Friday, February 26, 2016

ماں

وہ کون ہے جو اداس راتوں کی چاندنی میں
کئی دعائیں لبوں پہ لے کر
ملول ہو کر
بھلا کے ساری تھکان دن کی
یہ سوچتی تهی
کہ میں نجانے ہزاروں میلوں پرے جو بیھٹا ہوں
کس طرح ہوں
وہ کون تهی جو اداس راتوں کے رتجگے میں
دعاوں کی مشعلیں جلائے کھڑی ہوئی تهی
دعائیں جس کی اولاد کے لیے تهیں
میں ان دعاوں کے زیر سایہ
زمیں سے آسماں کی جانب یوں محو پرواز ہوں کہ جیسے
بشر گزیدہ خدا سے ملنے کو جارہا ہو
پھر ایک لمحے کو میرے اندر سے اتنی آوازیں گونجتی ہیں
میں ان سے برسوں سے آشنا ہوں
وه ہاتھ جو کہ بلند ہو کر لرز رہے تهے
وه ہاتھ میرے لیے تحفظ کا استعارہ
وه ہاتھ میرے لیے جہاں کی
ہزاروں خوشیوں سے بالا تر تهے
یہی تو تهیں وہ جنہوں نے مجھ کو
قدم اٹھانا سکھادیا ہے

No comments:

Post a Comment