سخن زاد
اب ہم کشادہ گھروں میں رہیں گے
ہوا جن کی راہداریوں
میں
اگر خوش خرامی کرے
تو ہمیں چھوکے گزرے
ملاقات کی رات ہو
یا جدائی کی شامیں
مگر روشنی اس قدر تو میسر رہے
ان گھروں میں
ذرا دیکھنے کو
کہ ہم ہٹ کے ایک دوسرے سے
کہاں....کس قدر فاصلے پر
کھڑے ہیں
کہیں دن ڈھلے
دل کو قید و قفس سے رہائی ملے
تو مدارات کی کھڑکیوں سے کھلا آسماں دیکھ لیں
سخن زاد
اب ہم ستارے چنیں گے
کہیں ٹانکنا ہیں
ستارے....بہت سال پہلے
جو بہتے ہوئے
آنسوؤں سے نکل کر
فلک در فلک ٹمٹمانے لگے تھے
تو مٹی کی بو باس میں
سحر گھلنے لگا تھا
سخن زاد ! میں جس زمانے
میں ہوں
تین چوتھائی بیتا ہوا ہے
ذرا اپنے آتش کدوں سے نکل
اور مرا ساتھ دے
تو کہاں کن زمانوں کی دوری
محو سفر ہے
مرے ہاتھ میں ہاتھ دے
اے سخن زاد
Saturday, May 14, 2016
مٹی کی بو باس میں
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment