Saturday, May 21, 2016

گمنام

مجھے گمنام رہنے کا
کچھ ایسا شوق ہے ہمدم
کسی بے نام صحرا میں
بھٹکتی روح ہو جیسے
جہاں سائے ترستے ہوں
کسی پیکر کی آہٹ کو
جہاں زندہ نہ ہو کوئی
جہاں پہ موت رہتی ہو
یا کچھ ایسے کہ دریا کے
کہیں اس پار کیکر پہ
کسی چڑیا کے بچے کی
تڑپتی پیاس ہو جیسے
کہ جس کی زندگی کے دن
بہت بے جان گزرے ہوں
جو اڑنے کو ترستا ہو
مگر حسرت دمِ آخر
وہ اپنے گھونسلے میں ہی
کچھ ایسے جان دے جیسے
ہزاروں کروٹوں کے بعد
میری امید مرتی ہے

تمہیں کچھ پھول بھیجے ہیں

تمہیں کچھ پھول بھیجے ہیں
انہیں رکھ لو
مگر خوشبو سے یہ کہہ دو
نہ بکھرے وہ
تمہیں کچھ خواب بھیجے ہیں
انہیں دیکھو
ذرا نیندوں سے کہہ دینا
نہ جاگے وہ
ذرا تعبیر سے کہہ دو
کہ سچی ہو
تمہیں کچھ درد بھیجے ہیں
انہیں دل میں جگہ دے دو
میرے احساس پہ
کیا کیا گزرتی ہے
اسے سمجھو
تمہیں کچھ شبد بھیجے ہیں
انہیں پڑھ لو
مگر ہر شبد کی تا ثیر سے کہہ دو
کہ اچھی ہو
تمہیں کچھ اشک بھیجے ہیں
انہیں پونچھو
تمہارا لمس پا لیں گے
تو یہ بن جائیں گے موتی
جو میرے پاس ہوتے تم
تو کیوں روتی ذرا سوچو
تمہیں بھیجا ہے ہر لمحہ
جو لمحہ سرد گزرا ہے
انہیں ایسی اگن دے دو
امر ہو جائیں یہ لمحے
انہیں چھو لو
مگر لمحوں سے کہہ دو
نہ گزریں وہ
ستارے ٹوٹ جاتے ہیں
گگن سے چاند بھیجا ہے
سُبک روشن سی چاندنی کو
میرے دامن میں تم بھر دو
مگر اس چاند سے کہہ دو
نہ ڈوبے وہ
تمہیں جو رنگ بھیجے ہیں
یہ سارے روپ میرے ہیں
ستم کی دھوپ سے کہہ دو
درودیوار پہ دل کی نہ اترے وہ
تمہیں اک شام بھیجی ہے
جو میرے دل پہ ٹھہری ہے
مجھے جس پل چھوا تم نے
ابھی وہ یاد گہری ہے
ابھی اُس پل میں زندہ ہوں
مجھے اُس پل میں ڈھونڈو

