Saturday, May 21, 2016

گمنام

مجھے گمنام رہنے کا
کچھ ایسا شوق ہے ہمدم
کسی بے نام صحرا میں
بھٹکتی روح ہو جیسے
جہاں سائے ترستے ہوں
کسی پیکر کی آہٹ کو
جہاں زندہ نہ ہو کوئی
جہاں پہ موت رہتی ہو
یا کچھ ایسے کہ دریا کے
کہیں اس پار کیکر پہ
کسی چڑیا کے بچے کی
تڑپتی پیاس ہو جیسے
کہ جس کی زندگی کے دن
بہت بے جان گزرے ہوں
جو اڑنے کو ترستا ہو
مگر حسرت دمِ آخر
وہ اپنے گھونسلے میں ہی
کچھ ایسے جان دے جیسے
ہزاروں کروٹوں کے بعد
میری امید مرتی ہے

No comments:

Post a Comment