ہم عجیب لوگ ہیں،
عجب زمانوں کے باسی ہیں۔
جس کو چاہتے ہیں،
اس کو مار ڈالتے ہیں
زندگی بھر
قطرہ قطرہ،
زہر نا رسای کا
اک ریاکار پارسای کا،
اپنے زعم نا خدای کا،
اس کی رگوں میں اتارتے ہیں۔
ہماری اناییں،
ہمارے جزبوں سے زیادہ طاقتور ہیں
ہماری راییں ہماری عقلوں سے بر ترہیں۔
لفظ جو ھم کہا چاہیں،
لفظ جو ہم سنا چاہیں
لفظ جو ہمارے ارماں ہوں،
لفظ جوکسی کا درماں ہوں
صرف اس لیے ان کہے رہ جاتے ہیں
کہ کہیں ہماری آنکھیں اور ہمارے ہونٹ
ہماری کسی ایک لمحے کی کمزوری کو
فاش نہ کرڈالیں۔
سو ہم چپ رہ جاتے ہیں
سب جزبے ایک خوف تلے دب جاتے ہیں
کسی سے معزرت ہو
کسی سے کچھ اپنا کہنا تھا
کسی گرتے کو تھامنا تھا
کسی کا درد کوی بانٹتا تھا
ہم چپ رہ جاتے ہیں،
اپنی اناوں کے خول میں سمٹے
چپ چاپ چٹانوں کی طرح
اور جب بہت دیر ہو جاے
جو کہنا تھا وہ رہ جاے
جب سننے والا جان سے گزر جاے
جب وقت کا پانی ہر ارمان پہ بہہ جاے
پھر ہم غم مناتے ہیں
اسکی یاد میں سیمینار کراتے ہی
اپنے سارے لفظ اورے سارے جزبے
سوکھے پھولوں کی مالا میں سجاے
اسکی قبر پہ چپ چاپ چڑھا آتے ہیں
کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ
شاید ستارا پرستوں کی اس دنیا میں
ہمارا مذہب ٹوٹتے ستاروں کی پوجا ہے
No comments:
Post a Comment