اک بوسیدہ مسجد میں
دیواروں پر محرابوں پر
اور کبھی چھت کی جانب
میری آنکھیں گھوم رہی ہیں
جانےکس کو ڈھونڈ رہی ہیں
میری آنکھیں رک جاتی ہیں
لوہے کی اس خالی ہُک پر
جو خالی خالی نظروں سے
ہر اک چہرہ دیکھ رہا ہے
اک ایسے انسان کا شاید
جو اک پنکھا لے آئے گا
لائے گا اور دُور کرے گا
مسجد کی بے سامانی کو
خالی ہُک کی ویرانی کو
میں نے جب اُس ہُک کو دیکھا
میری ننھی پھول سی بیٹی
میری آنکھوں میں دوڑآئی
بھولی ماں نے اُس کی
اپنی پیاری راج دلاری بیٹی کے
دونوں کانوں کو
اپنے ہاتھوں سے چھید دیا ہے
پھولوں جیسے کانوں میں پھر
نیم کے تنکے ڈال دیے ہیں
امیدوں آسوں کے سہارے
دل ہی دل میں سوچ رہی ہے
جب ھم کو اللہ ہمارا
تھوڑا سا بھی پیسہ دے گا
بیٹی کے کانوں میں اُس دن
بالیاں ھوں گی، بُندے ھوں گے
میں نے انتھک محنت کر کے
پنکھا اک خرید لیا ہے
مسجد کے اُس خالی ہُک کو
میں نے پنکھا سونپ دیا ہے
ہُک میں پنکھا دیکھ کے مجھ کو
ھوتا ہے محسوس کہ جیسے
میری بیٹی بالیاں پہنے
گھر کی چھت پر گھوم رہی ہے
Wednesday, August 5, 2015
میری بیٹی بالیاں پہنے گھر کی چھت پر گھوم رہی ہے
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment