Sunday, February 28, 2016

میری زندگی ، میری خواہشیں میری آرزو ، ، میری چاهتیں

میری زندگی ، میری خواہشیں
میری آرزو ، ، میری چاهتیں
جو بهی پاس تها میرے، جان جاں
تیری رہگزر میں لٹا دیا
کبھی آ، کے تو بهی تو دیکهہ لے
تیری چاه نے مجھے کیا دیا
تهے جو خواب سارے بکهر گئے
میرے زخم اور نکهر گئے
تیرا شکریہ ، ، میرے مہرباں
تو نے درد اور بڑها دیا
کبھی آ کے تو بهی تو دیکھ لے
تیری چاه نے مجھے کیا دیا
نہ وه شو خیاں نہ وه ولولے
نہ تیرے جما ل کے تذکرے
تیری چاہتوں کے سراب نے
مجھے دیکھ کیسے مٹا دیا
کبھی آ کے تو بهی تو دیکھ لے
تیری چاه نے مجھے کیا دیا
نہ وه رنگ هے نہ وه روپ هے
نہ وہ چهاوں نہ هی وہ دهوپ هے
تیری اک نگاہ کی آس میں
میں نے زندگی کو گنوا دیا
کبھی آ کے تو بهی تو دیکھ لے
تیری چاه نے مجھے کیا دیا.۔۔۔۔۔!!

ﻣﺮﮮ ﺭﻭﮒ ﮐﺎ ﻧﮧ ﻣﻼﻝ ﮐﺮ ، ﻣﺮﮮ ﭼﺎﺭﮦ ﮔﺮ

ﻣﺮﮮ ﺭﻭﮒ ﮐﺎ ﻧﮧ ﻣﻼﻝ ﮐﺮ ، ﻣﺮﮮ ﭼﺎﺭﮦ ﮔﺮ
ﻣﯿﮟ ﺑﮍﺍ ﮬﻮﺍ ﺍﺳﮯ ﭘﺎﻝ ﮐﺮ ، ﻣﺮﮮ ﭼﺎﺭﮦ ﮔﺮ
ﺳﺒﮭﯽ ﺩﺭﺩ ﭼُﻦ ﻣﺮﮮ ﺟﺴﻢ ﺳﮯ ، ﮐﺴﯽ ﺍﺳﻢ ﺳﮯ
ﻣﺮﺍ ﺍﻧﮓ ﺍﻧﮓ ﺑﺤﺎﻝ ﮐﺮ ، ﻣﺮﮮ ﭼﺎﺭﮦ ﮔﺮ
ﻣﺠﮭﮯ ﺳﯽ ﺩﮮ ﺳﻮﺯﻥ ِ ﺩﺭﺩ ، ﺭﺷﺘﮧ ﺀ ﺯﺭﺩ ﺳﮯ
ﻣﺠﮭﮯ ﺿﺒﻂ ِ ﻏﻢ ﺳﮯ ﺑﺤﺎﻝ ﮐﺮ ، ﻣﺮﮮ ﭼﺎﺭﮦ ﮔﺮ
ﻣﺠﮭﮯ ﭼﯿﺮ ﻧﺸﺘﺮ ِﻋﺸﻖ ، ﺳﻮﺯ ِ ﺳﺮِﺷﮏ ﺳﮯ
ﻣﺮﺍ ﺍﻧﺪﻣﺎﻝ ﻣﺤﺎﻝ ﮐﺮ ، ﻣﺮﮮ ﭼﺎﺭﮦ ﮔﺮ
ﯾﮧ ﺑﺪﻥ ﮐﮯ ﻋﺎﺭﺿﯽ ﮔﮭﺎﺅ ﮨﯿﮟ ، ﺍﻧﮩﯿﮟ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﮮ
ﻣﺮﮮ ﺯﺧﻢ ِ ﺩﻝ ﮐﺎ ﺧﯿﺎﻝ ﮐﺮ ، ﻣﺮﮮ ﭼﺎﺭﮦ ﮔﺮ
ﻓﻘﻂ ﺍﯾﮏ ﻗﻄﺮﮦ ﺀ ﺍﺷﮏ ﻣﯿﺮﺍ ﻋﻼﺝ ﮬﮯ
ﻣﺠﮭﮯ ﻣُﺒﺘﻼﺋﮯ ﻣﻼﻝ ﮐﺮ ، ﻣﺮﮮ ﭼﺎﺭﮦ ﮔﺮ
ﻣﺠﮭﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺯﺧﻢ ﮐﯽ ﺧﻮﺩ ﺑﮭﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﺧﺒﺮ ﻧﮩﯿﮟ
ﺳﻮ ﻧﮧ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﺮ ، ﻣﺮﮮ ﭼﺎﺭﮦ ﮔﺮ
ﻣﯿﮟ ﺟﮩﺎﻥ ِ ﺩﺭﺩ ﻣﯿﮟ ﮐﮭﻮ ﮔﯿﺎ ، ﺗﺠﮭﮯ ﮐﯿﺎ ﻣﻼ
ﻣﺠﮭﮯ ﺍﻣﺘﺤﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﮈﺍﻝ ﮐﺮ ﻣﺮﮮ ﭼﺎﺭﮦ ﮔﺮ
ﺗﺮﺍ ﺣﺎﻝ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﮯ ﺭﻭﺋﮯ ﮔﺎ ، ﺗﺮﺍ ﭼﺎﺭﮦ ﮔﺮ
ﻣﺮﺍ ﺩﻝ ﻧﮧ ﺩﯾﮑﮫ ﻧﮑﺎﻝ ﮐﺮ ، ﻣﺮﮮ ﭼﺎﺭﮦ ﮔﺮ