Friday, May 20, 2016

ﮨﻢ ﻭﮦ ﺑﮯ ﺩﺭﺩ ﮨﯿﮟ

ﮨﻢ ﻭﮦ ﺑﮯ ﺩﺭﺩ ﮨﯿﮟ
ﺧﻮﺍﺏ ﮔﻨﻮﺍ ﮐﺮ ﺑﮭﯽ ﺟﻨﮩﯿﮟ ﻧﯿﻨﺪ ﺁ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ
ﺳﻮﭺ ﺳﻮﭺ ﮐﺮ ﺑﮭﯽ ﺟﻦ ﮐﮯ ﺫﮨﻨﻮﮞ ﮐﻮ ﮐﭽﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ
ﭨﻮﭦ ﭘﮭﻮﭦ ﮐﺮ ﺑﮭﯽ ﺟﻦ ﮐﮯ ﺩﻝ ﺩﮬﮍﮐﻨﺎ ﯾﺎﺩ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ
ﮨﻢ ﻭﮦ ﺑﮯ ﺩﺭﺩ ﮨﯿﮟ
ﭨﻮﭦ ﭨﻮﭦ ﮐﺮ ﺭﻭﻧﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﻣﯿﮟ ﺟﻮ
ﺑﺎﺕ ﺑﮯ ﺑﺎﺕ ﻣﺴﮑﺮﺍﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﺷﺎﻡ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﻣﺮ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﺧﻮﺍﮨﺶ ﻣﯿﮟ ﺟﻮ
ﺟﯿﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ
ﺟﯿﺘﮯ ﭼﻠﮯ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﺣﺎﺩﺛﺎﺕ ﺟﮩﺎﮞ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﮨﻢ
ﮐﺲ ﻗﺪﺭ ﭨﻮﭦ ﭨﻮﭦ ﺑﮑﮭﺮﮮ ﮨﯿﮟ
ﺍﺏ ﺗﻮ ﺍﮐﺜﺮ ﮔﻤﺎﮞ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ
ﮨﻢ ﺯﻣﯿﻦ ﭘﺮ ﺑﺸﺮ ﻧﮩﯿﮟ
ﺑﻠﮑﮧ
ﺁﺳﻤﺎﻥ ﮐﯽ ﭼﭩﺎﻥ ﮐﮯ ﻧﯿﭽﮯ
ﺑﺴﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺑﻮﻧﮯ ﮨﯿﮟ
ﮨﻢ ﺗﻮ ﺗﻘﺪﯾﺮ ﮐﮯ ﮐﮭﻠﻮﻧﮯ ﮨﯿﮟ

Saturday, May 14, 2016

مٹی کی بو باس میں


سخن زاد
اب ہم کشادہ گھروں میں رہیں گے
ہوا جن کی راہداریوں
میں
اگر خوش خرامی کرے
تو ہمیں چھوکے گزرے
ملاقات کی رات ہو
یا جدائی کی شامیں
مگر روشنی اس قدر تو میسر رہے
ان گھروں میں
ذرا دیکھنے کو
کہ ہم ہٹ کے ایک دوسرے سے
کہاں....کس قدر فاصلے پر
کھڑے ہیں
کہیں دن ڈھلے
دل کو قید و قفس سے رہائی ملے
تو مدارات کی کھڑکیوں سے کھلا آسماں دیکھ لیں
سخن زاد
اب ہم ستارے چنیں گے
کہیں ٹانکنا ہیں
ستارے....بہت سال پہلے
جو بہتے ہوئے
آنسوؤں سے نکل کر
فلک در فلک ٹمٹمانے لگے تھے
تو مٹی کی بو باس میں
سحر گھلنے لگا تھا
سخن زاد ! میں جس زمانے
میں ہوں
تین چوتھائی بیتا ہوا ہے
ذرا اپنے آتش کدوں سے نکل
اور مرا ساتھ دے
تو کہاں کن زمانوں کی دوری
محو سفر ہے
مرے ہاتھ میں ہاتھ دے
اے سخن زاد

تیری سوچ کس قدر

تیری سوچ کس قدر
حسین ٹھہری
کہ تجھے جب بھی
سوچوں تو
تیرے خیال کی رعنائی
میری ذات کے سبھی
گوشوں میں
چھینکتے رنگوں کی
مانند پھیلتی چلی جاتی ہے
اور اک مدھر سا
احساس جگاتی ہے
اور احساس بھی وہ
کہ جس کو لکھ دوں تو
میرے لفظ بھی
مہک اٹھیں
میرے ورق جگمگا جائیں
اور یہ حرف و لفظ مل کے
اک عجیب کیفیت میں
رقصاں ہوں
اور ان لفظوں کی
جگمگاتی روشنی میں
صرف تیرا ہی چہرا
نظر آتا ہے

