Saturday, May 21, 2016

تمہیں کچھ پھول بھیجے ہیں

تمہیں کچھ پھول بھیجے ہیں
انہیں رکھ لو
مگر خوشبو سے یہ کہہ دو
نہ بکھرے وہ
تمہیں کچھ خواب بھیجے ہیں
انہیں دیکھو
ذرا نیندوں سے کہہ دینا
نہ جاگے وہ
ذرا تعبیر سے کہہ دو
کہ سچی ہو
تمہیں کچھ درد بھیجے ہیں
انہیں دل میں جگہ دے دو
میرے احساس پہ
کیا کیا گزرتی ہے
اسے سمجھو
تمہیں کچھ شبد بھیجے ہیں
انہیں پڑھ لو
مگر ہر شبد کی تا ثیر سے کہہ دو
کہ اچھی ہو
تمہیں کچھ اشک بھیجے ہیں
انہیں پونچھو
تمہارا لمس پا لیں گے
تو یہ بن جائیں گے موتی
جو میرے پاس ہوتے تم
تو کیوں روتی ذرا سوچو
تمہیں بھیجا ہے ہر لمحہ
جو لمحہ سرد گزرا ہے
انہیں ایسی اگن دے دو
امر ہو جائیں یہ لمحے
انہیں چھو لو
مگر لمحوں سے کہہ دو
نہ گزریں وہ
ستارے ٹوٹ جاتے ہیں
گگن سے چاند بھیجا ہے
سُبک روشن سی چاندنی کو
میرے دامن میں تم بھر دو
مگر اس چاند سے کہہ دو
نہ ڈوبے وہ
تمہیں جو رنگ بھیجے ہیں
یہ سارے روپ میرے ہیں
ستم کی دھوپ سے کہہ دو
درودیوار پہ دل کی نہ اترے وہ
تمہیں اک شام بھیجی ہے
جو میرے دل پہ ٹھہری ہے
مجھے جس پل چھوا تم نے
ابھی وہ یاد گہری ہے
ابھی اُس پل میں زندہ ہوں
مجھے اُس پل میں ڈھونڈو

No comments:

Post a Comment