Thursday, October 26, 2017

مری سوچ کے ٹھہرے پانی میں

مری سوچ کے ٹھہرے پانی میں
تیرے نین کنول جب ہنستے ہیں
میرے دھیان کے اجلے آنگن میں
جب صبح ستارے چنتی ہے
جب شام کوئی سر بنتی ہے
جب اندیشوں کی بانہوں میں
تیرے سانس کا ریشم کھلتا ہے
جب میرے ہرے کچور خیالوں میں
تیرے جذبوں کا زر گھلتا ہے
میں سوچتا ہوں ان رستوں میں
جب کتنی دیر کے بعد ملے
جب کتنے موسم بیت گئے
اس کرب کٹھور مسافت میں
دل صدیوں چکنا چور ہوا
اس ہجر کے تپتے صحرا میں
کیا غزلیں تھیں جو راکھہ ہوئیں
کیا نیندیں تھیں جو خاک ہوئیں
ہم کتنی دیر کے بعد ملے .؟
کب اتنی دیر کے بعد ملے .؟
یہ دیر بھی کیا جب آنکھوں کے
سب آنسو اب مرجان ہوۓ
سب آبلے پھوٹ کے ٹوٹ گئے
سب زخم ہوۓ یاقوت صفت
یہ اجر ہے ہجر کے موسم کا
خود قرب کی رت گلپوش ہوئی
تیرے نین کنول جب بول پڑے
تیرے سات سروں کے سرگم کا
سب سونا میرے نام ہوا
اب تیرے قرب میں سوچتا ہوں
یہ صدیوں بعد کا بہلاوا
اک خواب سرشت سراب نہ ہو
یہ روپ سوال نہ ہو جائے
یہ خواب خیال نہ ہو جائے
یہ راحت کرب انجام نہ ہو
تیرے سات سروں کے سرگم میں
سب روپ خزانہ سب سونا
کسی اور سخی کے نام نہ ہو
جب شام ڈھلے میں سوچتا ہوں
میں سوچتا ہوں کیوں سوچتا ہوں ؟
میری سوچ کے ٹھہرے پانی میں
تیرے نین کنول جب ہنستے ہیں
محسن نقویمری سوچ کے ٹھہرے پانی میں
تیرے نین کنول جب ہنستے ہیں
میرے دھیان کے اجلے آنگن میں
جب صبح ستارے چنتی ہے
جب شام کوئی سر بنتی ہے
جب اندیشوں کی بانہوں میں
تیرے سانس کا ریشم کھلتا ہے
جب میرے ہرے کچور خیالوں میں
تیرے جذبوں کا زر گھلتا ہے
میں سوچتا ہوں ان رستوں میں
جب کتنی دیر کے بعد ملے
جب کتنے موسم بیت گئے
اس کرب کٹھور مسافت میں
دل صدیوں چکنا چور ہوا
اس ہجر کے تپتے صحرا میں
کیا غزلیں تھیں جو راکھہ ہوئیں
کیا نیندیں تھیں جو خاک ہوئیں
ہم کتنی دیر کے بعد ملے .؟
کب اتنی دیر کے بعد ملے .؟
یہ دیر بھی کیا جب آنکھوں کے
سب آنسو اب مرجان ہوۓ
سب آبلے پھوٹ کے ٹوٹ گئے
سب زخم ہوۓ یاقوت صفت
یہ اجر ہے ہجر کے موسم کا
خود قرب کی رت گلپوش ہوئی
تیرے نین کنول جب بول پڑے
تیرے سات سروں کے سرگم کا
سب سونا میرے نام ہوا
اب تیرے قرب میں سوچتا ہوں
یہ صدیوں بعد کا بہلاوا
اک خواب سرشت سراب نہ ہو
یہ روپ سوال نہ ہو جائے
یہ خواب خیال نہ ہو جائے
یہ راحت کرب انجام نہ ہو
تیرے سات سروں کے سرگم میں
سب روپ خزانہ سب سونا
کسی اور سخی کے نام نہ ہو
جب شام ڈھلے میں سوچتا ہوں
میں سوچتا ہوں کیوں سوچتا ہوں ؟
میری سوچ کے ٹھہرے پانی میں
تیرے نین کنول جب ہنستے ہیں
محسن نقوی

Wednesday, October 25, 2017

مجھے تیری محبت نے

تجھے شاید خبر ہوگی
مجھے تیری محبت نے
بہت بزدل بنا ڈالا ...!
میں ہر اس شئے سے ڈرتا ہوں
تجھے جو چھین سکتی ہے
میں ان لمحوں سے ڈرتا ہوں
جدائی جن میں رہتی ہے
میں ان اشکوں سے ڈرتا ہوں
جو بن کر یاد بہتے ہیں
میں ان لفظوں سے ڈرتا ہوں
جو خاموشی میں رہتے ہیں
بچھڑنے کی ... میرے ہم دم
میں ہر صورت سے ڈرتا ہوں
تجھے شاید , خبر ہو گی
مجھے تیری محبت نے
بہت بزدل بنا ڈالا ...!!!

تم کسی دن جو چمکتا ہوا دیکھو مجھ کو

تم کسی دن جو چمکتا ہوا دیکھو مجھ کو
جان لینا ! یہ زرِ عشق کی تابانی ہے
میرے شبدوں میں اگر اپنا سراپا دیکھو
سوچ لینا ! یہ نمِ ہجر کی حیرانی ہے
کسی دربار کی آمین بھری خلوت میں
عین ممکن ہے تمھیں میرا پتا مل جائے
یہ بھی ہو سکتا ہے میں تم کو ملوں یا نہ ملوں
لیکن اس کھوج میں خود تم کو خدا مل جائے !

ﻣﺤﺒﺖ ﻭﮦ ﻧﮩﯿﮟ

سنو!!!!!!!
ﻣﺤﺒﺖ ﻭﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﻮ ﯾﮧ ﻧﺴﻞِ ﻧﻮ ﺳﻤﺠﺘﮭﯽ ﮨﮯ
ﯾﮧ ﭘﮩﺮﻭﮞ ﻓﻮﻥ ﭘﺮ ﺑﺎﺗﯿﮟ
ﯾﮧ ﺁﺋﮯ ﺩﻥ ﻣﻼﻗﺎﺗﯿﮟ
ﺍﮔﺮﯾﮧ ﺳﺐ ﻣﺤﺒﺖ ﮨﮯ
ﺗﻮ ﺗﻒ ﺍﯾﺴﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﭘﺮ
ﻣﺤﺒﺖ ﺗﻮ ﻣﺤﺒﺖ ﮨﮯ
ﻭﺻﺎﻝ ﻭ ﻭﺻﻞ ﮐﯽ ﺧﻮﺍﮨﺶ ﺳﮯ ﺑﺎﻻﺗﺮ
کہتے ہیں کہ!!!!
ﻣﺤﺒﺖ ﻗُﺮﺏ ﮐﯽ ﺧﻮﺍﮨﺶ ﭘﮧ ﺁﺋﮯ ﺗﻮ ﺳﻤﺠﮫ ﻟﯿﻨﺎ
ﮨﻮﺱ ﻧﮯ ﺳﺮ ﺁُﭨﮭﺎﯾﺎ ﮨﮯ
ﮨﻮﺱ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ
ﻓﻘﻂ ﺟﺴﻤﻮﮞ ﮐﯽ ﭘﺎﻣﺎﻟﯽ ، ﻓﻘﻂ ﺗﺬﻟﯿﻞ ﺭﻭﺣﻮﮞ ﮐﯽ
کہتے ہیں کہ ﻣﺤﺒﺖ ﺍﻭﺭ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ
ﮨﻮﺱ ﮐﭽﮫ ﺍﻭﺭ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ
ﺳﻮ ﺟﺐ ﻗُﺮﺏ ﮐﯽ ﺧﻮﺍﮨﺶ ﭘﮧ ﺁﺟﺎﺋﮯ ﻣﺤﺒﺖ
ﺳُﻨﻮ ﭘﮭﺮ ﺩﯾﺮ ﻣَﺖ ﮐﺮﻧﺎ
ﻭﮨﯿﮟ ﺭﺳﺘﮧ ﺑﺪﻝ ﻟﯿﻨﺎ
ذرا بھی دیر مت کرنا!!!!

