مجھے اِک نام ایسا دو
پکارو جس سے تم مجھکو
تو یوں محسوس ہو جیسے
تمھاری شاعری ساری میری تعریف ٹھہری ہے
جِسے سُن کر میں خوابوں کی سی کیفیت
میں کھو جاؤں
ہواؤں میں اڑوں جیسے
جِسے سن کر یہ دل کیا روح تک سرشار ہو جائے
جِسے سن کر میری تشنہ لبی سیراب ہو جائے
جِسے سن کر لگے ایسے کہ جیسے بارش پھولوں کی
بدن کی ہر کلی جیسے با انداز ذکر مہکے
جِسے سن کر لگے ایسے
کہ جیسے مدھم سے میٹھے سُروں میں تیرتا
میٹھا مدھر نغمہ
گزرتا وقت کے لمحے جِسے سُن کر ٹھہر جائیں
سماں مدہوش ہو جائے
جِسے سُن کر بہاریں جاتے جاتے پھر سے لوٹ آئیں
مجھے اِک نام ایسا دو
سو اے مہربان لڑکی
میں اکثر سوچتا ہوں کوئی ایسا نام تم کو دوں
کہ جو منسوب ہو تم سے
تو تم کو جاوداں کر دے
ہو کوئی نام ایسا تو
جو مجسمہ حُسن فطرت ہو
بہت ہی خوبصورت ہو
کسی نازک پری جیسا
کہ جو حُسن جہاں رنگ و بو کا استعارہ ہو
تیرے ملکوتی پیکر کو مگر تشبیہ کس سے دوں
اگر میں گُل کہوں تم کو؟
مگر پھول تو مرجھا کے آخر سوکھ جاتے ہیں
اگر تارہ کہوں تم کو؟
ستارے ٹوٹ کر لیکن فضا میں کھو جاتے ہیں
کہوں قوس و قزح لیکن ؟
سبھی رنگ اکٹھے مِل کر بھی
تیری روح سے چھلکتی نور کی کرنوں کو نہ پہنچے
حِنا کا نام دوں تم کو؟
مگر رنگ حِنا تو چار دن میں روٹھ جاتا ہے
اگر بادل کہوں تم کو؟
گھٹاؤں سے سوا لیکن تیرے جذبات کی شدت ہے
تمہیں ساون کہوں کیسے؟
تمھارے پیار کی بارش تو ہر موسم برستی ہے
نسیم صبح کہہ دو یا کہوں باد صبا تم کو؟
مگر فطرت ہوا کی تو ازل سے بیوفائی ہے
تیری وارفتگی سوچوں, سمندر کی لہر کہہ دوں ؟
مگر موجوں کی طغیانی تو اک پونم کی شب تک ہے
تیری آنکھیں اگر سوچوں, تمہیں مے کا بدل کہہ دوں؟
خمار مے تو لیکن رات بھر کی بات ہوتی ہے
اگر سایہ کہوں, جھونکا کہوں, خوشبو کہوں تم کو؟
مگر تم تو مجسمہ ہو
بہت کچھ سوچتا ہوں میں
تمھارا نام کیا رکھوں؟
کہوں جادو, چراغ راہ یا منزل کہوں تم کو؟
کہوں میں جستجو کوشش کہوں یا دل کہوں تم کو؟
شفق کہہ دوں سحر کہہ دوں یا کہہ دوں چاندنی تم کو؟
اگر خواہش کہوں یا آرزو یا زندگی تم کو؟
اگر ساحر کہوں, نشہ کہوں یا بے خودی تم کو؟
ادا کہہ دوں, وفا کہہ دوں, حیاء کہہ دوں اگر تم کو؟
اگر ساحل کہوں, کشتی کہوں یا ناخدا تم کو؟
اگر تقدیر یا انعام یا قسمت کہوں تم کو؟
اگر غنچہ کہوں ,لالہ کہوں, نرگس کہوں تم کو؟
کہوں میں جان یا جاناں یا جان جاں تم کو؟
اگر جھرنا کہوں, دریا کہوں, ساگر کہوں تم کو؟
کِرن کہہ دوں, گھٹا کہہ دوں یا پھر رِم جھِم کہوں تم کو؟
اگر جگنو کہوں,شعلہ کہوں, شبنم کہوں تم کو؟
اگر شیشہ کہوں, موتی کہوں, ریشم کہوں تم کو؟
یہ سارے نام تیری ذات کے پہلو سہی لیکن...
