Thursday, May 12, 2016

محبت کے درختوں سے

محبت کے درختوں سے

کوئی پتہ بھی گر جائے

ہوا کو چوٹ لگتی ہے

عجب وحشت کے عالم میں

ہوا یوں سنسناتی ہے

اسے رستہ نہیں ملتا

کوئی تو دشت ہو ایسا

جہاں دیوار ہو غم کی

جہاں وہ سر پٹخ  ڈالے

مگر بے درد آندھی کو

خبر شاید نہیں کہ جب

محبت کے درختوں سے

کوئی پتہ اگر ٹوٹے

تو اک اک شاخ کو

اس سے بچھڑ جانے کا کتنا رنج ہوتا ہے

جڑوں کی آخری حد تک

بلا کا درد رہتا ہے

ہوا کو اس سے کیا مطلب

اسے تو ایک ہی پتے کا ماتم کرنا ہوتا ہے

ہوا تو شور کرتی ہے

اور اس کے شور سے

کتنے ہی پتے پھر اُجڑتے ہیں

اُسے کیسے خبر ہو گی کہ تنہا پیڑ

بے چارہ

سلگتی دھوپ میں

تنہا

تھکا ہارا

کھڑا

نہ بیٹھ سکتا ہے

نہ آنسو پونچھ سکتا ہے

مگر وہ پھر بھی سایہ دار ہے

اپنی جگہ قائم

فقط خاموش اور ساکت

مگراکثر وہ کچھ کچھ بُڑبڑاتا، بولتا ، باتیں بھی کرتا ہے

وہی باتیں کہ جو بے چین سا اک شخص

اس پر لکھ دیا کرتا

کسی بچھڑے ہوئے کے نام کچھ یادیں۔۔

سنو!

تم جب کبھی تنہا کسی بھی پیڑ کے سائے میں بیٹھو

تو کبھی کچھ بھی نہیں لکھنا

نہ میرا نام اپنے ساتھ

نہ اپنا علیحدہ سے

محبت کا شجر سب کچھ سمجھتا ہے

اُسے پڑھنا بھی آتا ہے

تمہیں میں اس لیے محتاط کرتا ہوں

کہ اُس کا بخت اپنا ہے

تم اپنا اور میرا نام اپنے دل میں ہی لکھو

تو بہتر ہے۔

جب اپنے بخت سے تم لڑ نہیں سکتیں

تو پھر کس واسطے پیڑوں کو اپنا دکھ سناتی ہو

انہیں کیو نکر ستاتی ہے

وہ اپنے درد سے عاجز

تمہارا دُکھ کہاں بانٹیں؟

محبت کے درختوں سے

گرے ،بکھرے ہوئے پتے جہاں دیکھو

اُٹھاؤ!

اپنے آنچل میں سمیٹو

اور واپس لوٹ کر آؤ!!

سو ممکن ہے تمہارا درد بَٹ جائے

No comments:

Post a Comment