سنو محبت کے صاف منکر

سنو محبت کے صاف منکر
بجا کہا کہ۔۔۔کہیں نہیں ہوں !!!
تمہارے دل کے کسی بھی گوشے میں یاد بن کر
نہیں ہوں اب میں۔۔۔
غبار ہ ہجراں کے سلسلوں نے
وصال رت کی تمام یادیں
تمہارے دل سے دھکیل دی ہیں
مگر مری جاں
سمے ملے تو یہ غور کرنا
تمہاری آنکھوں کی سرحدوں پر
ابھرنے والی ہر ایک نس میں
یہ سرخ ڈورے جو بن رہا ہے
لہو نہیں ہے
میں ہوں جاناں !!!
کہ جس لہو کو طواف کر کے
تمہارے دل میں ہی لوٹنا ہے۔۔۔

آپکے دل سے اتـــــــر جاتے، کنارا کرتے

آپکے دل سے اتـــــــر جاتے، کنارا کرتے
آپ مبہم ســـــا اگــــــر ایک اشارہ کرتے
ہم نے دیکھی ھے جدائی میں وہ لذت کہ ہمیں
کرنا پڑتا تو یہی ہجــر دوبارہ کرتے
کس اذّیت میں ہمیں آپ نے چھوڑا تنہا
دوست ہوتے تو بھلا ایسے کنارہ کرتے
تشنگی لب پــــہ لیۓ ڈوبتے اس دریا میں
آپ ساحل پہ کھڑے ہوتے ، نظارہ کرتے ,
ہم تو شامل ہی نہیں حرفِ دعا میں تیرے
کیوں ترا ہاتھ بھی ہاتھوں میں گوارا کرتے
مسکراتی ہوئ آنکھوں کے مقابل بازی
جیت جاتے کبھی ہم اور کبھی ہارا کرتے
تو نے سمجھا ہی نہیں شوق کا عالم ورنہ
ہم دل و جاں سے ترا صدقہ اتارا کرتے
ہم تــــــرے ہاتھ پہ لکھ لیتے مقــدر اپنـــا
ہم تری آنکھ سے دنیا کو سنوارا کرتے
ہم کو ملتی تری دھلیز کی سوغات اگر
خاک کو چومتے ماتھے کا ستارا کرتے -!

تیری اُلفت سے کیا مِلا اُس کو

جب مُنؔڈیروں پہ چاند کے ہمراہ
بُجھتی جاتی تھیں آخری شمعیں
کیا ترے واسطے نہیں ترسا
اُس کا مجبُور مضمحل چہرا ؟
کیا ترے واسطے نہیں جاگیں ؟
اُس کی بِیمار رحمدل آنکھیں
کیا تجھے یہ خیال ہَے کہ اُسے
اپنے لُٹنے کا کوئی رنج نہیں
اُس نے دیکھی ہَے دن کی خونخواری
اُس پہ گُزری ہَے شب کی عیاری
پھر بھی تیری طرح وُہ بےچاری
ساری دُنیا سے شکوہ سنج نہیں
زندہ باد اے انائے جذبہؑ عِشق
مرحبا اے شِکوہ ِخُدؔامی
اُس کی قُربت سے تجھ کو پُھول مِلے
زندگی کے نئے اصُول مِلے
تیری اُلفت سے کیا مِلا اُس کو
زحمتیں ، اضطراب ، بدنامی
-
مصطفٰی زیدی