاک مٹی کے بے بہا ،لوگو
تم تھے اُمید و آسرا ،لوگو
کھو چُکے اپنا راستہ ،لوگو
ہو گئے آج کیا سے کیا لوگو
اے وطن سے خفا خفا لوگو۔۔
وہ جو جذبوں سے جاں کا رشتہ تھا
یا مکین و مکاں کا رشتہ تھا
سر کا اور سائباں کا رشتہ تھا
اپنی مٹی سے ماں کا رشتہ تھا
اب وہ رشتہ کہاں رہا لوگو
اے وطن سے خفا خفا لوگو۔۔
فکر تھی جن کوکاروباروں کی
کار خانوں کی حصہ داروں کی
ڈالروں ،کوٹھیوں کی کاروں کی
اپنے گیٹوں پہ چوب داروں کی
اُن کا دامن بھی جل گیا لوگو
اے وطن سے خفا خفا لوگو۔۔
جو اماں ڈھونڈتے تھے ویزوں میں
پیپسیوں،برگروں میں ،پیزوں میں
سوٹ کی بے شکن کریزوں میں
اور قسطوں کی مرسڈیزوں میں
وہ بھی ہیں غم میں مبتلا لوگو؟
اے وطن سے خفا خفا لوگو۔۔
کون پوچھے گا ذمہ داروں سے
خالی لفظوں بھرے غباروں سے
اِن حکومت کے عہدہ داروں سے
ایک دُوجے کے راز داروں سے
گھر بھرا کیسے لُٹ گیا لوگو
اے وطن سے خفا خفا لوگو۔۔
تھی جو بچپن کے قہقہوں کی زمیں
کم سنی کی شرارتوں سے حسیں
نوجوانی کے رت جگوں کی امیں
اس کا وارث بھی آج کوئی نہیں
اپنی مٹی سے ، بےوفا لوگو
اے وطن سے خفا خفا لوگو۔۔
وہ گھروندے ،وہ بولتی گلیاں
آنگنوں میں اُگی ہو ئی کلیاں
چاہتوں کی حسین رنگ رلیاں
کتنی بیلیں اُگی ہوئی تھیں یہاں
سب کا سب راکھ ہو گیا لوگو
اے وطن سے خفا خفا لوگو۔۔
نفرتیں ،دُشمنی، دھماکے ہیں
ہر گلی ،ہر سڑک پہ ناکے ہیں
شہر اپنےہی ،غیر علاقے ہیں
مفلسی، رہزنی ہے ،فاقے ہیں
ہو گیا درد،لا دوا لوگو
اے وطن سے خفا خفا لوگو۔۔
اِک قیامت کی مارا ماری ہے
خوف چھوٹے ،بڑے پہ طاری ہے
کیا خبر آج کس کی باری ہے
اب تو گھر گھر میں پُرسہ داری ہے
ہم پہ ہے لمحہِ نزع لوگو
اے وطن سے خفا خفا لوگو۔۔
تم اگر غور سے سنو تو کہیں
مرہمِ دل اُدھار دو تو کہیں
آنسووں سے وضو کرو تو کہیں
اپنے ماتھوں کو ٹیک دو تو کہیں
کون ہے ہم میں بے خطا لوگو؟
اے وطن سے خفا خفا لوگو۔۔
اب بھی یہ دل ہے اپنا،جان ہے یہ
اپنی پہچان ،اپنا مان ہے یہ
بے نشاں ہم ہیں اور نشان ہے یہ
زندگی گیت ہے ،تو تان ہے یہ
اِک یہی سُر ہے مدھ بھرا لوگو
اے وطن سے خفا خفا لوگو۔۔
گر چہ کی ہے ہر اک خطا ہم نے
ڈال دی اس پہ ہر بلا ہم نے
اس کو کچھ بھی نہیں دیا ہم نے
اس سے پھر بھی سنی دعا ہم نے
مائیں کرتی نہیں گِلہ لوگو
اے وطن سے خفا خفا لوگو۔۔
ہم کہ ممتا کا کاروبار کریں
اس کو دنیا سے بے وقار کریں
بم دھماکوں سے لالہ زار کریں
کیوں اس آنچل کو تار تار کریں
ماں کا رہنے دو سر ڈھکا لوگو
اے وطن سے خفا خفا لوگو