Thursday, May 12, 2016

محبت کے درختوں سے

محبت کے درختوں سے

کوئی پتہ بھی گر جائے

ہوا کو چوٹ لگتی ہے

عجب وحشت کے عالم میں

ہوا یوں سنسناتی ہے

اسے رستہ نہیں ملتا

کوئی تو دشت ہو ایسا

جہاں دیوار ہو غم کی

جہاں وہ سر پٹخ  ڈالے

مگر بے درد آندھی کو

خبر شاید نہیں کہ جب

محبت کے درختوں سے

کوئی پتہ اگر ٹوٹے

تو اک اک شاخ کو

اس سے بچھڑ جانے کا کتنا رنج ہوتا ہے

جڑوں کی آخری حد تک

بلا کا درد رہتا ہے

ہوا کو اس سے کیا مطلب

اسے تو ایک ہی پتے کا ماتم کرنا ہوتا ہے

ہوا تو شور کرتی ہے

اور اس کے شور سے

کتنے ہی پتے پھر اُجڑتے ہیں

اُسے کیسے خبر ہو گی کہ تنہا پیڑ

بے چارہ

سلگتی دھوپ میں

تنہا

تھکا ہارا

کھڑا

نہ بیٹھ سکتا ہے

نہ آنسو پونچھ سکتا ہے

مگر وہ پھر بھی سایہ دار ہے

اپنی جگہ قائم

فقط خاموش اور ساکت

مگراکثر وہ کچھ کچھ بُڑبڑاتا، بولتا ، باتیں بھی کرتا ہے

وہی باتیں کہ جو بے چین سا اک شخص

اس پر لکھ دیا کرتا

کسی بچھڑے ہوئے کے نام کچھ یادیں۔۔

سنو!

تم جب کبھی تنہا کسی بھی پیڑ کے سائے میں بیٹھو

تو کبھی کچھ بھی نہیں لکھنا

نہ میرا نام اپنے ساتھ

نہ اپنا علیحدہ سے

محبت کا شجر سب کچھ سمجھتا ہے

اُسے پڑھنا بھی آتا ہے

تمہیں میں اس لیے محتاط کرتا ہوں

کہ اُس کا بخت اپنا ہے

تم اپنا اور میرا نام اپنے دل میں ہی لکھو

تو بہتر ہے۔

جب اپنے بخت سے تم لڑ نہیں سکتیں

تو پھر کس واسطے پیڑوں کو اپنا دکھ سناتی ہو

انہیں کیو نکر ستاتی ہے

وہ اپنے درد سے عاجز

تمہارا دُکھ کہاں بانٹیں؟

محبت کے درختوں سے

گرے ،بکھرے ہوئے پتے جہاں دیکھو

اُٹھاؤ!

اپنے آنچل میں سمیٹو

اور واپس لوٹ کر آؤ!!

سو ممکن ہے تمہارا درد بَٹ جائے

چلو پھر لوٹ جائیں ہم

چلو پھر لوٹ جائیں ہم
جہاں پہ کچھ نہیں بدلا
نہ ماہ و سال ہیں بدلے
نہ ماضی حال ہیں بدلے

وہاں پہ لوٹ کے جائیں
جہاں معلوم ہو ہم کو
نہیں کچھ اور ہے بدلا
صرف ہم تم ہی بدلے ہیں

وہی مٹی وہی رستے
وہی سوندھی فضائیں ہیں 
وہی گلیاں وہی کوچے
وہی سب لوگ بے فکرے

وہی بچپن وہی بوڑھے
وہی سب نوجواں قصّے
مگر اب تم نہیں ہو وہ
مگر اب میں نہیں ہوں وہ

وہی بادل وہی بارش
وہی کشتی ہے کاغز کی
وہی دھوپیں وہی سائے
وہی دن رات من بھائے

وہی کلیاں وہی خوشبو
وہی جینے کی چاہت ہے
مگر بے کار ہے سب کچھ
اگر ہم، ہم نہیں ہیں وہ

سبھی کچھ پھر خیالوں میں
یہاں کیوں جی رہا ہوں میں
زخم جو بھر چکا کب کا
اسے کیوں سی رہا ہوں میں

