تمہیں کچھ پھول بھیجے ہیں
انہیں رکھ لو
مگر خوشبو سے یہ کہہ دو
نہ بکھرے وہ
تمہیں کچھ خواب بھیجے ہیں
انہیں دیکھو
ذرا نیندوں سے کہہ دینا
نہ جاگے وہ
ذرا تعبیر سے کہہ دو
کہ سچی ہو
تمہیں کچھ درد بھیجے ہیں
انہیں دل میں جگہ دے دو
میرے احساس پہ
کیا کیا گزرتی ہے
اسے سمجھو
تمہیں کچھ شبد بھیجے ہیں
انہیں پڑھ لو
مگر ہر شبد کی تا ثیر سے کہہ دو
کہ اچھی ہو
تمہیں کچھ اشک بھیجے ہیں
انہیں پونچھو
تمہارا لمس پا لیں گے
تو یہ بن جائیں گے موتی
جو میرے پاس ہوتے تم
تو کیوں روتی ذرا سوچو
تمہیں بھیجا ہے ہر لمحہ
جو لمحہ سرد گزرا ہے
انہیں ایسی اگن دے دو
امر ہو جائیں یہ لمحے
انہیں چھو لو
مگر لمحوں سے کہہ دو
نہ گزریں وہ
ستارے ٹوٹ جاتے ہیں
گگن سے چاند بھیجا ہے
سُبک روشن سی چاندنی کو
میرے دامن میں تم بھر دو
مگر اس چاند سے کہہ دو
نہ ڈوبے وہ
تمہیں جو رنگ بھیجے ہیں
یہ سارے روپ میرے ہیں
ستم کی دھوپ سے کہہ دو
درودیوار پہ دل کی نہ اترے وہ
تمہیں اک شام بھیجی ہے
جو میرے دل پہ ٹھہری ہے
مجھے جس پل چھوا تم نے
ابھی وہ یاد گہری ہے
ابھی اُس پل میں زندہ ہوں
مجھے اُس پل میں ڈھونڈو
Saturday, May 21, 2016
تمہیں کچھ پھول بھیجے ہیں
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment