Wednesday, May 11, 2016

دُنیا جو بھی کہتی ہے ہمیشہ سچ نہیں ہوتا

مِرے آنگن کی مٹّی کی سماعت بھی
تمہاری ایک آہٹ کے لیے کب سے ترستی ہے
دریچوں کی کھلی آنکھوں سے
اک حسرت ٹپکتی ہے
محبت کا کوئی نغمہ ہوا جب گنگناتی ہے
تمھاری یاد کی خوشبو فضاء میں پھیل جاتی ہے
ادھورا چاند ہجراں کا
مری بے خواب آنکھوں کے تعاقُب میں
تمھہری راہ تکتا ہے
گلوں کی نرمیوں کو اوس چھونے کو اترتی ہے
مری آنکھوں کی شبنم سے تمہاری بات کرتی ہے
کبھی جب رات بستر پر مِرے تھک کر جو آتی ہے
مِرے تکیے کے نم سے اس کی آنکھیں بھیگ جاتی ہیں
وہ میری ہم نوا بن کر
تمہیں آواز دیتی ہیں
تمہیں واپس بلاتی ہیں ..
دَر ِامّید میں نے شہرِ دل کا کھول رکّھا ہے
کہ تم کو لَوٹ آنا ہے
ذرا موہوم سی آہٹ پہ بھی دل چونک اٹھتا ہے
کہ جیسے تم چلے آئے
مجھے محسوس ہوتا ہے
کی برگ و گِل سے لے کر آسمانوں تک کا ہر ذّرہ
تمہاری راہ تکتا ہے
مگر میں نے سنا یہ ہے
بچھڑ جاتے ہیں جو اک بار وہ پھر مِل نہیں پاتے
سنو ! اک بار آ جاؤ
زمانے کو بتا جاؤ
کہ دُنیا جو بھی کہتی ہے ہمیشہ
سچ نہیں ہوتا

No comments:

Post a Comment