گو سب کچھ وہ پرانا ہے  
سبھی کچھ پھر سہانا ہے
اگر ہے کچھ نیا تو بس
نہیں ہو تم , نہیں ہیں ہم

گیا وہ لوٹ آئے پھر
یہاں ایسا نہیں ہوتا
یہ رستہ ایک طرفہ ہے
کوئی واپس نہیں آتا

مگر کب کوئی سمجھا ہے
مگر کب کوئی مانا ہے
سبھی مڑ مڑ کے تکتے ہیں
سبھی یہ آس مرتے ہیں

Wednesday, May 11, 2016

خوں بہا


اپنے شہسواروں کو
قتل کرنے والوں سے
خوں بہا طلب کرنا
وارثوں پہ واجب تھا
قاتلوں پہ واجب تھا
خوں بہا ادا کرنا
واجبات کی تکمیل
منصفوں پہ واجب تھی
(منصفوں کی نگرانی
قدسیوں پہ واجب تھی)
وقت کی عدالت میں
ایک سمت مسند تھی
ایک سمت خنجر تھا
تاج زرنگار اک سمت
ایک سمت لشکر تھا
اک طرف مقدر تھا
طائفے پکار اٹھے
"تاج و تخت زندہ باد"
"ساز و رخت زندہ باد"
خلق ہم سے کہتی ہے
سارا ماجرا لکھیں
کس نے کس طرح پایا
اپنا خوں بہا لکھیں
چشم نم سے شرمندہ
ہم قلم سے شرمندہ
سوچتے ہیں کیا لکھیں

دُنیا جو بھی کہتی ہے ہمیشہ سچ نہیں ہوتا

مِرے آنگن کی مٹّی کی سماعت بھی
تمہاری ایک آہٹ کے لیے کب سے ترستی ہے
دریچوں کی کھلی آنکھوں سے
اک حسرت ٹپکتی ہے
محبت کا کوئی نغمہ ہوا جب گنگناتی ہے
تمھاری یاد کی خوشبو فضاء میں پھیل جاتی ہے
ادھورا چاند ہجراں کا
مری بے خواب آنکھوں کے تعاقُب میں
تمھہری راہ تکتا ہے
گلوں کی نرمیوں کو اوس چھونے کو اترتی ہے
مری آنکھوں کی شبنم سے تمہاری بات کرتی ہے
کبھی جب رات بستر پر مِرے تھک کر جو آتی ہے
مِرے تکیے کے نم سے اس کی آنکھیں بھیگ جاتی ہیں
وہ میری ہم نوا بن کر
تمہیں آواز دیتی ہیں
تمہیں واپس بلاتی ہیں ..
دَر ِامّید میں نے شہرِ دل کا کھول رکّھا ہے
کہ تم کو لَوٹ آنا ہے
ذرا موہوم سی آہٹ پہ بھی دل چونک اٹھتا ہے
کہ جیسے تم چلے آئے
مجھے محسوس ہوتا ہے
کی برگ و گِل سے لے کر آسمانوں تک کا ہر ذّرہ
تمہاری راہ تکتا ہے
مگر میں نے سنا یہ ہے
بچھڑ جاتے ہیں جو اک بار وہ پھر مِل نہیں پاتے
سنو ! اک بار آ جاؤ
زمانے کو بتا جاؤ
کہ دُنیا جو بھی کہتی ہے ہمیشہ
سچ نہیں ہوتا

ابھی کچھ دن لگیں گے

ابھی کچھ دن لگیں گے
دل ایسے شہر کے پامال ہوجانے کا منظر بھولنے میں
ابھی کچھ دن لگیں گے

جہانِ رنگ کے سارے خس و خاشاک
سب سرو و صنوبر پھولنے میں
ابھی کچھ دن لگیں گے

تھکے ہارے ہوئے خوابوں کے ساحل پر
کہیں امید کا چھوٹا سا اک گھر
بنتے بنتے رہ گیا ہے
وہ اک گھر بھولنے میں
ابھی کچھ دن لگیں گے