Wednesday, August 5, 2015
ﺍﮔﺮ ﯾﮧ ﮐﮩﮧ ﺩﻭ ﺑﻐﯿﺮ ﻣﯿﺮﮮ ﻧﮩﯿﮟ ﮔﺰﺍﺭﮦ، ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ
ﺍﮔﺮ ﯾﮧ ﮐﮩﮧ ﺩﻭ ﺑﻐﯿﺮ ﻣﯿﺮﮮ ﻧﮩﯿﮟ ﮔﺰﺍﺭﮦ، ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ
ﯾﺎ ﺍﺱ ﭘﮧ ﻣﺒﻨﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﺗﺎﺛﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﺷﺎﺭﮦ، ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ
ﻏﺮﻭﺭ ﭘﺮﻭﺭ، ﺍﻧﺎ ﮐﺎ ﻣﺎﻟﮏ، ﮐﭽﮫ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﮐﮯ ﮨﯿﮟ ﻧﺎﻡ ﻣﯿﺮﮮ
ﻣﮕﺮ ﻗﺴﻢ ﺳﮯ ﺟﻮ ﺗﻢ ﻧﮯ ﺍﮎ ﻧﺎﻡ ﺑﻬﯽ ﭘﮑﺎﺭﺍ، ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ
ﺗﻢ ﺍﭘﻨﯽ ﺷﺮﻃﻮﮞ ﭘﮧ ﮐﻬﯿﻞ ﮐﻬﯿﻠﻮ، ﻣﯿﮟ ﺟﯿﺴﮯ ﭼﺎﮨﻮﮞ ﻟﮕﺎﺅﮞ ﺑﺎﺯﯼ
ﺍﮔﺮ ﻣﯿﮟ ﺟﯿﺘﺎ ﺗﻮ ﺗﻢ ﮨﻮ ﻣﯿﺮﮮ، ﺍﮔﺮ ﻣﯿﮟ ﮨﺎﺭﺍ، ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ
ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﻋﺎﺷﻖ، ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﻣﺨﻠﺺ، ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﺳﺎﺗﻬﯽ، ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﺍﭘﻨﺎ
ﺭﮨﺎ ﻧﮧ ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺟﺐ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ، ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ
ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﻓﯿﺼﻠﮯ ﮐﻮ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﻗﺴﻤﺖ ﭘﮧ ﭼﻬﻮﮌﺗﺎ ﮨﻮﮞ
ﺍﮔﺮ ﻣﻘﺪﺭ ﮐﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﭨﻮﭨﺎ ﮐﺒﻬﯽ ﺳﺘﺎﺭﮦ، ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ
ﯾﮧ ﮐﺲ ﭘﮧ ﺗﻌﻮﯾﺰ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﮨﻮ؟ ﯾﮧ ﮐﺲ ﮐﻮ ﭘﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﮨﯿﮟ ﻭﻇﯿﻔﮯ؟
ﺗﻤﺎﻡ ﭼﻬﻮﮌﻭ ﺑﺲ ﺍﯾﮏ ﮐﺮ ﻟﻮ ﺟﻮ ﺍﺳﺘﺨﺎﺭﮦ، ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ
ﺍﮔﺮ ﻭﮦ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮨﻮﺗﺎ
ﺍﮔﺮ ﻭﮦ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮨﻮﺗﺎ
ﺗﻮ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﺎﺕ ﺑﮭﯽ ﮨﻮﺗﯽ
ﺳﻨﺎ ﮨﮯ ﺑﺎﺩﺷﺎﮬﻮﮞ ﮐﻮ
ﺩﯾﮟ ﺍﯾﺴﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﺬﺭﺍﻧﮧ
ﺟﻮ ﺳﺐ ﭼﯿﺰﻭﮞ ﺳﮯ ﺑﮍﮪ ﮐﺮ ﮨﻮ
ﺗﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﺎﺩﺷﺎﮨﯽ ﺗﮏ