مگر جچتا نہیں کوئی یہ سارے نام فانی ہیں
تمھارا نام ایسا ہو
جو تم کو جاوداں کر دے
تمھیں پورا بیان کردے
سنو! اے مہربان لڑکی!
بہت ہی سوچ کر میں نے
تمھارا نام رکھا ہے
"محبت"....نام کیسا ہے؟
محبت جو کبھی مرتی نہیں!
Monday, February 27, 2017
محبت جو کبھی مرتی نہیں!
ہم اگلے بندے کو قربان کر دیتےہیں
کیا آپ نے پھر اسے زبح کر دیا...؟
اپنے دوست کو...؟
اپنے بھائی کو..؟
اپنی سہیلی کو...؟
عجیب لگتا ہے ناں...
مگر ہم کرتے ہیں...
بہت چھوٹی چھوٹی باتوں پر...
ہم اگلے بندے کو قربان کر دیتےہیں..!
ہمیشہ اچھا ہونا ضروری نہیں ہوتا..
کہ ہر بندہ واہ واہ کرے...
آپ کے گن گائے...
اور یہ سب...
آپ جس کی محبت میں کرتے ہیں...
آپ اسی کو اس اچھا بننے کے چکر میں..
دکھ دے دیتے ہیں...
بہت ساری باتوں کی زمہ داری...
ہم شریک ہونے کے باوجود...
صرف ایک بندے پہ ڈال دیتے ہیں..
حالانکہ..
ہم خود برابر کے شریک ہوتے ہیں..
مگر...
گواہی...
بڑے بڑے رہ جاتے ہیں...
ایمانداری سے اس کی ذمہ داری...
قبول کرنے کی بجائے...
ہم دامن بچا جاتے ہیں...
سوچ لیں...
آخر آپ کے پاس کتنی دیر...
کوئی دوست یار رشتہ...
بچے گا...
جسے آپ اپنے مفاد پہ قربان کر دیں...
صاف رہنا نصف ایمان ہے...
اور..
باقی نصف ایمان...؟
کم از کم ...
دوسروں پہ گندگی نہ اچھالنا ہے..!
معشوق / محبوب / مرشد / استاد...
کی نظر میں اچھے بنیں...
ضرور بنیں...
مگر...
یہ وہ ریس ہے...
جس میں جیتنے والا ہارتا ہے...
کہیں ایسا نہ ہو...
کہ آپ اتنے اچھے ہو جائیں...
کہ...
تنہا رہ جائیں...!
مرشد یا معشوق...
"ب" خبر تو ہو سکتے ہیں..
مگر...
بے خبر نہیں ہوتے...!
