ﻣﯿﮟ ﺍﻣﺒﺮﺧﺎﻥ ﮨﻮﮞ.
ﻣﯿﮟ ﺍﮎ ﻣﺎﮞ ﮨﻮﮞ.
ﻣﺠﮭﮯ ﮨﺮﺑﭽﮧ ﺍﭘﻨﺎﺑﭽﮧ ﻟﮕﺘﺎﮨﮯ.
ﮨﺮ ﻣﺎﮞ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮫ ﺳﮯ ﻧﮑﻼ ﺁﻧﺴﻮ ﺍﭘﻨﺎ ﻟﮕﺘﺎﮨﮯ.
ﻣﺪﺭﺳﮯ ﺳﮑﻮﻝ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺘﺎ ﻟﮩﻮ ﺍﭘﻨﺎ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ.
ﺟﮩﺎﮞ ﻣﻌﺼﻮﻡ ﺑﭽﮯ ﮨﻮﮞ ﻭﮦ ﺟﮩﺎﻥ
ﺍﭘﻨﺎﻟﮕﺘﺎﮨﮯ.
ﺳﻤﻨﺪﺭﮐﻨﺎﺭﮮ ﭘﮍﺍ ﻭﮦ ﺍﯾﻼﻥ ﺍﭘﻨﺎﻟﮕﺘﺎﮨﮯ.
ﻓﻠﺴﻄﯿﻦ ﻭ ﮐﺸﻤﯿﺮﻣﯿﮟ ﻣﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺑﮭﯽ
ﻣﯿﺮﮮ ﺑﭽﮯ ﮨﯿﮟ.
ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻣﯿﮟ ﺍﮎ ﻣﺎﮞ ﺟﻮ ﮨﻮﮞ.
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﮐﭽﮫ ﺧﻮﺍﺏ ﺍﭘﻨﯽ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﮐﮯ
ﺍﭘﻨﮯ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﺠﺎﮰ ﮨﯿﮟ.
ﺟﺐ ﻭﮦ ﺧﯿﺒﺮﭘﺨﺘﻮﻧﺨﻮﺍﮦ ﮐﯽ ﭨﮭﭩﮭﺮﺗﯽ ﺻﺒﺢ
ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﺳﯽ ﺳﺮﺥ ﻧﺎﮎ ﮐﻮ ﺭﮔﮍﺗﮯ
ﻧﺎﺷﺘﮧ ﮐﺮﺗﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﯾﻘﯿﻦ ﺩﻻﺗﮯ ﮨﯿﮟ.
ﻣﺎﮞ ﮨﻢ ﺁﭘﮑﮯ ﺧﻮﺍﺏ ﺳﭻ ﮐﺮ ﺩﮐﮭﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ.
ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﺎﻝ ﮨﻮﺟﺎﺗﯽ ﮬﻮﮞ.
ﻣﮕﺮ ﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﮈﺭﮔﺊ ﮨﻮﮞ.
ﺍﺏ ﻣﺠﮭﮯ ﮈﺭ ﻟﮕﺘﺎﮨﮯ.
ﮐﮩﯿﮟ ﻣﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﮐﮭﻮ ﻧﮧ ﺑﯿﮭﭩﻮﮞ.
ﮐﮩﯿﮟ ﻣﯿﺮﮮ ﺑﭽﮯ ﮐﻮﺉ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﭼﮭﯿﻦ ﻧﮧ
ﻟﮯ.
ﺍﺏ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﮐﺴﯽ ﺧﻮﺍﺏ ﮐﯽ ﺗﻌﺒﯿﺮ ﻧﮩﯿﮟ
ﭼﺎﮨﮱ.
ﻣﯿﺮﮮ ﺑﭽﮯ ﺳﮑﻮﻝ ﺳﮯ ﺳﻼﻣﺖ ﻟﻮﭦ ﺁﺋﯿﮟ ﺍﺏ
ﯾﮩﯽ ﻣﯿﺮﯼ ﺩﻋﺎ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ.
ﺍﺏ ﻣﯿﺮﺍ ﮈﺭ ﻣﺠﮭﮯ ﮐﻮﺉ ﺧﻮﺍﺏ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﻧﮩﯿﮟ
ﺩﯾﺘﺎ.
ﻣﯿﮟ ﻣﺎﻧﺘﯽ ﮨﻮﮞ.
ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺍﮎ ﺑﺰﺩﻝ ﻣﺎﮞ ﮬﻮﮞ
Wednesday, December 16, 2015
ﻣﺎﮞ
Tuesday, December 15, 2015
زنجیر ہلتی رہتی ہے
زنجیر ہلتی رہتی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دن تو سب اک جیسے ہوتے ہیں
اپنے اپنے قد
اپنی اپنی بینائی سے
مضمون بدلتا رہتا ہے
دنیا گرد و پیش کو قطرہ قطرہ
جوڑ کے زندہ کرتی ہے
الف سے ب تک
ب سے ے تک
کب سوچا تھا
بھاگتے بھاگتے
خود سے ہی ٹکرا کر
لوٹ آیئں گے
بے ترتیب مکانوں میں سناٹا
کان کی لو سے چپک کے اتنا اونچا
بولے گا کہ نیندیں
مستی کے درجے میں
صفر سے نیچےگر جایئں گی
چاۓ کی سرکی سے پہلے
غفلت کا دیباچہ لکھنا پڑ جاۓ گا
ناامیدی اور امید میں ایک تعلق
جڑی ہوئی دیواروں جیسا
باہم بھی متوازی بھی
اس رشتے کو جیون کا سر نامہ کر لیں
تو دل عجلت
بستر چکنائی سے بھر جاتا ہے
کاغذ ،قلم ، کتابیں
پل پل کرنے لگتے ہیں
دردامانت ہےلیکن کس طاق پہ رکھیں
عجلت میں روحانی یا جسمانی ہونا
مشکل ہے
دل سے دل
آنکھوں سے آنکھیں جڑیں
تو کرموں کا پہیہ چلتا ہے
عشق نبھانے کو
پورا انسان ضروری ہے
جس کو دیکھ کے
پودے پھولوں ، پیڑ پھلوں سے بھر جاتے ہیں
جس سے مل کر
حیرت کو تعویذ بنانا پڑتا ہے
الٹے سالوں کی گنتی میں
غلطی کا امکان ہے
ایک خجالت ہے
جو یکتائی سے لیپی
دیواروں پہ اگتی ہے
بڑھتے بڑھتے جسموں کے پر پیچ
دھند لکوں میں جا پڑتی ہے
ایسا لگتا ہے ہم
آنکھوں کے پردوں سے لے کر
آنتوں تک آلودہ ہیں
جس کو سوچا
اس کو دیکھنے
چھو لینے کی خواہش ہے
تم کہتے ہو کل دیکھیں گے
کل چھو لیں گے
آج تمہاری بے چینی
دو سوتر بڑھی ہوئی ہے
کل کیا دن پچھم کے افقی خط
سے ناک نکالے گا
یا چلو بھر حیرت کے سناٹوں میں تم
اپنے آپ پہ اترو گے
دن کیا!
دن تو سب اک جیسے ہوتے ہیں
ہاتھ سلامت رہیں تو دل بھی
درد۔ دل بھی قائم
ہر شے زندہ
ہر شے روشن
بے خبری سے رخصت لے کر
ہم حاضر بھی اور شریک بھی
اپنی عرضی کے خود کاتب
اور خود ہی مکتوب الیہ
تم کہتے ہو کل دیکھیں گے
Saturday, December 12, 2015
ﻣﺤﺒﺖ ﯾﻮﮞ ﺑﮭﯽ ﻣﻤﮑﻦ ﮨﮯ
ﻣﺤﺒﺖ ﯾﻮﮞ ﺑﮭﯽ ﻣﻤﮑﻦ ﮨﮯ
۔
ﻧﮧ ﺍُﺱ ﮐﻮ ﺩﯾﺮ ﺗﮏ ﺗﮑﻨﺎ
ﻧﮧ ﺍُﺱ ﺳﮯ ﺑﮩﺖ ﺳﯽ ﺑﺎﺗﯿﮟ
ﻧﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﭘﯿﺎﺭ ﮐﮯ ﻗﺼﮯ
ﻧﮧ ﺍٓﺧﺮ ﺷﺐ ﻣﻨﺎﺟﺎﺗﯿﮟ
ﻣﺤﺒﺖ ﯾﻮﮞ ﺑﮭﯽ ﻣﻤﮑﻦ ﮨﮯ
۔
ﮐﺒﮭﯽ ﮐﭽﮫ ﻋﺎﻡ ﺳﮯ ﺟﻤﻠﮯ
ﮐﺒﮭﯽ ﮐﭽﮫ ﻋﺎﻡ ﺳﯽ ﺑﺎﺗﯿﮟ
ﮐﺒﮭﯽ ﺑﺲ ﻣﺴﮑﺮﺍ ﺩﯾﻨﺎ
ﮐﺒﮭﯽ ﻧﻈﺮﯾﮟ ﭼُﺮﺍ ﻟﯿﻨﺎ
ﻣﺤﺒﺖ ﯾﻮﮞ ﺑﮭﯽ ﻣﻤﮑﻦ ﮨﮯ
۔
ﻧﮧ ﺑﮩﺖ ﺷﻮﺧﯽ ﮨﯽ ﺟﺬﺑﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﻧﮧ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺍُﻧﺲ ﺭﻧﮕﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﻧﮧ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺭﺑﻂ ﭘﮭﻮﻟﻮﮞ ﺳﮯ
ﻧﮧ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺳﻮﭺ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﻨﺎ
ﻣﺤﺒﺖ ﯾﻮﮞ ﺑﮭﯽ ﻣﻤﮑﻦ ﮨﮯ
۔
ﮐﮧ ﺟﺲ ﮐﻮ ﭼﺎﮨﺘﮯ ﮨﻮﮞ ﮨﻢ
ﻧﮧ ﺍُﺱ ﮐﻮ ﯾﮧ ﺑﺘﺎ ﭘﺎﻧﺎ
ﮐﮧ ﺍُﺱ ﮐﯽ ﭼﺎﮦ ﮐﻮ ﮨﺮ ﺩﻡ
ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﭼﮭﭙﺎ ﺭﮐﮭﻨﺎ
ﻣﺤﺒﺖ ﯾﻮﮞ ﺑﮭﯽ ﻣﻤﮑﻦ ﮨﮯ
۔
ﻧﮧ ﻧﻐﻤﮧ ﮔﯿﺖ ﮨﻮ ﮐﻮﺋﯽ
ﻧﮧ ﻣﯿﭩﮭﺎ ﺳﺎﺯ ﮨﻮ ﮐﻮﺋﯽ
ﺍﯾﺴﮯ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﭼﮭﭙﺎ ﺭﮐﮭﻨﺎ
ﮐﮧ ﺟﯿﺴﮯ ﺭﺍﺯ ﮨﻮ ﮐﻮﺋﯽ
ﻣﺤﺒﺖ ﯾﻮﮞ ﺑﮭﯽ ﻣﻤﮑﻦ ﮨﮯ
وہ درجن بھر مہینوں سے
وہ درجن بھر مہینوں سے
سدا ممتاز لگتا ہے
دسمبر کس لئے آخر
ہمیشہ خاص لگتا ہے
بہت سہمی ہوئی صبحیں
اداسی سے بھری ہوئی شامیں
دوپہریں روئی روئی سی
وہ راتیں کھوئی کھوئی سی
گرم دبیز شالوں کا
وہ کم روشن اجالوں کا
کبھی گزرے حوالوں کا
کبھی مشکل سوالوں کا
بچھڑ جانے کی مایوسی
ملن کی آس لگتا ہے
دسمبر کس لئے آخر
ہمیشہ خاص لگتا ہے
ﺳﻨﻮ ﺟﻦ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﮨﻮ
ﺳﻨﻮ ﺟﻦ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﮨﻮ
ﻭﮦ ﺟﮕﻨﻮ ﮨﻮﮞ،ﭘﺮﻧﺪﮮ ﮨﻮﮞ ﮐﮧ ﺍﻧﺴﺎﮞ ﮨﻮﮞ
ﺍﻧﮩﯿﮟ ﭘﮭﺮ ﻣﭩﮭﯿﻮﮞ ﺳﮯ ،ﺍﻭﺭ ﻗﻔﺲ ﺳﮯ
ﺁﺭﺯﻭﺋﮯ ﻃﻠﺐ ﺳﮯ ﺁﺯﺍﺩ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﺍﻧﮩﯿﮟ ﻗﯿﺪﯼ ﺑﻨﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﻧﮧ ﮨﯽ ﻣﻘﯿﺪ ﮐﺮﺗﮯ ہیں
ﻣﺤﺒﺖ ﻧﺎﻡ ﮨﮯ ﻧﻔﺮﺕ ﮐﯽ ﺑﻨﺪﺵ ﺳﮯ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﻧﺎ
ﻣﺤﺒﺖ ﻧﺎﻡ ﮨﮯ ﺩﻝ ﮐﮯ ﻗﻔﺲ ﺳﮯ ﺁﺭﺯﻭ ﺁﺯﺍﺩ ﮐﺮﺩﯾﻨﺎ
ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﺍﯾﺴﺎ ﮐﺮﻭ ﺗﻢ ﺑﮭﯽ
ﭘﺮﻧﺪﻭﮞ ﮐﻮ ﺭﮨﺎ ﮐﺮﺩﻭ
ﺍﻭﺭ ﻣﭩﮭﯽ ﮐﮭﻮﻝ ﮐﺮﻧﻨﮭﮯ ﺳﮯ ﺟﮕﻨﻮﮐﻮ ﺍﮌﺍﮈﺍﻟﻮ
ﺭﮨﺎ ﺍﻧﺴﺎﻥ
ﻭﮦ ﺑﮯﭼﺎﺭﮦ
ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮐﺮ ﺑﮭﯽ ﻗﯿﺪﯼ ﮨﮯ
ﮐﺮﺏ ﮐﺎ،ﺭﻧﺞ ﻭ ﺍﻟﻢ ﮐﺎ، ﺭﻭﺯﮔﺎﺭ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﺎ،ﺍﻭﺭﺟﺒﺮ ﮐﺎ،
ﻭﮦ ﺻﺪﯾﻮﮞ ﺳﮯ ﮐﺌﯽ ﺟﯿﻠﻮﮞ ،ﮐﺌﯽ ﻧﻔﺴﻮﮞ ،
ﮐﺌﯽﻗﻔﺴﻮﮞ ﮐﺎ ﻗﯿﺪﯼ ﮨﮯ
ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﻗﯿﺪ ﺳﮯ ﺁﺯﺍﺩ ﮨو ﮐﺮ ﺑﮭﯽ ﮐﮩﺎﮞﺟﺎﺋﮯ؟
ﻣﮕﺮ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﮎ ﮐﮭﮍﮐﯽ ﮨﯽ ﺳﮩﯽ
ﮐﮭﻞ ﺗﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ
ﭼﻠﻮ ﺗﮭﻮﮌﯼ ﺳﮩﯽ
ﺗﺎﺯﮦ ﮨﻮﺍ ﻣﻞ ﺗﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ
ﺳﻨﻮ ﺟﻦ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﮨﻮ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺁﺯﺍﺩ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﻗﻔﺲ ﺳﮯ، ﺁﺭﺯﻭﺋﮯ ﻃﻠﺐ ﺳﮯ
ﺟﯿﻨﺎ ﭘﮍﺗﺎ ﮨﮯ
ﺟﯿﻨﺎ ﭘﮍﺗﺎ ﮨﮯ
ﻣﭩﯽ ﮐﯽ ﻣﻮﺭﺕ ﺳﮯ
ﺧﻮﺍﮨﺶ ﮐﯽ ﺑﯿﻠﯿﮟ
ﻟﭙﭩﯽ ﺭﮨﺘﯽ ﮨﯿﮟ
ﺳﺎﻧﺴﻮﮞ ﮐﯽ ﺁﺭﯼ
ﺟﺐ ﺗﮏ ﭼﻠﺘﯽ ﺭﮨﺘﯽ ﮨﮯ
ﮐﭽﮫ ﻧﺎﮞ ﮐﭽﮫ ﮐﭩﺘﺎ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﮯ .
ﮐﺎﺭﻭﺑﺎﺭ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﺑﮯ ﮐﺎﺭ ﻣﺴﺎﻓﺖ
ﺑﮭﻮﮒ ﮐﮯ
ﮔﮭﺮ ﮐﮯ ﮐﻢ ﺭﻭﺷﻦ ﮐﻮﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﺭﻭ ﻟﯿﻨﮯ ﺳﮯ
ﺍﺑﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﮭﭩﺘﺎ
ﭘﺮ ﺭﻭﻧﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ
ﺯﻧﺪﺍﻧﯽ ﮐﯽ ﻟﻤﺒﯽ ﻟﻤﺒﯽ
ﺭﺍﺗﻮﮞ ﺍﻧﺪﺭ
ﻟﻤﺲ ﺑﮭﺮﯼ ﺍﻣﯿﺪﻭﮞ ﮐﻮ ﺳﯿﻨﺎ ﭘﮍﺗﺎ ﮨﮯ
ﺟﯿﻨﺎ ﭘﮍﺗﺎ ﮨﮯ
ﺗﻮ ﻧﮯ ﺟﻦ ﺍﻧﺪﯾﺸﻮﮞ ﮐﯽ ﺩﺭﺯﻭﮞ ﺳﮯ
ﺩﻧﯿﺎ ﺩﯾﮑﮭﯽ
ﺗﻮ ﻧﮯ ﺟﻦ ﻣﺤﺮﺍﺑﻮﮞ ﭘﺮ
ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﻟﭩﮑﺎﺋﯿﮟ
ﺗﻮ ﻧﮯ ﺟﻦ ﺭﺳﺘﻮﮞ ﭘﺮ
ﺭﻭﺷﻦ ﺭﻭﺷﻦ ﭘﺎﺅﮞ ﺭﮐﮭﮯ
ﻭﮦ ﺩﺭﺯﯾﮟ، ﻣﺤﺮﺍﺑﯿﮟ، ﭘﺎﺅﮞ
ﺭﺯﻕ ﮨﻮﺋﮯ ﻣﺤﺮﻭﻣﯽ ﮐﺎ، ﺑﮯﺗﺎﺑﯽ ﮐﺎ
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺟﻦ ﺻﺒﺤﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺗﯿﺮﮮ ﻟﻤﺲ ﮐﺎ ﮐﮭﺎﺗﮧ ﻟﮑﮭﺎ
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺟﻦ ﺭﺍﺗﻮﮞ ﺳﮯ
ﺗﯿﺮﯼ ﯾﺎﺩ ﮐﺎ ﭼﺎﻧﺪ ﻧﮑﺎﻻ
ﮐﺴﯽ ﺯﻣﺎﻧﮯ
ﮐﺴﯽ ﺯﻣﯿﻦ ﻣﯿﮟ ﺩﺭﺝ ﻧﮩﯿﮟ
ﺟﯿﻮﻥ ﺳﺎﻟﻮﮞ ﮐﯽ ﻣﺴﺘﯽ ﻣﯿﮟ
ﮔﮭﻠﺘﯽ ﻟﮍﮐﯽ
ﭼﺎﺭﻭﮞ ﺟﺎﻧﺐ
ﺍﻧﺪﯾﺸﻮﮞ ﮐﺎ ﮐﮭﺎﺭﺍ ﭘﺎﻧﯽ
ﺩﺭ ﺁﺋﮯ ﺗﻮ
ﭘﯿﻨﺎ ﭘﮍﺗﺎ ﮨﮯ
ﺟﯿﻨﺎ ﭘﮍﺗﺎ ﮨﮯ
Monday, December 7, 2015
ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺎﻧﭻ ﮐﺎ ﺳﻮﺩﺍ
ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺎﻧﭻ ﮐﺎ ﺳﻮﺩﺍ
ﻣﺤﺒﺖ ﺁﮒ ﮐﺎ ﺩﺭﯾﺎ
ﻣﺤﺒﺖ ﺟﻮﻥ ﺟﯿﺴﯽ ﮨﮯ
ﻣﺤﺒﺖ ﺑﺮﻑ ﺟﯿﺴﯽ ﮨﮯ
ﻣﺤﺒﺖ ﺭﺍﺕ ﮐﺎﻟﯽ ﮨﮯ
ﻣﺤﺒﺖ ﻧﯿﻼ ﻣﻮﺳﻢ ﮨﮯ
ﻣﺤﺒﺖ ﮐﭽﺎ ﺁﻧﮕﻦ ﮨﮯ
ﻣﺤﺒﺖ ﺗﺘﻠﯿﻮﮞ ﮐﺎ ﮔﮭﺮ
ﻣﮕﺮ ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ
ﻣﺤﺒﺖ ﮨﻮ ﮨﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ
ﮐﺴﯽ ﻧﺎﻣﻌﻠﻮﻡ ﺑﺴﺘﯽ ﺳﮯ
ﮐﺴﯽ ﺍﻧﺠﺎﻥ ﮨﺴﺘﯽ ﺳﮯ
ﮐﺴﯽ ﮐﺎﻏﺬ ﮐﯽ ﮐﺸﺘﯽ ﺳﮯ
ﮐﺴﯽ ﮐﮭﮍﮐﯽ ﮐﮯ ﻣﻨﻈﺮ ﺳﮯ
ﮐﺴﯽ ﺩﮬﻨﺪﻟﯽ ﺳﯽ ﺣﺴﺮﺕ ﺳﮯ
ﻣﺤﺒﺖ ﮨﻮ ﮨﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ
Friday, December 4, 2015
اداسی تیرگی ہوتی تو شاید
اداسی تیرگی ہوتی تو شاید
اٍک دیا آباد کرنے سے ہی چھٹ جاتی
مگر ایسا نہیں ہے
اداسی راستہ ہوتی
تو اسکو اپنے پیروں سے گنا کرتے
کہیںتو جا کے گنتی ختم ہوجاتی
مگر ایسا نہیں ہے
اداسی پیڑ ہوتی تو
ہم اسکے سارے بازو کاٹ کے معذور کر دیتے
زمیں سے اس کا سایہ دور کر دیتے
مگر ایسا نہیں ہے
اداسی سال ہی ہوتی
تو ہم خود کو یہ سمجھاتے
کہ دیکھو تین سو پینسٹھ دنوں کی بات ہے ساری
اداسی پھر نہیں ہوگی
مگر ایسا نہیںہے
اداسی دائرہ ہوتی
تو ہم اس سے کسی تسنیخ کے خط کی طرح باہر نکل جاتے
کوئی تو ایسا لمحہ مل ہی جاتا
ہم سنبھل جاتے
مگر ایسا نہیں ہے
اداسی تو اداسی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے
یہاں جتنی بھی بارش ہو
یہ مٹی نم نہیں ہوتی
اداسی کم نہیں ہوتی..
وہ لمحے کتنے دروغ گو تھے۔
وہ لمحے کتنے دروغ گو تھے۔
تمہاری پوروں کا لمس اب تک
مری کفِ دست پر ہے
اور ميں سوچتا ہوں
وہ لمحے کتنے دروغ گو تھے
وہ کہہ گئے تھے
کہ اب کے جو ہاتھ تيرے ہاتھوں کو چھو گئے ہيں
تمام ہونٹوں کے سارے لفظوں سے معتبر ہيں
وہ کہہ گئے تھے
تمہاری پوريں
جو ميرے ہاتھوں کو چھو رہی تھيں
وہی تو قسمت تراش ہيں
اور اپنی قسمت کو
سارے لوگوں کي قسمتوں سے بلند جانو
ہماری مانو
تو اب کسی اور ہاتھ کو ہاتھ مت لگانا
ميں اُس سمے سے
تمام ہاتھوں
وہ ہاتھ بھی
جن ميں پھول شاخوں سے بڑھ کر لطف نمو اٹھائيں
وہ ہاتھ بھی جو صدا کے محروم تھے
اور ان کی ہتھيلياں زخم زخم تھيں
اور وہ ہاتھ بھی جو چراغ جيسے تھے
اور رستے ميں سنگ فرسنگ کی طرح جا بجا گڑھے تھے۔
وہ ہاتھ بھی جن کے ناخنوں کے نشاں
معصوم گردنوں پرمثال طوق ستم پڑے تھے
تمام نا مہربان اور مہربان ہاتھوں سے
دست کش يوں رہا ہوں جيسے
يہ مٹھياں ميں نے کھول ديں تو
وہ ساري سچائيوں کے موتی
مسرتوں کے تمام جگنو
جو بے يقينی کے جنگلوں ميں
يقيں کا راستہ بناتےہيں
روشنی کی لکير کا قافلہ بناتے ہيں
ميرے ہاتھوں سے روٹھ جائيں گے
پھر نہ تازہ ہوا چلے گی
نہ کوئی شمع صدا جلے گی
ميں ضبط اور انتظار کے اس حصار ميں مدتوں رہا ہوں
مگر جب اک شام
اور وہ پت جھڑ کي آخری شام تھی
ہوا اپنا آخری گيت گا رہی تھی
مرے بدن ميں مرا لہو خشک ہو رہا تھا
تو مٹھياں ميں نے کھول ديں
اور ميں نے ديکھا
کہ ميرے ہاتھوں ميں
کوئی جگنو
نہ کوئی موتی
ہتھيليوں پر فقط میری نامراد آنکھيں دھری ہوئی تھيں
اور ان ميں
قسمت کی سب لکيريں مری ہوئی تھيں
احمد فراز
دعاؤں میں بسے لوگو!
دعاؤں میں بسے لوگو!
سنو
یہ رابطوں کی دنیا ہے
رابطوں سے رشتے ہیں
چاہتوں کے یہ سنگم
خوشیوں کے یہ آنگن
دوستی پیار کے یہ بندھن
ہم کو یاد آئیں گے
آنے والے سالوں میں
کس کے سنگ ہنسنا ہے
کس سے مل کے رونا ہے
کب یہ اپنے بس میں ہے
مگر آسماں کی جانب
پھیلے ہاتھ کہتے ہیں
دل سے دل کا ہر رشتہ
معتبر دعا سا ہے
دعاؤں میں بسے لوگوں
جہاں بھی رہو
سدا خوش رہو
Monday, November 30, 2015
ہم لوگ نہ تھے ایسے
ہم لوگ نہ تھے ایسے
جیسے ہیں نظر آتے
اے وقت گواہی دے
یہ شہر نہ تھا ایسا
یہ روگ نہ تھے ایسے
دیوار نہ تھے رستے
زنداں نہ تھی بستی
آزار نہ تھے رشتے
خلجان نہ تھی ہستی
یوں موت نہ تھی سستی!!
یہ آج جو صورت ہے
حالات نہ تھے ایسے
یوں غیر نہ تھے موسم
دن رات نہ تھے ایسے
تفریق نہ تھی ایسی
سنجوگ نہ تھے ایسے
اے وقت گواہی دے
ہم لوگ نہ تھے ایسے
ﻋﺰﯾﺰ ﻟﻮﮔﻮ، ﮐﮩﺎﮞ ﮔﺌﮯ ﮨﻮ
ﻋﺰﯾﺰ ﻟﻮﮔﻮ، ﮐﮩﺎﮞ ﮔﺌﮯ ﮨﻮ
ﺍﺩﺍﺱ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺣﯿﺎﺕ ﻣﯿﺮﯼ۔۔
ﻋﺰﯾﺰ ﻟﻮﮔﻮ
ﮐﮩﺎﮞ ﺳﮯ ﮈﮬﻮﻧﮉﻭﮞ
ﻭﮦ ﻣﯿﭩﮭﯽ ﺑﺎﺗﯿﮟ، ﻭﮦ ﺩﮬﯿﻤﮯ ﻟﮩﺠﮯ
ﻭﮦ ﮐﮭﻨﮑﮭﻨﺎﺗﯽ ﮨﻨﺴﯽ ﺗﻤﮭﺎﺭﯼ
ﻣﺤﺒﺘﻮﮞ ﺑﮭﺮﺍ ﻭﮦ ﻏﺼﮧ
ﺗﻤﺎﻡ ﺍﭘﻨﻮﮞ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﺗﻮﮞ ﮐﺎ
ﺧﯿﺎﻝ ﺭﮐﮭﻨﺎ، ﻣﻼﻝ ﺭﮐﮭﻨﺎ۔۔۔۔
ﻋﺰﯾﺰ ﻟﻮﮔﻮ،
ﺗﻤﮭﺎﺭﯼ ﯾﺎﺩﯾﮟ ﺩﻝِ ﺷِﮑﺴﺘﮧ ﮐﻮ
ﻧﺎﺗﻮﺍﮞ ﺳﮯ ﻧﺎﺗﻮﺍﮞ ﺗﺮَ
ﮐﺮ ﺭﮨﯽ ﮨﯿﮟ !!
