Friday, February 26, 2016

کون روک سکتا ہے!

کون روک سکتا ہے!
لاکھ ضبط خواہش کے
بے شمار دعوے ہوں
اس کو بھول جانے کے
بے پنہ ارادے ہوں
اور اس محبت کو ترک کرکے جینے کا
فیصلہ سنانے کو
کتنے لفظ سوچے ہوں
دل کو اس کی آہٹ پر
برملا دھڑکنے سے کون روک سکتا ہے
پھر وفا کے صحرا میں
اس کے نرم لہجے اور سوگوار آنکھوں کی
خوشبوؤں کو چھونے سے
جستجو میں رہنے سے
روح تک پگھلنے سے
ننگے پاؤں چلنے سے
کون روک سکتا ہے
آنسوؤں کی بارش میں
چاہے دل کے ہاتھوں میں
ہجر کے مسافر کے
پاؤں تک بھی چھو آؤ
جس کو لوٹ جانا ہو
اس کو دور جانے سے
راستہ بدلنے سے
دور جا نکلنے سے
کون روک سکتا ہے

No comments:

Post a Comment