Saturday, February 27, 2016

تم مرے دل کی خلش ہو لیکن دور ہو جاؤ ۔۔ یہ منظور کہاں

تم مرے دل کی خلش ہو لیکن
دور ہو جاؤ ۔۔ یہ منظور کہاں

ایک سایا، جو کسی سائے سے گہرا بھی نہیں
جسم بھی جس کا نہیں ، دل نہیں ، چہرا بھی نہیں
خال و خد جس کے مجھے ازبر ہیں ،
دید ۔۔۔ جس طرح کوئی دیکھتا ہو
راستہ، شیشے کی دیوار کے پار
گفتگو ۔۔۔ جیسے کوئی کرتا ہو
اپنے ہی کان میں اک سرگوشی
لفظ ۔۔۔ جیسے کہ ہو نظمائی ہوئی خاموشی

یہ تعلق ہے بس اک نقش کہ جو ریت پہ کھینچا جائے
بادِ حیراں سے اڑانے کے لیے
موجۂ غم سے مٹانے کے لیے

دشت اس دل کی طرح اپنی ہی تنہائی میں یوں سمٹا ہے
جیسے پھیلا تو فلک ٹوٹ پڑے گا اس پر
کارواں کوئی نہ گزرا کسی منزل کی طرف
گھنٹیاں بجتی رہیں ۔۔۔ نیند کی خاموشی میں

شام ہر روز اترتی ہے سرِ جادۂ جاں
وہی اک کہنہ اداسی لے کر
زندگی ڈوبتی جاتی ہے کسی سرد اندھیرے میں ۔۔ مگر
جگمگاتی ہے بہت دور کسی گوشے میں
ایک چھوٹی سی تمنا کی کرن
سائے کا لمس ہے اس دل کی لگن

تم مرے ٹوٹے ہوئے خواب کا اک ذرہ ہو
جو مری آنکھ میں چبھتا ہے تو خوں بہتا ہے
پھر بھی کھو جاؤ یہ منظور کہاں
تم مرے دل کی خلش ہو لیکن ۔۔۔۔۔

اے مرے کُن فیکُون مرے خالق

اے مرے کُن فیکُون
مرے خالق

میں جو مٹی سے تراشا ھوا پیکر ھوں ترا
کس لئے چاند ستاروں کو بلاؤں خود میں؟
خاک ھوں میں تو مرے مولا طلب یہ کیوں ھے؟؟

آسمانوں کو کسی طور ملاؤں خود میں
میں جو زرہ ھوں ، تڑپ کیوں ھے ستاروں میں ڈھلوں؟؟
سرد ھوں خاک ھوں پھر کس لئے شعلوں میں جلوں؟؟

مرے اندر جو خلاؤں کا سفر جاری ھے
بڑی بے چینی ھے ، بے خوابی ھے ، بیداری ھے
تشنگی چبھتی ھے ھلکوم میں کانٹے کی طرح
اور کہیں حد سے گزر جانے کی سر شاری ھے
میں جو مٹی ھوں تو کیوں خود کو ستارہ سمجھوں؟؟
کیوں بھنور درد کو میں اپنا کنارہ سمجھوں؟؟

مرے خالق
اے مرے کُن فیکُون

تیری حد سے میں کہاں دور نکل سکتا ھوں؟
تیری مرضی ھے مجھےتوڑ دے اور پھر سے بنا
پھر مجھے خاک نشین کر کے یونہی جینا سکھا
مرے اندر جو خلا ھے میرے مالک بھر دے

تونے جو خاص توجہ سے بنایا ھے یہ دل
اسکو مٹی میں ملا دے یا تو پورا کر دے
میرے خالق میں ترے "کُن" کی طلب میں زندہ  ھر گھڑی ایک قیامت سے گزر جاتا ھوں
اتنی شدت سے مرا پہلو سلگ اٹھتا ھے
ضبط کی حد سے گزر جاتا ھوں
مر جاتا ھوں

