Wednesday, August 5, 2015

ہمیں معلوم ہے اک دن

ہمیں معلوم ہے اک دن
گزرتے وقت کی دیمک ہمیں بھی چاٹ جائے گی
کہ یہ اس کا وظیفہ ہے
یہ روشن دن جو نکلا ہے یہ آخر شام بھی ہوگا
وہ مہلت جو ملی ہم کو وہ کیسے بے ثمر نکلی
وضاحت کون سُنتا ہے
تلافی کس سے مانگیں ہم
ہمارے سر پہ اپنے خون کا الزام بھی ہوگا
تو اس دیمک کا رزقِ بے نشاں بننے سے پہلے
آخری حیلہ تو کر دیکھیں
جو کا غذاپنے حصے کا ہے وہ کاغذ تو بھر دیکھیں
بہت مشکل سہی لیکن نہیں امکان سے باہر
کہ وہ الفاظ جن کے آج تک معنی نہیں ظاہر
ہم اُن کا بھید پا جائیں
اُنہیں اس لوح پر لکھی ہوئی تحریر کا حصہ بنا جائیں
اگراُس موڑ سے پہلے
جہاں اس بے جہتکاوش کو رزقِ خاک ہونا ہے
جہاں اس زندگی کے قرض کو بے باق ہونا ہے
جہاں پر ہر بقا لمحہ ، فنا پیغام بھی ہو گا
جہاں خورشید کا سایہ شریکِ شام بھی ہو گا
اگر اُس موڑ سے پہلے
کسی صورت
ہم ان لفظوں کے پوشیدہ معانی جان پائیں تو
سمے کی لوح پر لکھے ہوئے کچھ خاص ناموں میں
ہمارا نام بھی ہوگا
ہمارا کام بھی ہوگا

No comments:

Post a Comment