Sunday, September 20, 2015

ہم خوابوں کے بیوپاری تھے

ہم خوابوں کے بیوپاری تھے
پر اِس میں ہوا نقصان بڑا

کچھ بخت میں ڈھیروں کالک تھی
کچھ اب کے غضب کا کال پڑا

ہم راکھ لیے ہیں جھولی میں
اور سر پے ہے ساہوکار کھڑا

یاں بوند نہیں ہے دِیوے میں
وہ باج بیاج کی بات کرے

ہم بانجھ زمین کو تکتے ہیں
وہ ڈھور اناج کی بات کرے

ہم کوئی دِن کی مہلت مانگیں
وہ آج ہی آج کی بات کرے

جب دھرتی صحرا صحرا تھی
ہم دریا دریا روئے تھے

جب ہاتھ کی ریکھائیں چُپ تھیں
اور سُر سنگیت میں سوئے تھے

تب ہم نے جیون کھیتی میں
کچھ خواب انوکھے بوئے تھے

کچھ خواب سے جَل مُسکانوں کے
کچھ بول خبط دیوانوں کے

کچھ لفظ جنھیں معنی نہ مِلے
کچھ گیت شکِستہ جانوں کے

کچھ نِیر وفا کی شمعوں کے
کچھ پَر پاگل پروانوں کے

پھر اپنی گھائل آنکھوں سے
خوش ہو کے لہو چھِڑکایا تھا

ماٹی میں ماس کی کھاد بھری
اور نَس نَس کو زخمایا تھا

اور بھول گئے پِچھلی رُت میں
کیا کھویا تھا کیا پایا تھا

ہر بار گگن نے وہم دیا
اب کے برکھا جب آئے گی

ہر بیج سے کونپل پھوٹے گی
اور ہر کونپل پھل لائے گی

سر پر سایہ چھتری ہوگی
اور دھوپ گھٹا بن جائے گی

جب فصل کٹی تو کیا دیکھا
کوئی درد کے ٹُوٹے گجرے تھے

کوئی زخمی خواب تھے کانٹوں پر
کچھ خاکستر سے کجرے تھے

اور دُور اُفق کے ساغر میں
کوئی ڈوبتے ڈولتے بجرے تھے

اب پائوں کھڑائوں دھول بھری
اور جِسم پے جوک کا چولہ ہے

سب سنگی ساتھی بھید بھرے
کوئی ماسہ ہے کوئی تولہ ہے

اِس طاق میں وہ ، اُس گھات میں یہ
ہر اوٹ ٹھگوں کا ٹولہ ہے

اب گھاٹ نہ گھر ، دیوار نہ دَر
اب پاس رہا ہے کیا بابا

بس تن کی گٹھڑی باقی ہے
جا یہ بھی تُو لے جا بابا

ہم بستی چھوڑے جاتے ہیں
تو اپنا قرض چُکا بابا

No comments:

Post a Comment