مرے خالق
اے مرے کُن فیکُون

Friday, February 26, 2016

ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺳﺐ ﯾﺎﺩ ﺁﺋﮯ ﮔﺎ

ﮐﺒﮭﯽ ﺟﺐ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﮞ ﮔﺎ
ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺳﺐ ﯾﺎﺩ ﺁﺋﮯ ﮔﺎ
ﻭﮦ ﻣﯿﺮﯼ ﺑﮯ ﮐﺮﺍﮞ ﭼﺎﮨﺖ
ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﻧﺎﻡ ﮐﯽ ﻋﺎﺩﺕ
ﻭﮦ ﻣﯿﺮﮮ ﻋﺸﻖ ﮐﯽ ﺷﺪﺕ
ﻭﺻﺎﻝ ﻭ ﮨﺠﺮ ﮐﯽ ﻟﺬﺕ
ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﮨﺮ ﺍﺩﺍ ﮐﻮ ﺷﺎﻋﺮﯼ ﮐﺎ ﺭﻧﮓ ﺩﮮ ﺩﯾﻨﺎ
ﺧﻮﺩ ﺍﭘﻨﯽ ﺧﻮﺍﮨﺸﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﮯ ﺑﺴﯽ ﮐﺎ ﺭﻧﮓ
ﺩﮮ ﺩﯾﻨﺎ
ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺳﺐ ﯾﺎﺩ ﺁﺋﮯ ﮔﺎ
ﻭﮦ ﻣﯿﺮﯼ ﺁﻧﮑﮫ ﮐﺎ ﻧﻢ ﺑﮭﯽ
ﻭﻓﺎﺅﮞ ﮐﺎ ﻭﮦ ﻣﻮﺳﻢ ﺑﮭﯽ
ﺟﻨﻮﮞ ﺧﯿﺰﯼ ﮐﺎ ﻋﺎﻟﻢ ﺑﮭﯽ
ﻣﺮﯼ ﮨﺮ ﺍﮎ ﺧﻮﺷﯽ ﻏﻢ ﺑﮭﯽ
ﻣﺮﺍ ﻭﮦ ﻣﺴﮑﺮﺍ ﮐﺮ ﺩﺭﺩ ﮐﻮ ﺩﻝ ﺳﮯ ﻟﮕﺎ ﻟﯿﻨﺎ
ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﺧﻮﺍﺏ ﺳﯽ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﮐﺎ ﮨﺮ ﺁﻧﺴﻮ
ﭼﺮﺍ ﻟﯿﻨﺎ
ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺳﺐ ﯾﺎﺩ ﺁﺋﮯ ﮔﺎ
ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﺳﻮﭺ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﻨﺎ
ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﺑﮯ ﺭﺧﯽ ﺳﮩﻨﺎ
ﺑُﮭﻼ ﮐﺮ ﺭﻧﺠﺸﯿﮟ ﺳﺎﺭﯼ
ﻓﻘﻂ "ﺍﭘﻨﺎ" ﺗﻤﮩﯿﮟ ﮐﮩﻨﺎ
ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﻧﺎﻡ ﮐﻮ ﺗﺴﺒﯿﺢ ﮐﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﺑﻨﺎ ﻟﯿﻨﺎ
ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺫﮐﺮ ﺳﮯ ﺩﻝ ﮐﺎ ﮨﺮ ﺍﮎ ﮔﻮﺷﮧ ﺳﺠﺎ
ﻟﯿﻨﺎ
ﺍﺑﮭﯽ ﺗﻮ ﻣﺴﮑﺮﺍ ﮐﺮ ﺗﻢ ﻣﺮﯼ ﺑﺎﺗﻮﮞ ﮐﻮ
ﺳﻨﺘﯽ ﮨﻮ
ﻣﮕﺮ ﯾﮧ ﺟﺎﻥ ﻟﻮ ﺟﺎﻧﺎﮞ!
ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺳﺐ ﯾﺎﺩ ﺁﺋﮯ ﮔﺎ

سنو! اے اجنبی لڑکی

سنو!
اے اجنبی لڑکی
تمہیں میں اجنبی کہتا تو ہوں لیکن
تمہیں میں اجنبی کب مانتا ہوں!
مجھ میں سکت ہی نہیں
میری مجال اتنی نہیں ہے کہ
تمہارے جس قدر بھی ہیں حوالے
اب میں ان سے کٹ سکوں
میں پھر تمہاری راہ سے بھی ہٹ سکوں
تم  سے جدائی موت جیسی ہے
طبیعت مضطرب سی ہے
تمہارے بن
ادھورا پن مجھے اب چاٹنے کو ہر گھڑی رہتا ہے میرے پاس ہی
پہلو میں بیٹھا
زور سے جب چیختا ہے
سچ بتاؤں ؟
روح کے اندر بلا کا درد ہوتا ہے
اداسی پھیل جاتی ہے
وہ ناصر کاظمی کہتے جو تھے
کہ گھر کی دیواروں پہ ان کی
کھول کر یہ بال سوئی تھی..
تمہیں اب کیا بتاؤں
اجنبی لڑکی
یہاں کا معاملہ اس سے کہیں زیادہ عجب سا ہے
اداسی بال کھولے آ تو جاتی ہے
مگر سوتی نہیں
نہ جاگتی ہے
نا ہی کوئی بات کرتی ہے
فقط خاموش ہے
مدت سے خاموشی کی چادر اوڑھ کر
اپنے لبوں میں ہی
نجانے کون سا منتر پڑھے جاتی ہے
اور پھر پھونک دیتی ہے
مری لاچاریوں پر بھی
مری بیداریوں پر بھی
مگر جب بھی تمہاری یاد آتی ہے
تو پھر یہ چیختی ہے
اور مرے کانوں میں وحشت گونجنے لگتی ہے
اور اندر تلک جاتی ہے
میری روح کو زخموں کا پہناوا عطا کر کے
نجانے پھر کہاں پر لوٹ جاتی ہے
اداسی بین کرتی ہے
تو پھر بے ساختہ میرے لبوں سے یہ نکلتا ہے
تمہیں میرا یقیں آتا نہیں کیوں کر؟؟
سنو اے اجنبی لڑکی
بتاؤ کس طرح سے میں تمہاری روح میں اتروں؟
بتاؤ کس طرح باور کراؤں میں تمہیں کیسے بتاؤں؟
کہ مجھے تم سے محبت ہو رہی تھی
ہو گئی تھی
ہو گئی ہے
اور بہت ہی دور تک ہوتی چلی جائے گی
میری اجنبی لڑکی
مجھے تم سے محبت بے تحاشہ ہے
بہت زیادہ سے زیادہ ہے
مگر جب پوچھتی ہو
کس قدر ہے
تو نجانے کیوں
تمہیں دکھلا نہیں پاتا
تمہیں بتلا نہیں پاتا
یقین جانو مری اے اجنبی لڑکی
محبت ناپنے کا کوئی بھی آلہ نہیں ہے پاس میرے
نا ہی میں نے اس طرح کی کوئی بھی خواہش کبھی کی ہے
کہ میں تم کو کبھی لفظوں میں بتلاؤں
کہ ہاں اتنی...
ذرا سی...
اور تھوڑی...
اور زیادہ سی...
یہاں تک بس....
نہیں اے اجنبی لڑکی
محبت کب سماتی ہے
سمندر میں بتاؤ تو
نہ کوئی لفظ ایسا ہے
بتائے جو
کہ ہاں اتنی محبت ہے
یہاں سے ہے شروع اور بس یہاں تک ہے
مری اے اجنبی لڑکی
سنو دیکھو..
میں بے پایاں محبت تم سے کرتا ہوں
کنارہ ہی نہیں اس کا
کبھی آؤ
کبھی تو ڈوب کر دیکھو
تمہیں شکوہ ہے تو بس یہ
کہ میں کہتا نہیں تم سے
تمہیں خود جان جانا چاہئیے تھا ناں
مرے اندر بھی رہتی ہو
مگر تم بے خبر کیوں ہو؟
تم اتنی بے صبر کیوں؟؟
مری اس زندگانی سے جڑے سارے حوالوں سے جڑی
میری فقط
میری ہی ذاتی
اک مری اپنی
مری اے اجنبی لڑکی
مجھے تم سے محبت ہے
محبت ہے
محبت ہے
بہت زیادہ محبت ہے
بہت زیادہ سے بھی زیادہ محبت ہے
مری اے اجنبی لڑکی....!