مگر اب دن ہی کتنے رہ گئے ہیں
بس اک دن دل کی لوح منتظر پر
اچانک
رات اترے گی
میری بے نور آنکھوں کے خزانے میں چھپے
ہر خواب کی تکمیل کر دے گی
مجھے بھی خواب میں تبدیل کر دے گی
اک ایسا خواب جس کا دیکھنا ممکن نہیں تھا
اک ایسا خواب جس کے دامن صد چاک میں کوئی مبارک
کوئی روشن دن نہیں تھا
ابھی کچھ دن لگیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔!

Tuesday, May 3, 2016

پیار کے طلبگارو

پیار کے طلبگارو
مفلسی کی دنیا  میں
مہنگے خواب مت  دیکھو
،سب کچھ ہار جاؤ گے 
منافقوں کی دنیا میں
ہنس کے جینا پڑتا  ھے
روح کے زخموں کو
کس طرح چھپاؤ   گے
ہاتھ کی لکیروں میں
بے  پناہ خسارے ہیں
جنکے ساتھ جینا تھا
انہی کو بھول  جاؤ گے
زندگی کے کاسے میں
   کرب اسقدر   ھے کہ
آنکھیں خون روتی ہیں
اب کیسے مسکراؤ گے
ہم غریب لوگوں کو
پیار کچھ نہیں دیتا
خواب کچھ بچانے  میں
آنکھیں بیچ آو گے
مجھکو اپنے مرنے کا
کوئی غم نہیں لیکن
تنہائ  اذیت ھے
تم بھی جی نہ پاؤ گے

گئے زمانوں میں

کہیں سنا ہے
گئے زمانوں میں
لوگ جب قافلوں کی صورت
مسافتوں کو عبور کرتے
تو قافلے میں اک ایسا ہمراہ ساتھ ہوتا
کہ جو سفر میں
تمام لوگوں کے پیچھے چلتا
اور اُس کے ذمّے یہ کام ہوتا
کہ آگے جاتے مسافروں سے
اگر کوئی چیز گر گئی ہو
جو کوئی شے پیچھے رہ گئی ہو
تو وہ مسافر
تمام چیزوں کو چُنتا جائے
اور آنے والے کسی پڑاؤ میں ساری چیزیں
تمام ایسے مُسافروں کے حوالے کردے
کہ جو منازل کی چاہ دل میں لئے شتابی سے
اپنے رستے تو پاٹ آئے
پر اپنی عجلت میں کتنی چیزیں
گرا بھی آئے ، گنوا بھی آئے

میں سوچتا ہوں
کہ زندگانی کے اس سفر میں
مجھے بھی ایسا ہی کوئی کردار مل گیا ہے
کہ میرے ہمراہ جو بھی احباب تھے
منازل کی چاہ دل میں لئے شتابی سے
راستوں پر بہت ہی آگے نکل گئے ہیں
میں سب سے پیچھے ہوں اس سفر میں
سو دیکھتا ہوں کہ راستے میں
وفا، مروت، خلوص و ایثار، مہر و الفت
اور اس طرح کی بہت سی چیزیں
جگہ جگہ پر پڑی ہوئی ہیں

میں اپنے خود ساختہ اُصولوں کی
زرد گٹھری میں ساری چیزیں سمیٹتا ہوں
اور اپنے احساس کے جلو میں
ہر اک پڑاؤ پہ جانے والوں کو ڈھونڈتا ہوں
پر ایسا لگتا ہے
جیسے میرے تمام احباب منزلوں کو گلے لگانے
بہت ہی آگے نکل گئے ہیں
یا میں ہی شاید
وفا، مروت، خلوص و ایثار، مہر و الفت
اور اس طرح کی بہت سی چیزیں سمیٹنے میں
کئی زمانے بتا چکا ہوں