ﻟﭩﺎ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﻭﮦ ﺍﮐﺜﺮ
ﻣﺤﺒﺖ ﮨﮯ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﭘﺎﺱ
ﻣﮕﺮ ﻭﮦ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﺐ ہے
ﯾﮧ ﭼُﺒﮭﻦ ﺍﮐﯿﻠﮯ ﭘﻦ ﮐﯽ،
ﯾﮧ ﭼُﺒﮭﻦ ﺍﮐﯿﻠﮯ ﭘﻦ ﮐﯽ،
ﯾﮧ ﻟﮕﻦ ﺍﺩﺍﺱ ﺷﺐ ﺳﮯ
ﻣﯿﮟ ﮨﻮﺍ ﺳﮯ ﻟﮍ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ،
ﺗﺠﮭﮯ ﮐﯿﺎ ﺑﺘﺎﺅﮞ ﮐﺐ ﺳﮯ
ﯾﮧ ﺳﺤﺮ ﮐﯽ ﺳﺎﺯﺷﯿﮟ ﺗﮭﯿﮟ،
ﮐﮧ ﯾﮧ ﺍﻧﺘﻘﺎﻡ ﺷﺐ ﺗﮭﺎ
ﻣﺠﮭﮯ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﺎ ﺳﻮﺭﺝ،
ﻧﮧ ﺑﭽﺎ ﺳﮑﺎ ﻏﻀﺐ ﺳﮯ
ﺗﯿﺮﮮ ﻧﺎﻡ ﺳﮯ ﺷﻔﺎ ﮨﻮ،
ﮐﻮﺋﯽ ﺯﺧﻢ ﻭﮦ ﻋﻄﺎ ﮐﺮ
ﻣﯿﺮﺍ ﻧﺎﻣﮧ ﺑﺮ ﻣﻠﮯ ﺗﻮ،
ﺍﺳﮯ ﮐﮩﻨﺎ ﯾﮧ ﺍﺩﺏ ﺳﮯ
ﻭﮦ ﺟﻮﺍﮞ ﺭُﺗﻮﮞ ﮐﯽ ﺷﺎﻣﯿﮟ،
ﮐﮩﺎﮞ ﮐﮭﻮ ﮔﺌﯿﮟ ﮨﯿﮟ ﻣﺤﺴﻦ
ﻣﯿﮟ ﺗﻮ ﺑُﺠﮫ ﮐﮯ ﺭﮦ ﮔﯿﺎ ﮨﻮﮞ،
ﻭﮦ ﺑﭽﮭﮍ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ﺟﺐ ﺳﮯ
محبت خوش گُماں ہے
محبت خوش گُماں ہے...!!!
تمہاری انگشتری کے نگ میں
مِری محبت چمک رہی ہے
اگر کبھی یہ گماں بھی گزرے
کہ میں تمہیں بھولنے لگا ہوں
تو اس نگینے کو دیکھ لینا
مِری نگاہوں کی جگمگاہٹ
تمہاری آنکھوں سے یہ کہے گی
سنو! محبت تو خوش گماں ہے
اگر کوئی بغضِ دل کا مارا
نظر سے ٹوٹا ہوا ستارا
تمہارے سینے میں وسوسوں کے
کسیلے خنجر اتارتا ہو ۔ ۔ ۔
کہ وہ جو پھینک و بے وفا ہے
کہ وہ جو سب پر فریفتہ ہے
کہ وہ جو پردیس جا بسا ہے
تمہیں بھنور بیچ چھوڑ دے گا
وفا کے سب قول توڑ دے گا
تو اس سے پہلے کہ روپڑو تم
تو اس سے پہلے کہ جل بجھو تم
تو اس سے پہلے کہ یہ کہو تم
وہ عہد و پیماں سب غلط تھے
وفا کے عنوان سب غلط تھے
سحر کے امکان سب غلط تھے
تم اپنی انگشتِ دلربا پر
گلاب چہرہ جھکا کے کہنا
سنو! وہ سچ مچ ہی بے وفا ہے؟
تمہارا روتا سوال سن کر
یہ شوخ رنگ مسکرا پڑے گا
محبتوں کے سفیر بن کے
یہ سُرخ نگ اور حسین انگوٹھی
مِری نمائندگی کریں گے
تمہارے چہرے سے چھیڑ کرتے
تمہاری آنکھوں کے رنگ پڑھتے
تمہارے بالوں پہ ہاتھ رکھے
تمہارے گالوں کو تھپتھپا کے
حسین انگشتری کہے گی
سنو! محبت تو خوش گماں ہے۔
کہ بہنوں کی ادائیں بھی تو ماؤں جیسی ہوتی ہیں
کبھی تم نے یہ سوچا ہے ؟
کہ بہنوں کی ادائیں بھی تو ماؤں جیسی ہوتی ہیں ،
یہ خود بھوکی بھی رہتی ہیں ،
یہ خود پیاسی بھی رہتی ہیں ،
پر جھلستی دھوپ میں یہ پریاں
چھاؤں جیسی ہوتی ہیں !
کبھی تم نے یہ سوچا ہے ؟
تمھاری عزتوں کی چادر کی حفاظت کرتی ہیں ،
تمھاری غیرتوں کے نام پر قربان ہوتی ہیں ،
یہ اپنی خواہشوں کے اکثر
گلے کو گھونٹ دیتی ہیں ،
یہ پھولوں سی نازک جانیں ،
تمھارا مان ہوتی ہیں !
کبھی تم نے یہ سوچاہے ؟
تمھارے غم میں اکثر ،
اٹھ اٹھ کر جو راتوں کو ۔
یہ بے آواز روتی ہیں !
تمھارے حصے کے سب درد ،
اپنی قسمت میں لکھنے کی ،
جو رب سے دعائیں کرتی ہیں!
یہ اپنے حصے کی خوشیاں
جو تم پر وار دیتی ہیں !
کبھی تم نے یہ سوچا ہے ؟
یہ ایسا کیونکر کرتی ہیں ؟
کیونکہ
یہ ماں کا روپ ہوتی ہیں ۔
یہ ماؤں جیسی ہوتی ہیں ۔!
ہم عجیب لوگ ہیں،
ہم عجیب لوگ ہیں،
عجب زمانوں کے باسی ہیں۔
جس کو چاہتے ہیں،
اس کو مار ڈالتے ہیں
زندگی بھر
قطرہ قطرہ،
زہر نا رسای کا
اک ریاکار پارسای کا،
اپنے زعم نا خدای کا،
اس کی رگوں میں اتارتے ہیں۔
ہماری اناییں،
ہمارے جزبوں سے زیادہ طاقتور ہیں
ہماری راییں ہماری عقلوں سے بر ترہیں۔
لفظ جو ھم کہا چاہیں،
لفظ جو ہم سنا چاہیں
لفظ جو ہمارے ارماں ہوں،
لفظ جوکسی کا درماں ہوں
صرف اس لیے ان کہے رہ جاتے ہیں
کہ کہیں ہماری آنکھیں اور ہمارے ہونٹ
ہماری کسی ایک لمحے کی کمزوری کو
فاش نہ کرڈالیں۔
سو ہم چپ رہ جاتے ہیں
سب جزبے ایک خوف تلے دب جاتے ہیں
کسی سے معزرت ہو
کسی سے کچھ اپنا کہنا تھا
کسی گرتے کو تھامنا تھا
کسی کا درد کوی بانٹتا تھا
ہم چپ رہ جاتے ہیں،
اپنی اناوں کے خول میں سمٹے
چپ چاپ چٹانوں کی طرح
اور جب بہت دیر ہو جاے
جو کہنا تھا وہ رہ جاے
جب سننے والا جان سے گزر جاے
جب وقت کا پانی ہر ارمان پہ بہہ جاے
پھر ہم غم مناتے ہیں
اسکی یاد میں سیمینار کراتے ہی
اپنے سارے لفظ اورے سارے جزبے
سوکھے پھولوں کی مالا میں سجاے
اسکی قبر پہ چپ چاپ چڑھا آتے ہیں
کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ
شاید ستارا پرستوں کی اس دنیا میں
ہمارا مذہب ٹوٹتے ستاروں کی پوجا ہے
روشنی مزاجوں کا کیا عجب مقدر ہے
روشنی مزاجوں کا کیا عجب مقدر ہے
زندگی کے رستے میں،
بچھنے والے کانٹوں کو
راہ سے ہٹانے میں
ایک ایک تنکے سے
آشیاں بنانے میں
خوشبوئیں پکڑنے میں۔۔۔
گلستاں سجانے میں
عمر کاٹ دیتے ہیں
عمر کاٹ دیتے ہیں
اور اپنے حصے کے
پھول بانٹ دیتے ہیں
کیسی کیسی خواہش کو
قتل کرتے جاتے ہیں
درگزر کے گلشن میں
ابر بن کے رہتے ہیں
صبر کے سمندر میں۔۔۔
کشتیاں چلاتے ہیں
یہ نہیں کہ ان کو اس
روز و شب کی کاوش کا
کچھ صلہ نہیں ملتا
مرنے والی آسوں کا ۔۔۔
خون بہا نہیں ملتا
زندگی کے دامن میں ۔۔۔
جس قدر بھی خوشیاں ہیں
سب ہی ہاتھ آتی ہیں
سب ہی مل بھی جاتی ہیں
وقت پر نہیں ملتیں ۔
۔ وقت پر نہیں آتیں
یعنی ان کو محنت کا
اجر مل تو جاتا ہے
لیکن اس طرح جیسے
قرض کی رقم کوئی
قسط قسط ہو جائے
اصل جو عبارت ہو ۔۔۔
پسِ نوشت ہو جائے
فصلِ گُل کے آخر میں
پھول ان کے کھلتے ہیں
ان کے صحن میں سورج ۔۔۔
دیر سے نکلتے ہیں