ﻋﺰﯾﺰ ﻟﻮﮔﻮ،
ﮐﺒﮭﯽ ﺗﻮ ﺧﻮﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﺁﻭ ﺗﻢ
ﺣﻘﯿﻘﺘﻮﮞ ﮐﺎ ﺭﻭﭖ ﻟﮯ ﮐﺮ !
ﺟِﺴﻢ ﻭ ﺭﻭﺡ ﭘﮧ ﺑﮭﯽ
ﮔﻼﺏ ﺭﺕ ﮨﻮ،
ﻋﺰﯾﺰ ﻟﻮﮔﻮ۔۔
جو پوچھتے ہیں کہاں
جو پوچھتے ہیں کہاں
سنا ہے
رائیگانی کے سفر میں
جب کبھی
مٹھی میں سوکھی ریت بھر کر
ساحلوں سے شہر کی جانب چلیں
تو ہاتھ میں کچھ بھی نہیں رہتا
اگر
جھولی میں پانی بھی بھر لیں
تو۔۔۔ تشنگی کے ریگ زاروں تک
فقط واماندگی اور آنسوؤں کا درد جاتا ہے
طلب کی الجھنیں
تقسیم در تقسیم ہوتی ہیں
سنو اس پل
در افسوس پر دستک نہ دو
کچھ فیصلوں پر دستخط۔۔۔
تاخیر کی جھولی میں رہنے دو
سفر تکمیل سے پہلے
رہِ سود و زیاں کی ڈائری میں درج
کچھ لمحات، کچھ سچائیاں ، تبدیل کرتے ہیں
وہ سارے پل، سبھی وعدے، ارادے، خوش گمانی
مشترک منزل کی خواہش میں سفر
آسودگی، افزوں تر آزارِ طلب
اک پوٹلی میں باندھ کر
گھر میں ہی رکھتے ہیں
چلو یوں ہی بھٹکتے ہیں
طلب کی رائیگانی میں مسافت منتظر ہے
اور ہم
تاخیر کے جرمِ قضا کے مرتکب ٹھہرے
سنو
کس سوچ کی انگلی پکڑ کے
حیرتوں میں کھو گئے ہو تم؟
بھٹکنا بھی نہیں آتا،،،،،،،
آخر کن تک
آخر کن تک
کیا تم، اس نقطے سے باہر جا سکتے ہو
اڑ کر، جست لگا کر
گھومتے گھومتے
سیدھے، خط میں
قوس میں چل کر
یا پھر اک کوندے کی صورت
وجد میں آکر
نقطہ، جس کی قید میں ہو
اک گبند ہے
اور باہر جانے کی ضد کرنے والے، سب
اسفل ٹھہرائے جاتے ہیں
ان کی روحیں خالی ہیں
اور ان کے جسم
خود اپنے ہی باطن کی روشنیوں کو
پی کر زندہ ہیں
کیا تم اس الزام کو سر لینے کی جرآت کر سکتے ہو
کیا تم جینے کی کوشش میں مر سکتے ہو!
بتلاؤ ناں.....!
اے محبوس پرندے کب تک
نازک جسم پہ زخم سجاتے رہنا ہے
بند کواڑوں سے ٹکراتے رہنا ہے
دسمبر آ رہا ہے مجھے تم یاد آتے ہو
دسمبر آ رہا ہے
مجھے تم یاد آتے ہو
کسی سرسبز وادی میں
کسی خوش رنگ جگنو کو
کبھی اڑتے ہوئے دیکھوں
مجھے تم یاد آتے ہو
خیالوں میں، سوالوں میں
محبت کے حوالوں میں
تمہیں آواز دیتی ہوں
تمہیں واپس بلاتی ہوں
یوں خود کو آزماتی ہوں
کوئی جب نظم لکھتی ہوں
اسے عنوان دیتی ہوں
مجھے تم یاد آتے ہو
کبھی باہر نکلتی ہوں
کسی رستے پہ چلتی ہوں
کہیں دو دوستوں کو کھل کھلاتے
مسکراتے دیکھتی ہوں
کسی کو گنگناتے دیکھ لیتی ہوں
تو پھر میری رفاقت کہ اول و آخر
مجھے تم یاد آتے ہو
دسمبر میں جو موسم کا مزے لینے کو جی چاہے
کوئی پیاری سہیلی فون پر بولے
بڑا ہی مست موسم ہے
چلو باہر نکلتے ہیں
چلو بوندوں سے کھیلتے ہیں
چلو بارش میں بھیگیں گے
تو اسی لمحے تیری یاد ہولے سے
کوئی سرگوشی کرتی ہے
یہ پلکیں بھیگ جاتی ہیں
دو آنسو ٹوٹ کر گرتے ہیں
میں آنکھوں کو جھکاتی ہوں
بظاہر مسکراتی ہوں
فقط اتنا ہی کہہ سکتی ہوں
مجھے کتنا ستاتے ہو
مجھے تم یاد آتے ہو
مجھے تم یاد آتے ہو
سُنا ہے لوگ اُسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
سُنا ہے لوگ اُسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
سو اُس کے شہر میں کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں
سُنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں
یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں
سُنا ہے ربط ھے اُس کو خراب حالوں سے
سو اپنے آپ کو برباد کر کے دیکھتے ہیں
سُنا ہے دن میں اُسے تتلیاں ستاتی ہیں
سُنا ہے رات کو جگنو ٹھہر کے دیکھتے ہیں
سُنا ہے اُس کے بدن کی تراش ایسی ہے
کہ پھول اپنی قبائیں کتر کے دیکھتے ہیں
سُنا ہے اُسے بھی ہے شعر و شاعری سے شغف
سو ہم بھی معجزے اپنے ھُنر کے دیکھتے ہیں
سُنا ہے درد کی گاہگ ہے چشمِ ناز اُس کی
سو ہم بھی اُس کی گلی سے گزر کے دیکھتے ہیں
سُنا ہے حشر ہیں اُس کی غزال سی آنکھیں