ابھی کچھ دن لگیں گے

ابھی کچھ دن لگیں گے
دل ایسے شہر کے پامال ہو جانے کا منظر بھولنے میں
ابھی کچھ دن لگیں گے
جہان رنگ کے سارے خس و خاشاک
سب سرو و صنوبر بھولنے میں
ابھی کچھ دن لگیں گے
تھکے ہارے ہوے خوابوں کے ساحل پر
کہیں امید کا چھوٹا سا اک گھر
بنتے بنتے رہ گیا ہے
وہ اک گھر بھولنے میں
ابھی کچھ دن لگیں گے
مگر اب دن ہی کتنے رہ گئے ہیں
بس اک دن دل کی لوح منتظر پر
اچانک
رات اترے گی
میری بے نور آنکھوں کے خزانے میں چھپے
ہر خواب کی تکمیل کر دے گی
مجھے بھی خواب میں تبدیل کر دے گی
اک ایسا خواب جس کا دیکھنا ممکن نہیں تھا
اک ایسا خواب جس کے دامن صد چاک میں کوئی مبارک
کوئی روشن دن نہیں تھا
ابھی کچھ دن لگیں گے

بہت سے عام لوگوں میں

بہت سے عام لوگوں میں
بہت ہی عام سے ہیں
کہ بالکل شام سے ہیں ہم
کہ جیسے شام ہوتی ہے
بہت چپ چپ اور خاموش
بہت ہی پرسکون لیکن
کسی پہ مہربانی جیسی
مگر بے چین ہوتی ہے
کوئ ہو راز دان جیسے
خفا صبح کی کرنوں سے
کہ جیسے شام ہوتی ہے
یوں بالکل شام سے ہیں ہم
بہت ہی عام سے ہیں ہم
مگر ان عام لوگوں میں
دل حساس رکھتے ہیں
بہت کچھ خاص رکھتے ہیں

ماں

وہ کون ہے جو اداس راتوں کی چاندنی میں
کئی دعائیں لبوں پہ لے کر
ملول ہو کر
بھلا کے ساری تھکان دن کی
یہ سوچتی تهی
کہ میں نجانے ہزاروں میلوں پرے جو بیھٹا ہوں
کس طرح ہوں
وہ کون تهی جو اداس راتوں کے رتجگے میں
دعاوں کی مشعلیں جلائے کھڑی ہوئی تهی
دعائیں جس کی اولاد کے لیے تهیں
میں ان دعاوں کے زیر سایہ
زمیں سے آسماں کی جانب یوں محو پرواز ہوں کہ جیسے
بشر گزیدہ خدا سے ملنے کو جارہا ہو
پھر ایک لمحے کو میرے اندر سے اتنی آوازیں گونجتی ہیں
میں ان سے برسوں سے آشنا ہوں
وه ہاتھ جو کہ بلند ہو کر لرز رہے تهے
وه ہاتھ میرے لیے تحفظ کا استعارہ
وه ہاتھ میرے لیے جہاں کی
ہزاروں خوشیوں سے بالا تر تهے
یہی تو تهیں وہ جنہوں نے مجھ کو
قدم اٹھانا سکھادیا ہے

وہ لفظ محمد ہے

قرطاس کے چہرے پر
اک لفظ لکھا میں نے
اس لفظ کی خُوشبُو سے
قرطاس معطر ہے
اس نام کی کرنوں سے
ہر چیز منور ہے
وہ لفظ مکمل ہے
وہ لفظ محمد ہے
صلی اللہُ علیٰہ وسلم

کون روک سکتا ہے!