میری بیٹی بالیاں پہنے گھر کی چھت پر گھوم رہی ہے
اک بوسیدہ مسجد میں
دیواروں پر محرابوں پر
اور کبھی چھت کی جانب
میری آنکھیں گھوم رہی ہیں
جانےکس کو ڈھونڈ رہی ہیں
میری آنکھیں رک جاتی ہیں
لوہے کی اس خالی ہُک پر
جو خالی خالی نظروں سے
ہر اک چہرہ دیکھ رہا ہے
اک ایسے انسان کا شاید
جو اک پنکھا لے آئے گا
لائے گا اور دُور کرے گا
مسجد کی بے سامانی کو
خالی ہُک کی ویرانی کو
میں نے جب اُس ہُک کو دیکھا
میری ننھی پھول سی بیٹی
میری آنکھوں میں دوڑآئی
بھولی ماں نے اُس کی
اپنی پیاری راج دلاری بیٹی کے
دونوں کانوں کو
اپنے ہاتھوں سے چھید دیا ہے
پھولوں جیسے کانوں میں پھر
نیم کے تنکے ڈال دیے ہیں
امیدوں آسوں کے سہارے
دل ہی دل میں سوچ رہی ہے
جب ھم کو اللہ ہمارا
تھوڑا سا بھی پیسہ دے گا
بیٹی کے کانوں میں اُس دن
بالیاں ھوں گی، بُندے ھوں گے
میں نے انتھک محنت کر کے
پنکھا اک خرید لیا ہے
مسجد کے اُس خالی ہُک کو
میں نے پنکھا سونپ دیا ہے
ہُک میں پنکھا دیکھ کے مجھ کو
ھوتا ہے محسوس کہ جیسے
میری بیٹی بالیاں پہنے
گھر کی چھت پر گھوم رہی ہے
تمہیں یہ کیسی شکائتیں ہیں
تمہیں یہ کیسی شکائتیں ہیں
تمہی بتاؤ
کہ تم سے میں نے
سلگتے لمحوں،
بکھرتے خوابوں،
شکستہ جذبوں کی بات کی ہے
تمہی بتاؤ
کہ میں نے اپنے سفر کی ساری صعوبتوں میں
تمہاری زلفوں،
تمہاری آنکھوں۔
تمہارے عارض سے بھول کر بھی
خراج مانگا ہے رتجگوں کا
مرے لیے تو یہی بہت ہے
کہ میں!
سفر میں نہیں ہوں تنہا
مرے شریک سفر ہو تم بھی
مجھے یقیں ہے
کہ عمر بھر میں
بدن کی ساری تھکن اٹھائے
سفر کی ساری صعوبتوں میں
تمہارے ہاتھوں میں ہاتھ دے کر
یونہی شریک سفر رہوں گا
تمہیں یہ کیسی شکایتیں ہیں
ہمیں معلوم ہے اک دن
ہمیں معلوم ہے اک دن
گزرتے وقت کی دیمک ہمیں بھی چاٹ جائے گی
کہ یہ اس کا وظیفہ ہے
یہ روشن دن جو نکلا ہے یہ آخر شام بھی ہوگا
وہ مہلت جو ملی ہم کو وہ کیسے بے ثمر نکلی
وضاحت کون سُنتا ہے
تلافی کس سے مانگیں ہم
ہمارے سر پہ اپنے خون کا الزام بھی ہوگا
تو اس دیمک کا رزقِ بے نشاں بننے سے پہلے
آخری حیلہ تو کر دیکھیں
جو کا غذاپنے حصے کا ہے وہ کاغذ تو بھر دیکھیں
بہت مشکل سہی لیکن نہیں امکان سے باہر
کہ وہ الفاظ جن کے آج تک معنی نہیں ظاہر
ہم اُن کا بھید پا جائیں
اُنہیں اس لوح پر لکھی ہوئی تحریر کا حصہ بنا جائیں
اگراُس موڑ سے پہلے
جہاں اس بے جہتکاوش کو رزقِ خاک ہونا ہے
جہاں اس زندگی کے قرض کو بے باق ہونا ہے
جہاں پر ہر بقا لمحہ ، فنا پیغام بھی ہو گا
جہاں خورشید کا سایہ شریکِ شام بھی ہو گا
اگر اُس موڑ سے پہلے
کسی صورت
ہم ان لفظوں کے پوشیدہ معانی جان پائیں تو
سمے کی لوح پر لکھے ہوئے کچھ خاص ناموں میں