(نملتہ زکی)
Friday, February 24, 2017
ہمارے بیچ کا رشتہ
ہمارے بیچ کا رشتہ
ضرورت کے سوا کچھ بھی نہیں
ضرورت بات کرنے کی
ضرورت بات سننے کی
ضرورت سانس لینے کی
ضرورت فرصتوں کے وقت کو آسان کرنے کی
ضرورت کو محبت نام دینے سے
ہمارے بیچ پھیلی یہ مسافت کم نہیں ہوتی
یہ اپنا پن فقط بیگانگی پہ دھول جیسا ھے
میں گھنٹوں بات کرتا ھوں
تمہارے فرصتوں کے وقت کو آسان کرتا ھوں
میرا اس پہ یہ دعوی'،کہ مجھے تم سے محبت ہے ،
تمہارا بھی یہی اسرار کہ مجھ سے پیار کرتی ھو
سو ہم آسانیوں سے جھوٹ کی عادت نبھانے میں
مہارت سیکھ لیتے ہیں
ضرورت کو محبت مان لیتے ہیں
مگر سچ ہے
ضرورت کی قسم سچ ھے
ہمارے بیچ کا رشتہ
شروع دن سے ضرورت ھے ،،،،
کچھ لفظ تو ایسے ہیں جو لکھا نہیں کرتے
دشمن ہو کوئی دوست ہو پرکھا نہیں کرتے
ہم خاک نشیں ظرف کا سودا نہیں کرتے
اک لفظ جو کہہ دیں تو وہی لفظ ہے آخر
کٹ جائے زبان بات کو بدلا نہیں کرتے
کوئی آ کے ہمیں ضرب لگا دے توالگ بات
ہم خود کسی لشکر کو پسپا نہیں کرتے
اک ضبط/ مسافت ہے زمانے کی کڑ ی دھوپ
گھر سے بنا چادر لئے نکلا نہیں کرتے
جس شہر میں جانا نہ ہو لوگوں سے سر راہ
اس شہر کا رستہ کبھی پوچھا نہیں کرتے
اک بار جہاں دل کو لگا لیں تو وہاں پہ
پھر سود و زیاں کیا ہے یہ دیکھا نہیں کرتے
دل ہے تو اسے گرد کا صحرا نہیں کرتے
آنکھوں کو کسی بات پہ دریا نہیں کرتے
بن جائیں تو پھر ان کی پرستش کی مصیبت
پتھر کبھی اس طرح تراشا نہیں کرتے
کوئی بات ہے خاموش سی لب پہ
کچھ لفظ تو ایسے ہیں جو لکھا نہیں کرتے
خود سے جنگ کرنا
بہت دشوار ہوتا ہے
یہ خود سے جنگ کرنا بھی
میں اکثر خود سے لڑتا ہوں
جھگڑتا ہوں
اور پھر مات کھاتا ہوں
نجانے حوصلہ کیوں ہار جاتا ہوں؟
ارادے توڑ دیتا ہوں
اور پھر رزمگاہ ذات میں آلات بھی سب جنگ کے میں چھوڑ دیتا ہوں
درون ذات سے میں قیدتنہائی کے ڈر سے بھاگ جاتا ہوں
کسی محفل میں جا کر ہی قرار و چین پاتا ہوں
وہاں اک شور ہوتا ہے
خموشی قید ہوتی ہے
اور پھر بے وجہ چھوٹی سی باتوں پر میں ہنستا ہوں
لبوں پہ قہقہے آتے ہیں میرا بھرم رکھتے ہیں
بظاہر اس قدر ہنستا ہوں کہ آنکھیں بھی میری بھیگ جاتی ہیں
اور اندر کی ساری سسکیاں اک زہر کی صورت
مرے اندر ہی اندر پھیل جاتی ہیں
مگر یہ ہے کسے معلوم؟
اتر آیا مری ہنستی ہوئی آنکھوں میں کیوں پانی؟
بھلا یہ کون بتلائے؟
یہ میرے چین کا اظہار ہے یا درد کا اعلان؟
عابدبنوی
محبت
محبت انا نہیں ہوتی
محبت جھگڑا نہیں ہوتی
محبت ہونے پہ آے تو
محبت سجدہ ہوتی ہے
محبت حساب نہیں ہوتی
محبت کتاب نہیں ہوتی
محبت ہونے پہ آے تو
محبت بے نیاز ہوتی ہے
محبت حزن نہیں ہوتی
محبت ملال نہیں ہوتی
محبت ہونے پہ آے تو
محبت توکل ہوتی ہے
محبت حبس نہیں ہوتی