Sunday, May 1, 2016

ﻣﯿﺮﮮ ﮨﻤﺴﻔﺮ , ﻣﯿﺮﮮ ﮨﻢ ﻧﺸﯿﻦ

ﻣﯿﺮﮮ ﮨﻤﺴﻔﺮ , ﻣﯿﺮﮮ ﮨﻢ ﻧﺸﯿﻦ
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺭﺏ ﺳﮯ ﻣﺎﻧﮕﺎ ﺗﻮ ﮐﭽﮫ ﻧﮩﯿﮟ
ﭘﺮ ﺟﺐ ﺑﮭﯽ ﻣﺎﻧﮕﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﺩُﻋﺎ
ﻧﮩﯿﮟ ﻣﺎﻧﮕﺎ ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽ
ﺗﯿﺮﮮ ﺳﻮﺍ
ﯾﮧ ﻃﻠﺐ ﮐِﯿﺎ ﮐﮧ
ﻣﯿﺮﮮ ﺧﺪﺍ
ﻧﺌﮯ ﻋﮩﺪ ﮐﯽ ﺳﺒﮭﯽ ﺭﺍﺣﺘﯿﮟ،
ﺳﺒﮭﯽ ﭼﺎﮨﺘﯿﮟ
ﻭﮦ ﻋﻄﺎ ﮐﺮﮮ
ﺗﺠﮭﮯ ﻣﻨﺰﻟﯿﮟ
ﯾﮧ ﻃﻠﺐ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ
ﻣﯿﺮﮮ ﺧﺪﺍ
ﺗﺠﮭﮯ ﺑﺨﺖ ﺩﮮ
ﺗﺠﮭﮯ ﺗﺎﺝ ﺩﮮ , ﺗﺠﮭﮯ ﺗﺨﺖ ﺩﮮ
ﻣﯿﺮﮮ ﮨﻤﺴﻔﺮ , ﻣﯿﺮﮮ ﭼﺎﺭﮦ ﮔﺮ
ﯾﮧ ﻣﺤﺒﺘﻮﮞ ﮐﺎ ﮐﭩﮭﻦ ﺳﻔﺮ
ﻣﯿﺮﮮ ﺳﺎﺗﮫ ﭼﻞ ﺫﺭﺍ ﺳﻮﭺ ﮐﺮ
ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﺯﺭ , ﻧﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﮨﻨُﺮ
ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﺩﯾﮑﮫ ﺗﻮ ﻣﯿﺮﺍ ﺣﻮﺻﻠﮧ
ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﺟﻮ ﮐﭽﮫ ﺳﺒﮭﯽ ﺗﯿﺮﺍ
ﻧﮩﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽ ﺗﯿﺮﮮ ﺳﻮﺍ
ﻣﯿﺮﯼ ﺩﻭﺳﺘﯽ , ﻣﯿﺮﯼ ﺯﻧﺪﮔﯽ
ﻣﯿﺮﯼ ﺧﺎﻣﻮﺷﯽ , ﻣﯿﺮﯼ ﺑﮯ ﺑﺴﯽ
ﻣﯿﺮﯼ ﺻﺒﺢ ﺑﮭﯽ , ﻣﯿﺮﯼ ﺷﺎﻡ ﺑﮭﯽ
ﻣﯿﺮﺍ ﻋﻠﻢ ﺑﮭﯽ , ﻣﯿﺮﺍ ﻧﺎﻡ ﺑﮭﯽ
ﮐﮧ ﺟﻮ ﻣﻞ ﺳﮑﯿﮟ ﻣﯿﺮﮮ ﺩﺍﻡ ﺑﮭﯽ
ﻭﮦ ﺳﺒﮭﯽ ﮐﭽﮫ ﺗﺠﮫ ﮐﻮ ﻋﻄﺎ ﮐﺮﮮ
ﻣﯿﺮﮮ ﭼﺎﺭﮦ ﮔﺮ !! ﺗﻮ ﯾﻘﯿﮟ ﺗﻮ ﮐﺮ
ﻣﺠﮭﮯ ﻣﺎﻧﮕﻨﺎ ﺗﻮ ﻧﮧ ﺁﺳﮑﺎ
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﻣﺎﻧﮕﯽ ﯾﮧ ﮨﯽ ﺩﻋﺎ
ﮐﮧ ﮔﻮﺍﮨﯽ ﺩﮮ ﮔﺎ ﻣﯿﺮﺍ ﺧﺪﺍ
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺟﺐ ﺑﮭﯽ ﺍُﺱ ﺳﮯ ﻃﻠﺐ ﮐِﯿﺎ
ﻧﮩﯿﮟ ﻣﺎﻧﮕﺎ ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽ ﺗﯿﺮﮮ ﺳﻮﺍ
ﻣﯿﺮﮮ ﮨﻤﺴﻔﺮ , ﻣﯿﺮﮮ ﮨﻢ ﻧﺸﯿﻦ
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺭﺏ ﺳﮯ ﻣﺎﻧﮕﺎ ﺗﻮ ﮐﭽﮫ ﻧﮩﯿﮟ
ﭘﺮ ﺟﺐ ﺑﮭﯽ ﻣﺎﻧﮕﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﺩُﻋﺎ
ﻧﮩﯿﮟ ﻣﺎﻧﮕﺎ ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽ
ﺗﯿﺮﮮ ﺳﻮﺍ

بہت خاموش لوگوں سے الجھا نہیں کرتے

سنو ایسا نہیں کرتے
بہت خاموش لوگوں سے الجھا نہیں کرتے
جس سے محبت ہو اس کو دنیا میں
رسوا کیا نہیں کرتے
جو نہ نبھا سکےوعدہ اس سے
شکوہ کیا نہیں کرتے
لفظوں سے کسی اپنے کا دل
دکھایا نہیں کرتے
محبت میں کسی کو
آزمایا نہیں کرتے
جو آپ کو دے پیار میں زخم اس سے کبھی
بدلہ لیا نہیں کرتے
محبت میں کسی سے مقابلہ
کیا نہیں کرتے
سنو ۔۔۔۔۔ایسا نہیں کرتے
بہت خاموش لوگوں سے الجھا نہیں کرتے

محبت بوڑھی نہیں ھوتی

سنو ..!!
محبت بوڑھی نہیں ھوتی
انسان بوڑھے ھو جاتے ہیں
ہر لمحہ اسکی تمازتوں میں
پگھلنا کا جنوں بڑتا رہتا ھے
دوری بے معنی ھو جاتی
محبت جب سوچوں پہ چھا جاتی ھے
جسم و روح جب یاد یار میں محو زکر ھو جاتے ہیں ..
سنو محبت مٹتی نہیں ھے
بڑھتی ھے
ہر گزرتے پل
قرب کی، وصال خواہشیں انگڑائیاں لیتی ہیں
پہلو یار میں بیٹھے
سرگوشیوں کی خواہش
لمس کا احساس .. جذبوں کو ماند نہیں پڑنے دیتا..
سنو ..!!
محبت بوڑھی نہیں ھوتی ..!!!