سُنا ہے اُس کو ہرن دشت بھر کے دیکھتے ہیں
سُنا ہے اُس کی سیاہ چشمگیں قیامت ہے
سو اُس کو سُرمہ فروش آہ بھر کے دیکھتے ہیں
سُنا ہے رات اُسے چاند تکتا رہتا ہے
ستارے بامِ فلک سے اُتر کے دیکھتے ہیں
سُنا ہے رات سے بڑھ کر ہیں کاکلیں اُس کی
سُنا ہے شام کو سائے گزر کے دیکھتے ہیں
سُنا ہے اُس کے لبوں سے گلاب جلتے ہیں
سو ہم بہار پر الزام دھر کے دیکھتے ہیں
سُنا ہے اُس کے شبستاں سے مُتصل ہے بہشت
مکیں اُدھر کے بھی جلوے اِدھر کے دیکھتے ہیں
سُنا ہے آئینہ تمثال ہے جبیں اُس کی
جو سادہ دل ہیں اُسے بن سنور کے دیکھتے ہیں
سُنا ہے چشمِ تصور سے دشتِ اِمکاں میں
پلنگ زاویے اُس کی کمر کے دیکھتے ہیں
رُکے تو گردشیں اُس کا طواف کرتی ہیں
چلے تو اُس کو زمانے ٹھہر کے دیکھتے ہیں
بس اِک نگاہ سے لُٹتا ہے قافلہ دل کا
سو راہروانِ تمنّا بھی ڈر کے دیکھتے ہیں
اب اُس کے شہر میں ٹھہریں یا کُوچ کر جائیں
فراز آؤ ستارے سفر کے دیکھتے ہیں
عجب سی یہ محبت ہے
عجب سی یہ محبت ہے
عجب سا ربط ہے ہم میں
نہ اک دوجے کو دیکھا ہے
نہ اک دوجے کی آوازوں میں اک دوجے کو ڈھونڈا ہے
تمہیں جو کچھ کہا میں نے، اُسے تم سچ سمجھتی ہو
مجھے جو کچھ کہا تم نے ، اُسے میں سچ سمجھتا ہوں
اِسی اک (Chat Window) چیٹ ونڈومیں
ہم اِک دوجے کے جیون کے ہر اِک موسم میں رہتے ہیں
عجب سا ربط ہے ہم میں
عجب سی یہ محبت ہے
جسے تصویر اور آواز سے کچھ بھی نہیں لینا
جسے خواہش نہیں کوئی
کِسی کو رُوبُرو دیکھیں
کِسی آواز کو پُوجیں
محبت کی شباہت کو
کِسی انمول ساعت کو
کِسی کے عکس میں ڈُھونڈیں
عجب سی یہ محبت ہے
کہ جس میں لفظ کہتے ہیں اور آنکھیں کچھ نہیں کہتیں
یہ لفظوں سے بہلتی ہے، یہ اُن میں سانس لیتی ہے
یہ ان بےجان تصویروں میں کتنے رنگ بھرتی ہے
عجب سا ربط ہے ہم میں
عجب سی یہ محبت ہے
جسے آواز اور تصویر سے کچھ بھی نہیں لینا
کہ جو لفظوں کی خوشبو سے دلوں میں گنگناتی ہے
کہ جو پلکوں پہ چاہت کے ہزاروں خواب لکھتی ہے
تمہارے اور میرے درمیاں جو سانس لیتی ہے
عجب سی وہ محبت ہے
Friday, November 27, 2015
ﭼﻠﻮ ﮨﻢ ﻓﺮﺽ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﭼﻠﻮ ﮨﻢ ﻓﺮﺽ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﻭﮨﯽ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﺟﻮ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﯿﮟ
ﭼﻠﻮ ﮨﻢ ﻓﺮﺽ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﮐﮧ ﮨﺮ ﺳﻮ ﻧﻮﺭ ﭘﮭﯿﻼ ﮨﮯ
ﻧﮧ ﺩﻥ ﻣﯿﮟ ﭼﮭﺎﯾﺎ ﺳﻨﺎﭨﺎ
ﻧﮧ ﺭﺍﺗﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﺪﮬﯿﺮﺍ ﮨﮯ
ﻧﮧ ﺳﻮﺭﺝ ﺷﺐ ﻣﯿﮟ ﺳﻮﺗﺎ ﮨﮯ
ﻧﮧ ﺩﻥ ﻣﯿﮟ ﭼﺎﻧﺪ ﮐﮭﻮﺗﺎ ﮨﮯ
ﮨﮯ ﮨﺮ ﺩﻝ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﺳﮯ ﭘﺮ
ﺍﻭﺭ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﺟﺎﻟﮯ ﮨﯿﮟ
ﭼﻠﻮ ﮨﻢ ﻓﺮﺽ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﮐﮧ ﮨﺮﻣﻮﺳﻢ ﺑﮩﺎﺭﺍﮞ ﮨﮯ
ﺧﺰﺍﮞ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﻮﻝ ﮐﮭﻠﺘﮯ ﮨﯿﮟ
ﻧﮕﺎﮨﯿﮟ ﺭﻧﮓ ﺳﮯ ﻣﮩﮑﺘﯽ ﮨﯿﮟ
ﮔﻠﻮﮞ ﮐﯽ ﺧﻮﺷﺒﻮﺅﮞ ﺳﮯ
ﺳﺐ ﻧﻈﺎﺭﮮ ﻣﻌﻄﺮ ﮨﯿﮟ
ﭘﺮﻧﺪﮮ ﭼﮩﭽﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﺧﻮﺷﯽ ﮐﮯ ﮔﯿﺖ ﮔﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﭼﻠﻮ ﮨﻢ ﻓﺮﺽ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﮐﮧ ﮨﺮ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﻣﺤﺒّﺖ ﮨﮯ
ﮐﮩﯿﮟ ﺟﮭﮕﮍﮮ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﮯ
ﻧﮧ ﺑﺎﺭﺵ ﺩﮐﮫ ﮐﯽ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ
ﻧﮧ ﺁﻧﺪﮬﯽ ﻏﻢ ﮐﯽ ﭼﻠﺘﯽ ﮨﮯ
ﻧﮧ ﻧﻔﺮﺕ ﭘﮭﺎﻧﺲ ﺑﻨﺘﯽ ﮨﮯ
ﮨﯿﮟ ﺳﺒﮭﯽ ﭼﮩﺮﻭﮞ ﭘﮯ ﻣﺴﮑﺎﻧﯿﮟ
ﮐﮩﯿﮟ ﺟﮭﮕﮍﮮ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﮯ
ﭼﻠﻮ ﮨﻢ ﻓﺮﺽ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﮐﮧ ﻏﻢ ﺧﻮﺷﯿﻮﮞ ﺳﮯ ﺑﮩﺘﺮ ﮨﯿﮟ
ﭼﻠﻮ ﮨﻢ ﻓﺮﺽ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﯾﮧ ﺩﻧﯿﺎ ﺗﻢ ﺳﮯ ﺑﮩﺘﺮ ﮨﮯ
ﺫﺭﺍ ﭨﮩﺮﻭ
ﻣﮕﺮ ﮨﻢ ﻓﺮﺽ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﺮ ﻟﯿﮟ
ﯾﻘﯿﮟ ﻣﺠﮫ ﮐﻮ ﺑﺘﺎﺗﺎ ﮨﮯ
ﺣﻘﯿﻘﺖ ﺗﻮ ﺣﻘﯿﻘﺖ ﮨﮯ
ﻣﯿﮟ ﺳﺐ ﮐﭽﮫ ﺟﺎﻥ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﻮﮞ
ﻧﮧ ﺳﻮﺭﺝ ﺷﺐ ﻣﯿﮟ ﭼﻤﮑﮯ ﮔﺎ
ﻧﮧ ﺩﻥ ﻣﯿﮟ ﭼﺎﻧﺪ ﻧﮑﻠﮯ ﮔﺎ
ﺧﺰﺍﮞ ﻣﯿﮟ ﮔﻞ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮭﻠﺘﮯ
ﯾﮧ ﻧﻔﺮﺕ ﻣﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﯽ
ﻧﮧ ﻏﻢ ﺧﻮﺷﯿﻮﮞ ﺳﮯ ﺑﮩﺘﺮ ﮨﯿﮟ
ﻧﮧ ﺩﻧﯿﺎ ﺗﻢ ﺳﮯ ﺑﮩﺘﺮ ﮨﮯ
ﮨﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﺣﻘﯿﻘﺖ ﮐﯿﺎ
ﻓﻘﻂ ﺍﯾﮏ ﺗﻢ ﮨﯽ ﺍﭼﮭﮯ ﮨﻮ
ﺟﮩﺎﻧﻮﮞ ﺳﮯ ﺯﻣﺎﻧﻮﮞ ﺳﮯ
ﻣﮑﺎﻧﻮﮞ ﻻ ﻣﮑﺎﻧﻮﮞ ﺳﮯ
ﯾﮧ ﺳﺐ ﮐﭽﮫ ﮨﮯ ﻭﮨﯽ ﺟﻮ
ﺍﺳﯽ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ
ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﮨﻢ ﻓﺮﺽ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﺮﻟﯿﮟ
ﻓﻘﻂ ﺍﯾﮏ ﺗﻢ ﮨﯽ ﺍﭼﮭﮯ ﮨﻮ
ﺁﮨﭧ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﻧﺎ
ﺳﻨﻮ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ﺁﮨﭧ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﻧﺎ
ﺑﮍﯼ ﻣﻨﺖ ﺳﻤﺎﺟﺖ ﺍﻭﺭ ﻟﺠﺎﺟﺖ ﺳﮯ
ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺧﻮﺍﺏ ﮐﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ
ﺳﻼﯾﺎ ﮬﮯ
ﮐﻮﺉ ﺁﮨﭧ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﻧﺎ
ﺑﮩﺖ ﻣﺠﺒﻮﺭ ﮬﻮ ﻧﺎ ﺗﻢ ؟
ﺳﻨﻮ ﺧﺎﻣﻮﺵ ﺑﯿﭩﮭﻮ ﺗﻢ
ﮐﻮﺉ ﺁﻧﺴﻮ, ﮐﻮﺉ ﺳﺴﮑﯽ , ﮐﻮﺉ ﮨﭽﮑﯽ
ﮐﻮﺉ ﺁﮨﭧ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﻧﺎ
ﻣﺠﮭﮯ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﺗﮭﺎ ﯾﮧ ﺳﺐ
ﻣﯿﺮﺍ ﻭﺟﺪﺍﻥ ﮐﮩﺘﺎ ﺗﮭﺎ
ﺗﻤﮩﯿﮟ ﯾﮧ ﺣﺎﺩﺛﮧ ﺩﺭﭘﯿﺶ ﮬﻮﻧﺎ ﮬﮯ
ﻣﺠﮭﮯ ﺩﺭﻭﯾﺶ ﮬﻮﻧﺎ ﮬﮯ
ﺳﻨﻮ ۔۔۔۔۔۔۔ ﺟﺎﺅ
ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺩﻝ ﺳﮯ ﺍﺟﺎﺯﺕ ﮬﮯ
ﻣﯿﺮﮮ ﺟﯿﻮﻥ ﮐﮯ ﺩﮬﺎﺭﮮ ﮐﯽ ﺭﻭﺍﻧﯽ ﮐﻮ
ﻣﺤﺒﺖ ﮐﮯ ﻋﻼﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﺑﮩﺖ ﻏﻢ ﮬﯿﮟ
ﺳﻨﻮ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ﺟﺎﺅ
ﭘﻠﭧ ﮐﺮ ﭘﮭﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﻧﺎ
ﻣﺤﺒﺖ ﮐﮯ ﺗﻘﺎﺿﻮﮞ ﮐﺎ
ﺑﮭﺮﻡ ﺭﮐﮭﻨﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﻧﺎ
ﺭﻭﺍﺩﺍﺭﯼ ﻣﯿﮟ ﻣﺖ ﭘﮍﻧﺎ
ﮐﻮﺉ ﺁﮨﭧ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﻧﺎ
ﭘﻠﭧ ﮐﺮ ﭘﮭﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﻧﺎ
نومبر پھر چلا آیا
نومبر کا مہینہ تھا,
کہ جب میں نے جیے تھے
زندگی کے خوبصورت پل...
یہی دن تھے,
کہ جب میں نے ملائم نرم ہر احساس کو
لفظوں میں ڈھالا تھا,
انہی ایام کی
لمبی, جواں راتوں میں ہی بنیاد رکھی تھی
کئی رنگین خوابوں کی,
یہی آغاز سرما کی حسیں راتیں,
کہ جب تھا چاند بھی آدھا,
نہ میں سوتی , نہ تم سوتے,
کسے پرواہ تھی نیندوں کی?
اس اک رشتے کی بنیادوں میں کتنے رتجگے ڈالے
وہ سب لمحے,
کہ جب اک دوسرے کے ساتھ
کتنے پل گزرتے تھے,
کبھی باتیں محبت کی,
کبھی اقرار کے قصے,
کبھی عہد وفا کرنا,
کبھی خود پر بہت ہنسنا,
کسی انجام سے انجان سے ہو کر,
ہم آگے بڑھتے جاتے تھے,
ٹھٹھرتی ٹھنڈ میں, اپنا تعلق
گرم جوشی سے پھلا پھولا,
وہ روز و شب,
ہمارے ربط کی معراج تھے شاید..
مگر دیکھو,
گزرتے وقت کو, موسم کو کوئی روک کب پایا,
طلمساتی وہ پل سارے,
پگھلتی برف کی گرمی نہ سہہ پاۓ,
اتر آئی عجب اک سرد مہری درمیاں اپنے
وہی رشتہ جو آتی سردی میں معراج تک پہنچا,
وہ جاتی سردیوں کا ڈر نہ سہہ پایا,
تھپیڑے دھوپ کے,
گرمی , تمازت وہ نہ سہہ پایا,
یوں وہ انجام کو پہنچا....