کون روک سکتا ہے!
لاکھ ضبط خواہش کے
بے شمار دعوے ہوں
اس کو بھول جانے کے
بے پنہ ارادے ہوں
اور اس محبت کو ترک کرکے جینے کا
فیصلہ سنانے کو
کتنے لفظ سوچے ہوں
دل کو اس کی آہٹ پر
برملا دھڑکنے سے کون روک سکتا ہے
پھر وفا کے صحرا میں
اس کے نرم لہجے اور سوگوار آنکھوں کی
خوشبوؤں کو چھونے سے
جستجو میں رہنے سے
روح تک پگھلنے سے
ننگے پاؤں چلنے سے
کون روک سکتا ہے
آنسوؤں کی بارش میں
چاہے دل کے ہاتھوں میں
ہجر کے مسافر کے
پاؤں تک بھی چھو آؤ
جس کو لوٹ جانا ہو
اس کو دور جانے سے
راستہ بدلنے سے
دور جا نکلنے سے
کون روک سکتا ہے

Thursday, February 25, 2016

محبت ایک صحرا ہے

اسے کہنا
محبت ایک صحرا ہے
اور صحرا میں کبھی بارش نہیں ہوتی
اور اگر باالفرض ہو بھی تو
فقط اک پل کو ہوتی ہے
اور اس کے بعد صدیاں خشک سالی میں گزرتی ہیں
اسے کہنا
محبت ایک صحرا ہے
اور اس میں وصل کی بارش کو صدیاں بیت جاتی ہیں
مگر پھر بھی نہیں ہوتی
اور اگر باالفرض ہو بھی تو
پھر اس کے بعد صدیوں کی جدائی مار دیتی ہے
اسے کہنا
محبت ایک صحرا ہے
اور صحرا کے سرابوں میں بھٹک جانے کا خدشہ سب کو رہتا ہے
کبھی پیاسے مسافر جب سرابوں میں بھٹک جائیں
انھیں رستہ نہیں ملتا
اسے کہنا
محبت ایک صحرا ہے
وفاؤں کے سرابوں سے اٹا صحرا
محبت کے مسافر گر
وفا کے ان سرابوں میں بھٹک جائیں
تو پھر وہ زندگی بھر ان سرابوں میں ہی رہتے ہیں
کبھی واپس نہیں آتے..

کہو نا یاد کرتے ہو!

کہو نا یاد کرتے ہو!
انا کے دیوتا !
اچھا چلو مرضی تمہاری
پر
میں اتنا جانتا تو ہوں
کہ جب بھی شام ڈھلتی ہے
تو لمبی رات کی کجلائی آنکھوں میں
ستارے جھلملاتے ہیں
تمہیں میں اس گھڑی پھر چاند کو تکتے ہوئے
شدت سے اتنا یاد آتا ہوں کہ جتنی شدتوں سے
تم خموشی کی ردا کو اوڑھ کر یہ کہہ نہیں پاتے
کہ ہاں! تم یاد آتے ہو!
چلو مانا انائیں اہم ہوتی ہیں
مگر ان سے کہیں زیادہ محبت اہم ہوتی ہے
چلو مانا تمہیں عادت نہیں اظہار کی،
اقرار کی،
اور تم بھی محسن نقوی کی وہ نظم تھی نا جو
“چلو چھوڑو” کی بس ان چند سطروں سے متاثر ہو
کہ جو کچھ اس طرح سے تھیں
“چلو چھوڑو! محبت جھوٹ ہے
عہدِ وفا اک شغل ہے بے کار لوگوں کا”
مگر اِس نظم میں پنہاں
جو ہے اک بے بسی کی اوٹ میں ٹوٹا،
تھکا ہارا بڑا ہی مضطرب اور طنزیہ لہجہ
اسے تم نے کبھی محسوس کرنے کی سعی کی
نا مرے جذباب کو سمجھا
مجھے معلوم ہے تم کو محبت ہے مگر تم کہہ نہیں سکتے
انا کے دیوتا!
میں جانتا ہوں ان کہی باتیں
مگر چھوٹی سی یہ خواہش
مجھے تڑپائے رکھتی ہے کہ تم بھی تو
کبھی اپنی انا کا بت گراؤ
وہ سبھی باتیں ذرا شیریں سے لہجے میں سناؤ
وہ سبھی باتیں جنھیں تم کہہ نہیں پائے
جنھیں تم کہہ نہیں سکتے
مجھے معلوم ہے کہ میں تمہیں بے چینیوں کی شدتوں میں
حد سے زیادہ یاد آتا ہوں
مگر تم لب ہلاؤ تو
مری ان رتجگوں کی مٹھیوں میں قید آنکھوں میں
تم اپنی ڈال کر آنکھیں ذرا اک بار دیکھو تو!!
کہو کس واسطے جذبوں کا اپنے خون کرتے ہو
بھلا کیوں روندتے ہو پاؤں میں ایسے گُلِ خوابِ محبت کو
تمہیں ملتا ہی کیا ہے درد سے مجھ کو سدا منسوب رکھنے میں
انا کو اوڑھ کر تم کس لیے یہ خواہشیں اور حسرتیں برباد کرتے ہو
کہو نا یاد کرتے ہو

ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﮮ ﺩﺭﻣﯿﺎﮞ ﮐﯿﺴﺎ ﺗﻌﻠﻖ ﮨﮯ

ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﮮ ﺩﺭﻣﯿﺎﮞ
ﮐﯿﺴﺎ ﺗﻌﻠﻖ ﮨﮯ !__
ﯾﮧ ﺭﺷﺘﮧ ﺳﻮﭼﺘﺎ ﻫﻮﮞ ﺗﻮ،
ﺳﻤﺠﮫ ﻣﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺗﺎ،
ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻠﺘﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﻋﻨﻮﺍﮞ،
ﻣﮕﺮ ﺍﺏ ﺗﻮ ___
ﻣﺮﺍ ﭼﻠﻨﺎ، ﻣﺮﺍ ﺭﮐﻨﺎ،
ﻣﺮﺍ ﺳﻮﻧﺎ، ﻣﺮﺍ ﺍﭨﮭﻨﺎ،
ﻣﺮﯼ ﺳﺎﺭﯼ ﺗﮭﮑﻦ ﺗﻢ ﮨﻮ،
ﻣﺮﯼ ﺭﺍﺣﺖ ﮐﺎ ﮨﻮ ﺳﺎﻣﺎﮞ،
ﮐﮧ ﺗﻢ ﺳﮯ ﺩﻭﺭ ﺭﮦ ﮐﺮ ﺑﮭﯽ ﮨﯽ ﺩﯾﮑﮭﺎ،
ﺍﮎ ﺍﺩﺍﺳﯽ ﻫﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ،
ﻧﮧ ﺗﺠﮫ ﺳﮯ ﻣﻞ ﮨﯽ ﺳﮑﺎ
ﻧﮧ ﮨﯽ ﺗﺠﮫ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮫ ﺳﮑﺎ
ﻣﮕﺮ ﻋﺠﯿﺐ ﮨﮯ ﺗﻢ ﺳﮯ ﺗﺨﯿﻼﺗﯽ ﺭﺑﻂ،
ﮐﮧ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺑﯿﭩﮭﺎ ﮨﻮﺍ ﭘﺎﺗﺎ ﮨﻮﮞ ﺗﻤﮩﯿﮟ،
ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﺳﻨﺘﺎ ﺑﮭﯽ ﮨﻮﮞ، ﺍﭘﻨﯽ ﺳﻨﺎﺗﺎ ﮨﻮﮞ ﺗﻤﮩﯿﮟ،
ﺩﯾﮑﮫ ﺻﻮﺭﺕ ﺗﯿﺮﯼ ﺩﻝ ﮐﻮ ﻣﯿﺮﮮ ﻗﺮﺍﺭ ﺁﺋﮯ،
ﺟﺐ ﺟﺐ ﭘﮑﺎﺭﻭﮞ ﺗﯿﺮﺍ ﻧﺎﻡ،
ﺍﺗﻨﺎ ﮨﯽ ﺗﺠﮫ ﭘﮧ ﭘﯿﺎﺭ ﺁﺋﮯ،
ﮐﯿﺎ ﺗﻌﻠﻖ ﻫﮯ ﺗﺠﮫ ﺳﮯ،
ﮐﭽﮫ ﺑﻬﯽ ﺗﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻌﻠﻮﻡ،
ﻣﮕﺮ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺍﺏ ﺗﯿﺮﮮ ﺑﻨﺎ،
ﮐﭽﮫ ﺍﯾﺴﯽ ﮨﯽ ﻫﮯ ﺟﯿﺴﮯ،
ﺑﻠﮑﻞ ﺍﺩﺍﺱ ﮐﮩﺎﻧﯽ ﺟﯿﺴﯽ،
ﮐﯿﺎ ﻧﺎﻡ ﺩﻭﮞ ﺍﺱ ﺭﺷﺘﮯ ﮐﻮ،
ﺑﺲ ﺍﯾﮏ ﺗﻌﻠﻖ ﻫﮯ ﺍﻧﺠﺎﻥ ﺳﺎ،
ﺍﯾﮏ ﺗﻌﻠﻖ _

تو اور میں

شام کا منظر اجلا رستہ
ایک کہانی تو اور میں
ڈھلتا سورج بڑھتا سایہ
کشتی رانی تو اور میں
بند کمرے میں چپ کا منظر
بھولی بسری میٹھی یادیں
تنہائ, دکھ, خوف کی لذت
دلبر جانی تو اور میں
تتلی, خوشبو  رنگ کی باتیں
شبنم سے شرمیلے خواب
آس کے پنچھی گم سم خواہش
رات کی رانی تو اور میں
پلکیں, چلمن شرما شرمی
کم کم باتیں نرمی نرمی
پھر سے وہی پہلی نادانی تو اور میں. 

ساڈے شہروں ٹر گئے چنگے دن

ساڈے شہروں ٹر گئے چنگے دن
ساڈی عمراں لے گئے نال
اسیں جھلّی فکر جوانی دی
ساڈئ چٹّے ہو گئے وال
سانوں بھُل گیا رووَن دکھّاں تے
ساڈی اکھیں پے گیا کال

ساڈی اکھیں چانن ترس گِیاں
ساڈے لِسّے پے گئے خاب
ساتھوں رُس گئے موسم خوشیاں دے
سانوں لڑ گئے پھُل غُلاب
سانوں ساون چھوڑ کے ٹُر، نَس گئے
ساتھوں دُھپٗاں لَوِن حساب
۔۔۔
اسیں رُنّے ترینہہ وِچ اکھیں دے
سانوں ہَس ہَس ویکھن تھل
اسیں گوڈیاں بھار سفر کیتے
ساڈی رستیاں لاہ لئی کھَل
ساڈی فصلاں پانیاں مار دِتی
ساڈی وستی چل گئے ھَل
۔۔۔
اسیں کلّے رہ گئے جھوٹھیاں وچ
ساڈا لکھ کے لے گئے ناں
ساڈے پیریں جُتّی سفراں دی
ساڈے سِر تے دُھپ دی چھاں
چا ہتھّاں نال بنیریاں نوں
اسیں لبھدے پھرئے کاں
۔۔۔
اسیں ڈاڈھے اوکھے ساہ لَو یے
ساڈے سینے دے وچ کِل
اِتھے دلّاں دے اندر زخم ہووَن
ساڈے زخماں اندر دل
کدیں آپے پٹیاں بَنھ بَویے
کدیں آپے بَویے چھِل
۔۔۔
ساڈے شہروں ٹر گئے چنگے دن
ساڈی عمراں لے گئے نال

بڑا دشوار ھوتا ھے

بڑا دشوار ھوتا ھے
ذرا سا فیصلہ کرنا
کہ...
جیون کی کہانی کو...
بیانِ بےزبانی کو...
کہاں سے یاد رکھنا ھے
کہاں سے بھول جانا ھے
کسےکتنا بتا نا ھے...
کس سے کتنا چھپانا ھے
کہاں رو رو کے ھنسنا ھے
کہاں ھنس ھنس کے رونا ھے
کہاں آواز دینی ھے
کہاں خاموش رھنا ھے
کہاں رستہ بدلنا ھے
کہاں سے لوٹ آنا ھے
بڑا دشوار ھوتا ھے
ذرا سا فیصلہ کرنا..'

