جب مُنؔڈیروں پہ چاند کے ہمراہ
بُجھتی جاتی تھیں آخری شمعیں
کیا ترے واسطے نہیں ترسا
اُس کا مجبُور مضمحل چہرا ؟
کیا ترے واسطے نہیں جاگیں ؟
اُس کی بِیمار رحمدل آنکھیں
کیا تجھے یہ خیال ہَے کہ اُسے
اپنے لُٹنے کا کوئی رنج نہیں
اُس نے دیکھی ہَے دن کی خونخواری
اُس پہ گُزری ہَے شب کی عیاری
پھر بھی تیری طرح وُہ بےچاری
ساری دُنیا سے شکوہ سنج نہیں
زندہ باد اے انائے جذبہؑ عِشق
مرحبا اے شِکوہ ِخُدؔامی
اُس کی قُربت سے تجھ کو پُھول مِلے
زندگی کے نئے اصُول مِلے
تیری اُلفت سے کیا مِلا اُس کو
زحمتیں ، اضطراب ، بدنامی
-
مصطفٰی زیدی
No comments:
Post a Comment