ہمارا نام بھی ہوگا
ہمارا کام بھی ہوگا
Tuesday, August 4, 2015
ہم عجیب لوگ ہیں
ہم عجیب لوگ ہیں،
عجب زمانوں کے باسی ہیں۔
جس کو چاہتے ہیں،
اس کو مار ڈالتے ہیں
زندگی بھر
قطرہ قطرہ،
زہر نا رسای کا
اک ریاکار پارسای کا،
اپنے زعم نا خدای کا،
اس کی رگوں میں اتارتے ہیں۔
ہماری اناییں،
ہمارے جزبوں سے زیادہ طاقتور ہیں
ہماری راییں ہماری عقلوں سے بر ترہیں۔
لفظ جو ھم کہا چاہیں،
لفظ جو ہم سنا چاہیں
لفظ جو ہمارے ارماں ہوں،
لفظ جوکسی کا درماں ہوں
صرف اس لیے ان کہے رہ جاتے ہیں
کہ کہیں ہماری آنکھیں اور ہمارے ہونٹ
ہماری کسی ایک لمحے کی کمزوری کو
فاش نہ کرڈالیں۔
سو ہم چپ رہ جاتے ہیں
سب جزبے ایک خوف تلے دب جاتے ہیں
کسی سے معزرت ہو
کسی سے کچھ اپنا کہنا تھا
کسی گرتے کو تھامنا تھا
کسی کا درد کوی بانٹتا تھا
ہم چپ رہ جاتے ہیں،
اپنی اناوں کے خول میں سمٹے
چپ چاپ چٹانوں کی طرح
اور جب بہت دیر ہو جاے
جو کہنا تھا وہ رہ جاے
جب سننے والا جان سے گزر جاے
جب وقت کا پانی ہر ارمان پہ بہہ جاے
پھر ہم غم مناتے ہیں
اسکی یاد میں سیمینار کراتے ہی
اپنے سارے لفظ اورے سارے جزبے
سوکھے پھولوں کی مالا میں سجاے
اسکی قبر پہ چپ چاپ چڑھا آتے ہیں
کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ
شاید ستارا پرستوں کی اس دنیا میں
ہمارا مذہب ٹوٹتے ستاروں کی پوجا ہے
ہم عجیب لوگ ہیں
ہم عجیب لوگ ہیں،
عجب زمانوں کے باسی ہیں۔
جس کو چاہتے ہیں،
اس کو مار ڈالتے ہیں
زندگی بھر
قطرہ قطرہ،
زہر نا رسای کا
اک ریاکار پارسای کا،
اپنے زعم نا خدای کا،
اس کی رگوں میں اتارتے ہیں۔
ہماری اناییں،
ہمارے جزبوں سے زیادہ طاقتور ہیں
ہماری راییں ہماری عقلوں سے بر ترہیں۔
لفظ جو ھم کہا چاہیں،
لفظ جو ہم سنا چاہیں
لفظ جو ہمارے ارماں ہوں،
لفظ جوکسی کا درماں ہوں
صرف اس لیے ان کہے رہ جاتے ہیں
کہ کہیں ہماری آنکھیں اور ہمارے ہونٹ
ہماری کسی ایک لمحے کی کمزوری کو
فاش نہ کرڈالیں۔
سو ہم چپ رہ جاتے ہیں
سب جزبے ایک خوف تلے دب جاتے ہیں
کسی سے معزرت ہو
کسی سے کچھ اپنا کہنا تھا
کسی گرتے کو تھامنا تھا
کسی کا درد کوی بانٹتا تھا
ہم چپ رہ جاتے ہیں،
اپنی اناوں کے خول میں سمٹے
چپ چاپ چٹانوں کی طرح
اور جب بہت دیر ہو جاے
جو کہنا تھا وہ رہ جاے
جب سننے والا جان سے گزر جاے
جب وقت کا پانی ہر ارمان پہ بہہ جاے
پھر ہم غم مناتے ہیں
اسکی یاد میں سیمینار کراتے ہی
اپنے سارے لفظ اورے سارے جزبے
سوکھے پھولوں کی مالا میں سجاے
اسکی قبر پہ چپ چاپ چڑھا آتے ہیں
کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ
شاید ستارا پرستوں کی اس دنیا میں
ہمارا مذہب ٹوٹتے ستاروں کی پوجا ہے