وہ ساری بسری یادیں,
بھولی باتیں ساتھ میں لےکر
نومبر پھر چلا آیا
Wednesday, September 30, 2015
کون روک سکتا ہے
کون روک سکتا ہے
لاکھ ضبط خواہش کے
بے شمار دعوے ہوں
اس کو بھول جانے کے
بے پناہ ارادے ہوں
اور اس محبت کو ترک کر کے جینے کا
فیصلہ سنانے کو
کتنے لفظ سوچے ہوں
دل کو اسکی آہٹ پر
بر ملا دھڑکنے سے کون روک سکتا ہے
پھر وفا کے صحرا میں
اس کے نرم لہجے اور سوگوار آنکھوں کی
خوشبوؤں کو چھونے کی
جستجو میں رہنے سے
روح تک پگھلنے سے
ننگے پاؤں چلنے سے
کون روک سکتا ہے
آنسوؤں کی بارش میں
چاہے دل کے ہاتھوں میں
ہجر کے مسافر کے
پاؤں تک بھی چھو آؤ
جس کو لوٹ جانا ہو
اس کو دور جانے سے
راستہ بدلنے سے
دور جا نکلنے سے
کون روک سکتا ہے
ﺗﻢ ﻣﺠﮫ ﮐﻮ ﯾﺎﺩ ﺁﺗﯽ ہو
ﺗﻢ ﻣﺠﮫ ﮐﻮ ﯾﺎﺩ ﺁﺗﯽ ہو
ﻓﻘﻂ ﺍﻥ ﭼﻨﺪ ﻟﻤﺤﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﮐﮧ ﺟﺐ ﯾﮧ ﺳﺎﻧﺲ ﺁﺗﯽ ﮨﮯ
ﮐﮧ ﺟﺐ ﺳﺎﻧﺲ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ
ﮐﮧ ﺟﺐ ﯾﮧ ﺁﻧﮑﮫ ﮐﮭﻠﺘﯽ ﮨﮯ
ﮐﮧ ﺟﺐ ﯾﮧ ﺁﻧﮑﮫ ﺳﻮﺗﯽ ﮨﮯ
ﮎ ﺟﺐ ﺑﺎﺩﺳﺮﺩ ﺑﮩﺘﯽ ﮨﮯ
ﮐﮧ ﺟﺐ ﯾﮧ ﺩﻝ ﺩﮬﮍﮐﺘﺎ ﮨﮯ
ﮐﮧ ﺟﺐ ﯾﮧ ﺩﻝ ﻣﭽﻠﺘﺎ ﮨﮯ
ﮐﮧ ﺟﺐ ﮐﻮﺋﯽ ﺩﻥ ﮈﮬﻠﺘﺎ ﮨﮯ
ﮐﮧ ﺟﺐ ﮐﻮﺋﯽ ﺩﻥ ﺍﺑﮭﺮﺗﺎ ﮨﮯ
ﮐﮧ ﺟﺐ ﮐﻮﺋﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ
ﮐﮧ ﺟﺐ ﮐﻮﺋﯽ ﺳﺎﺯ ﺑﺠﺘﺎ ﮨﮯ
ﮐﮧ ﺟﺐ ﮐﻮﺋﯽ ﺭﺍﺯ ﮐﮩﺘﺎ ﮨﮯ
ﮐﮧ ﺟﺐ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﺎﺯ ﺍﭨﮭﺎﺗﺎ ﮨﮯ
ﮐﮧ ﺟﺐ ﮐﻮﺋﯽ ﭘﺎﺱ ﺑﻼﺗﺎ ﮨﮯ
ﮐﮧ ﺟﺐ ﮐﻮﺋﯽ ﺩﺭﺩ ﺑﮭﻼﺗﺎ ﮨﮯ
ﮐﮧ ﺟﺐ ﮐﻮﺋﯽ ﭘﯿﺎﺭ ﺟﺘﺎﺗﺎ ﮨﮯ
ﮐﮧ ﺟﺐ ﮐﻮﺋﯽ ﮨﻨﺴﺘﺎ ﮨﻨﺴﺎﺗﺎ ﮨﮯ
ﮐﮧ ﺟﺐ ﮐﻮﺋﯽ ﺁﮦ ﺑﮭﺮﺗﺎ ﮨﮯ
ﮐﮧ ﺟﺐ ﮐﻮﺋﯽ ﮐﺎﺵ ﮐﮩﺘﺎ ﮨﮯ
ﺗﻮ ﻓﻘﻂ ﺍﻥ ﭼﻨﺪ ﻟﻤﺤﻮﮞ ﻣﯿﮟ
تم ﻣﺠﮫ ﮐﻮ ﯾﺎﺩ ﺁﺗﯽ ہو
ﺑﮩﺖ ﮨﯽ ﯾﺎﺩ ﺁتی ہو
ہو نہ دنیا میں کوئی ہم سا بھی پیاسا لوگو
ہو نہ دنیا میں کوئی ہم سا بھی پیاسا لوگو
جی میں آتی ہے کہ پی جائیں یہ دریا لوگو
کتنی اس شہر کے سخیوں کی سُنی تھی باتیں
ہم جو آئے تو کسی نے بھی نہ پوچھا لوگو
اتفاقاً ہی سہی ، پر کوئی در تو کُھلتا
جھلملاتا پسِ چلمن کوئی سایا لوگو
سب کے سب مست رہے اپنے نہاں خانوں میں
کوئی کچھ بات مسافر کی بھی سُنتا لوگو
ہونگے اس شہر میں کچھ اس کے بھی پڑھنے والے
یوں تو یہ شخص بھی مشہور تھا خاصا لوگو
کسی دامن ، کسی آنچل کی ہوا تو ملتی
جب سرِ راہ یہ واماندہ گرا تھا لوگو
ایک تصویر تھی کیا جانیئے کس کی تصویر
نقش موہوم سے اور رنگ اُڑا سا لوگو
ایک آواز تھی کیا جانیئے کس کی یہ آواز
اس نے آواز کا رشتہ بھی نہ رکھا لوگو
کچھ پتا اس کا ہمیں ہو تو ، تو تمہیں بتائیں
کون گھر ، کون نگر ، کون محلہ لوگو
Wednesday, September 23, 2015
محبت
محبت دل جلاتی ہے
محبت آزماتی ہے
محبت خون کے آنسو
رلاتی ہے
مگر پھر بھی۔۔۔
محبت! ہو جاتی ہے
محبت سے حسیں کوئی بھی
جذبہ ہو نہیں سکتا
محبت کے بنا دل کا گزارا
ہو نہیں سکتا
محبت ہے تو، ہر جذبہ
ہر اک منظر
ہر اک نغمہ
نظر کو۔۔۔
روح کو۔۔۔
دل کو۔۔۔
بہت دلکش بناتا ہے
اشک بھی مسکراتے ہیں
درد بھی گنگناتے ہیں
محبت کی خطاؤں کا
محبت کی سزاؤں کا
محبت کرنے والے
اپنے پیاروں کی جفاؤں کا
برا نہیں مناتے ہیں
محبت کرنے والے ہجر میں بھی
خط اٹھاتے ہیں
وصل کا لطف پاتے ہیں
تڑپنے ہیں
سسکتے ہیں
مچلتے ہیں
پگھلتے ہیں
مگر پھر بھی۔۔۔
محبت میں محبت کو
بڑھاتے ہیں
اور اپنے ان
حسیں جذبوں کو
اشکوں سے سجاتے ہیں
محبت کی کہانی
خود محبت کی زبانی
یہ محبت جب سناتی ہے
یہی اظہار کرتی ہے
یہی اقرار کرتی ہے
محبت دل جلاتی ہے
محبت آزماتی ہے
محبت خون کے
آنسو رلاتی ہے
مگر پھر بھی۔۔۔
محبت! ہو جاتی ہے