پوچھنے والے تجھے کیسے بتائیں آخر

پوچھنے والے تجھے کیسے بتائیں آخر
دکھ عبارت تو نہیں ،جو تجھے لکھ کر بھیجیں
یہ کہانی بھی نہیں ہے کہ سنائیں تجھ کو
نہ کوئی بات ہی ایسی کہ بتائیں تجھ کو
زخم ہو تو تیرے ناخن کے حوالے کر دیں
آئینہ بھی تو نہیں ہے کہ دکھائیں تجھ کو
تو نے پوچھا ہے مگر کیسے بتائیں تجھ کو
یہ کوئی راز نہیں جس کو چھپائیں تو وہ راز
کبھی چہرے کبھی آنکھوں سے چھلک جاتا ہے
جیسے آنچل کو سنبھالے کوئی اور تیز ہوا
جب بھی چلتی ہے تو شانوں سے ڈھلک جاتا ہے
اب تجھے کیسے بتائیں کہ ہمیں کیا دکھ ہے
جسم میں رینگتی رہتی ہے مسافت کی تھکن
پھر بھی کاندھوں پہ اٹھائے ہوئے حالات کا بوجھ
اپنے قدموں سے ہٹاتے ہوئے سائے اپنے
جس کو بھی دیکھیئے چپ چاپ چلا جاتا ہے
کبھی خود سے کبھی رستوں سے الجھتا ہے مگر
جانے والا کسی آواز پہ رکتا ہی نہی
ڈھونڈنا ہے نیا پیرائے اظہار ہمیں
استعاروں کی زباں کوئی سمجھتا ہی نہیں
دل گرفتہ ہیں طلسماتِ غمِ ہستی سے
سانس لینے سے فسوں قریاں جاں ٹوٹتی ہے
اک تغیر پس ہر شے ہے مگر ظلم کی ڈور
ابھی معلوم نہیں ہے کہ کہاں ٹوٹتی ہے
تو سمجھتا ہے کہ خوشبو سے معطر ہے حیات
تو نے چکھا ہی نہیں زہر کسی موسم کا
تجھ پہ گزرا ہی نہیں رقص جنوں کا عالم
ایسا عالم جہاں صدیوں کے تحیر کا نشہ
ہر بچھڑی ہوئی ساعت سے گلے ملتا ہے
اس تماشے کا بظاہر تو نہیں کوئی سبب
صرف محسوس کرو گے تو پتا چلتا ہے
ایک دھن ہے جو سنائی نہیں دیتی پھر بھی
لے بہ لے بڑھتا چلا جاتا ہے ہنگامِ ستم
کو بہ کو پھیلتا جاتا ہےغبار ِمن وتو
روح سے خالی ہوے جاتے ہے جسموں کے حرم
وقت بے رحم ہے,ہم رقص برہنہ ہیں سبھی
اب تو پابند سلاسل نہیں کوئی پھر بھی
دشت مژ گاں میں بھٹکتا ہوا تاروں کا ہجوم
صفحہ لب پہ سسسکتی ہوئی آواز کی لو
دیکھ تو کیسے رہائی کی خبر کرتی ہے
روزن وقت سے آغاز سفر کرتی ہے
بے خبر رہنا کسی بات سے اچھا ہی نہیں
تو کبھی وقت کی دہلیز پہ ٹہرا ہی نہیں
تو نے دیکھے ہی نہیں حلق امروز کے رنگ
گرمی وعدہ فردا سے پگھلتے ہوے لوگ
اپنے ہی خواب کی تعبیر مے جلتے ہوئےلوگ
بھوک اور پیاس کی مری ہوئی فصلوں کی طرح
پرعزم کی لکیروں سے ابھرتے ہوے لوگ
امن کے نام پر بارود بھری دنیا میں
خاص خشک کی مانند بکھرتے ہوے لوگ
روز جیتے ہوئےاور روز ہی مرتے ہوئے لوگ
زندگی فلم نہیں ہے کہ دکھائیں تجھ کو
تو نے پوچھا ہے مگر کیسےبتائیں تجھ کو
کوئی محفوظ نہیں اہل تحفظ سے یہاں
رات بھاری ہے کہیں اور کہیں دن بھاری
ساری دنیا کوئی میدان سا لگتی ہے ہمیں
جس میں اک معرکہ سود و زیاں جاری ہے
پاؤں رکھے ہوے بارود پر سب لوگ جہاں
اپنے ہاتھوں میں اٹھائے ہوے پروانہ شب
آستینوں میں چھپائے ہوے مہتاب کوئی
اپنی گردن میں لیے اپنے گریبان کا طوق
نیند میں چلتے ہوے دیکھتے ہے خواب کوئی
اور یہ سوچتے رہتے ہے کہ دیواروں سے
شب کے آثار ڈھلے,صبح کا سورج ابھرا
دور افق پار پہاڑوں پہ چمکتی ہوئی برف
نئے سورج کی تمازت سے پگھل جائے گی
اور کسی وقفہ امکان سحر میں اب کہ
روشنی سارے اندھیروں کو نگل جائے گی
دیکھئے کیسے پہنچتی ہے ٹھکانے پہ کہیں
دور اک فاختہ اڑتی ہے نشانے پہ کہیں
آ کے یہ منظر خون بستہ دکھائیں تجھ کو
تو نے پوچھا ہے مگر کیسےبتائیں تجھ کو
کوئی گاہک ہی نہیں جوہر آئندہ کا
چشم کھولے ہوے بیٹھی ہے دکان گریہ
اور اسی منظر خون بستہ کے گوشے میں کہیں
سر پہ ڈالے ہوے اک لمحہ موجود کی دھول
تیرے عشاق بہت خاک بسر پھرتے ہیں
وقت کب کھینچ لے مقتل میں گواہی کے لیے
دست خالی میں لیے کاسہ سر پھرتے ہیں
پوچھنے والے تجھے کیسے بتائیں آخر
دکھ عبارت تو نہیں جو تجھے لکھ کر بھیجیں
دکھ تو محسوس ہوا کرتا ہے
چاہے تیرا ہو یا میرا دکھ ہو!