ﭼﻠﻮ ﺍﺏ ﻟﻮﭦ ﺁﺅ ﺗﻢ

ﺳﻨﻮ ﺗﻢ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﺗﮭﺎ ﻧﺎ ! !
ﻣﺠﮭﮯ ﺟﺬﺑﮧ ﻣﺤﺒﺖ ﺳﮯ ﮐﺒﮭﯽ ﺟﻮ ﺗﻢ
ﭘﮑﺎﺭﻭ ﮔﯽ
ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﺩﻥ ﻟﻮﭦ ﺁﺅﮞ ﮔﺎ ! !
ﺗﻮ ﺩﯾﮑﮭﻮ ﻧﺎ ! !
ﮐﺌﯽ ﻟﻤﺤﻮﮞ
ﮐﺌﯽ ﺳﺎﻟﻮﮞ
ﮐﺌﯽ ﺻﺪﯾﻮﮞ
ﺳﮯ ﺗﯿﺮﺍ ﺭﺳﺘﮧ ﺗﮑﺘﯽ
ﯾﮧ ﻣﯿﺮﯼ ﻣﻨﺘﻈﺮ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ
ﻣﯿﺮﮮ ﺩﻝ ﮐﯽ ﯾﮧ ﺩﮬﮍﮐﻦ ﺍﻭﺭ ﺳﺎﻧﺴﯿﮟ
ﺑﺲ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﻧﺎﻡ ﻟﯿﺘﯽ ﮨﯿﮟ
ﻭﮨﯽ ﺍﮎ ﻭﺭﺩ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﯿﮟ
ﻣﯿﺮﯼ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺣﻞ ﭘﺮ
ﺗﯿﺮﯼ ﺧﻮﺍﮨﺶ ﮐﯽ ﻣﻮﺟﻮﮞ ﻧﮯ
ﺑﮍﯼ ﮨﻠﭽﻞ ﻣﭽﺎﺋﯽ ﮨﮯ
ﺗﯿﺮﯼ ﺗﺼﻮﯾﺮ ، ﺳﻮﮐﮭﮯ ﭘﮭﻮﻝ ﺍﻭﺭ ﺗﺤﻔﮯ !
ﺗﯿﺮﯼ ﭼﺎﮨﺖ ﮐﯽ ﺧﻮﺷﺒﻮ ﻣﯿﮟ
ﺍﺑﮭﯽ ﺗﮏ ﺳﺎﻧﺲ ﻟﯿﺘﮯ ﮨﯿﮟ
ﻭﮦ ﺳﺐ ﺭﺳﺘﮯ ﮐﮯ ﺟﻦ ﭘﺮ ﺗﻢ ﮨﻤﺎﺭﮮ
ﺳﺎﺗﮫ ﭼﻠﺘﮯ ﺗﮭﮯ
ﻭﮦ ﺳﺐ ﺭﺳﺘﮯ ﺟﮩﺎﮞ ﺗﯿﺮﯼ ﮨﻨﺴﯽ ﮐﮯ
ﭘﮭﻮﻝ ﮐﮭﻠﺘﮯ ﺗﮭﮯ
ﺟﮩﺎﮞ ﭘﯿﮍﻭﮞ ﮐﯽ ﺷﺎﺧﻮﮞ ﭘﺮ
ﮨﻢ ﺍﭘﻨﺎ ﻧﺎﻡ ﻟﮑﮭﺘﮯ ﺗﮭﮯ
ﺍُﺩﺍﺳﯽ ﺳﮯ ﺑﮭﺮﮮ ﻣﻨﻈﺮ
ﺗﻤﮭﺎﺭﮮ ﻟﻮﭦ ﮐﺮ ﺁﻧﮯ ﮐﯽ ﺍﻣﯿﺪﯾﮟ ﺩﻻﺗﮯ
ﮨﯿﮟ
ﺳﻨﻮ ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﺪﻟﮧ
ﺗﻤﮭﺎﺭﮮ ﭘﺎﺅﮞ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﺳﻨﻨﮯ ﮐﯽ
ﻣﯿﺮﮮ ﮐﻤﺮﮮ ﮐﯽ ﺑﮯ ﺗﺮﺗﯿﺐ ﭼﯿﺰﯾﮟ ﻣﻨﺘﻈﺮ
ﮨﯿﮟ
ﺳﻨﻮ ! ! !
ﺗﮑﻤﯿﻞ ﭘﺎﺗﯽ ﭼﺎﮨﺘﻮﮞ ﮐﻮ ﯾﻮﮞ ﺍﺩﮬﻮﺭﮦ ﺗﻮ
ﻧﮩﯿﮟ ﭼﮭﻮﮌﻭ
ﻣﺠﮭﮯ ﻣﺖ ﺁﺯﻣﺎﺅ ﺗﻢ
ﭼﻠﻮ ﺍﺏ ﻟﻮﭦ ﺁﺅ ﺗﻢ . . .