دنوں کا دکھ

دنوں کا دکھ
عجب دن آ پڑے ہیں
بوڑھی صدیاں رات رو کر دیکھتی ہیں
صبح کے کاندھے پہ پھولوں کے جنازے ہیں
نہ اِن کا بَوجھ اُٹھتا ہےنہ آنکھیں نَم اُٹھا کر دو قدم چلتی ہیں
سکتہ ہے۔۔۔۔۔ سکوتِ مرگ سے بھی سخت سکتہ
سِسکیوں کی راہ کو مسدود کرتا ہے
عجب سکتے کا پتّھر ہے
دنوں کو توڑتا گھایل دلوں پر آ پڑا
اب جو کسی کی چیخ سے دو نیم بھی ہوتا نہیں
کب سے یہاں سورج نہیں نکلا
کتابوں میں لکھے الفاظ مجھ سے پوچھتے ہیں
وقت کی تقویم میں کیسے یہ کالے دن لکھے تھے
روشنی کے نام پر آ کر اندھیرے روشنی کا قتل کرتے ہیں
مقدّس جسم اُدَھڑتے ہیں
تو وَحشت کے پرانے پتّھروں کے واسطے’ یعنی نئی پوشاک سلتی ہے
عجب دن آ پڑے ہیں
وقت کی تقویم سے باہَر کے دن ہیں
اُور مِرے شانوں پہ رکّھے ہیں
نہ ان کا بَوجھ اُٹھتا ہےنہ آنکھیں نَم اُٹھا کر دو قدم چلتی ہیں
سکتہ ہے۔

جب ہم جڑتے ہیں!

جب ہم جڑتے ہیں!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اجاڑ موسموں میں
درخت سناٹوں کا پھل دیتے ہیں
تلوؤں پر سرد پتوں کا لمس
وجود میں
غارت گر لمحے اگاتا ہے
کالی چادروں میں لپٹے جھونکے
سینے کی دیواروں سے
زندگی گھسیٹ کر
مٹی پر ٹھٹھرنے کے لیے
چھوڑ دیتے ہیں
یہ لہریں کھائی ہوئی ریت
جو جنسی ابھاروں کی تشبیہہ بن گئی ہے
یہ دور تک پھسلتا آسمان
جو زندہ رکھ کر جینے نہیں دیتا
اور سینے کے دروازے کھلتے ہیں تو
جنگل بہتا ہوا
اس کے اندر بس جاتا ہے
یہ روح کاٹتی اداسی
یہ خلا در خلا
سب کچھ اکائی میں ڈھلتا ہے
بکھرے وجود کی اکائیوں میں
کچھ زندگی
کچھ مسرت
اور کچھ کمینگی
سینے کے دروازے پر
دستک دیتی ہے

Wednesday, February 24, 2016

دنوں کا دکھ

دنوں کا دکھ
عجب دن آ پڑے ہیں
بوڑھی صدیاں رات رو کر دیکھتی ہیں
صبح کے کاندھے پہ پھولوں کے جنازے ہیں
نہ اِن کا بَوجھ اُٹھتا ہےنہ آنکھیں نَم اُٹھا کر دو قدم چلتی ہیں
سکتہ ہے۔۔۔۔۔ سکوتِ مرگ سے بھی سخت سکتہ
سِسکیوں کی راہ کو مسدود کرتا ہے
عجب سکتے کا پتّھر ہے
دنوں کو توڑتا گھایل دلوں پر آ پڑا
اب جو کسی کی چیخ سے دو نیم بھی ہوتا نہیں
کب سے یہاں سورج نہیں نکلا
کتابوں میں لکھے الفاظ مجھ سے پوچھتے ہیں
وقت کی تقویم میں کیسے یہ کالے دن لکھے تھے
روشنی کے نام پر آ کر اندھیرے روشنی کا قتل کرتے ہیں
مقدّس جسم اُدَھڑتے ہیں
تو وَحشت کے پرانے پتّھروں کے واسطے’ یعنی نئی پوشاک سلتی ہے
عجب دن آ پڑے ہیں
وقت کی تقویم سے باہَر کے دن ہیں
اُور مِرے شانوں پہ رکّھے ہیں
نہ ان کا بَوجھ اُٹھتا ہےنہ آنکھیں نَم اُٹھا کر دو قدم چلتی ہیں
سکتہ ہے