محبت موسم نہیں ہوتی
محبت ہونے پہ آے تو
محبت ابد ہوتی ہے
محبّت شکایت نہیں ہوتی
محبّت عادت نہیں ہوتی
محبّت ہونے پہ آے تو
محبّت فطرت ہوتی ہے
محبّت بدگمان نہیں ہوتی
محبّت پریشان نہیں ہوتی
محبّت ہونے پہ آے تو
محبّت دھیان ہوتی ہے
محبت تنہا نہیں ہوتی
محبت شکستہ نہیں ہوتی
محبت ہونے پہ آے تو
محبت فتح ہوتی ہے
محبت نحیف نہیں ہوتی
محبت ناتواں نہیں ہوتی
محبت ہونے پہ آے تو
محبت طاقت ہوتی ہے
محبت غافل نہیں ہوتی
محبت کاہل نہیں ہوتی
محبت ہونے پہ آے تو
محبت جاوداں ہوتی ہے
محبت مردہ نہیں ہوتی
محبت افسردہ نہیں ہوتی
محبت ہونے پہ آے تو
محبت شہید ہوتی ہے
محبت فنا نہیں ہوتی
محبت بقا نہیں ہوتی
محبت ہونے پہ آے تو
محبت محبوب ہوتی ہے
محبت بحث نہیں ہوتی
محبت ضد نہیں ہوتی
محبت ہونے پہ آے تو
محبت رضا بہ قضا ہوتی ہے
محبت تھکن نہیں ہوتی
محبت پژمردہ نہیں ہوتی
محبت ہونے پہ آے تو
محبت حرارت جان ہوتی ہے
محبت فتنہ نہیں ہوتی
محبت فساد نہیں ہوتی
محبت ہونے پہ آے تو
محبت آداب ہوتی ہے
محبت ہوس نہیں ہوتی
محبت عریاں نہیں ہوتی
محبت ہونے پہ آے تو
محبت لباس ہوتی ہے
محبت رنجش نہیں ہوتی
محبت سازش نہیں ہوتی
محبت ہونے پہ آے تو
محبت آخرش ہوتی ہے
محبت تکلیف نہیں ہوتی
محبت ازیت نہیں ہوتی
محبت ہونے پہ آے تو
محبت راحت ہوتی ہے
محبت سزا نہیں ہوتی
محبت دغا نہیں ہوتی
محبت ہونے پہ آے تو
محبت وفا ہوتی ہے
محبت آنسو نہیں ہوتی
محبّت مسکان نہیں ہوتی
محبت ہونے پہ آے تو
محبت شکر ہوتی ہے
محبت قابض نہیں ہوتی
محبت بد دعا نہیں ہوتی
محبت ہونے پہ آے تو
محبت دعا ہوتی ہے
محبت جادو نہیں ہوتی
محبت شعبدہ نہیں ہوتی
محبت ہونے پہ آے تو
محبت معجزہ ہوتی ہے
محبت کذب نہیں ہوتی
محبت کرب نہیں ہوتی
محبت ہونے پہ آے تو
محبت حق ہوتی ہے
محبت شکوہ نہیں ہوتی
محبت آہ نہیں ہوتی
محبت ہونے پہ آے تو
محبت صبر ہوتی ہے
محبت حاصل نہیں ہوتی
محبت لاحاصل نہیں ہوتی
محبت ہونے پہ آے تو
محبت قناعت ہوتی ہے
محبت گمراہ نہیں ہوتی
محبت بےراہ نہیں ہوتی
محبت ہونے پہ آے تو
محبت چراغ راہ ہوتی ہے
محبت میں نہیں ہوتی
محبت تم نہیں ہوتی
محبت ہونے پہ آے تو
محبت 'محبت' ہوتی ہے
Sunday, February 12, 2017
یہ اشکوں کے ستارے
تیری پلکوں پہ یہ اشکوں کے ستارے کیسے
تجھ کو غم ہے تری محبوب تجھے مل نہ سکی
اور جو زیست تراشی تھی ترے خوابوں نے
جب پڑی چوٹ حقائق کی تو وہ ٹوٹ گئی
تجھ کو معلوم ہے میں نے بھی محبت کی تھی
اور انجام محبت بھی ہے معلوم تجھے
تجھ سے پہلے بھی بجھے ہیں یہاں لاکھوں ہی چراغ
تیری ناکامی نئی بات نہیں دوست میرے
کس نے پائی ہے غم زیست کی تلخی سے نجات
چار و ناچار یہ زہراب سبھی پیتے ہیں
جاں لٹا دینے کے فرسودہ فسانوں پہ نہ جا
کون مرتا ہے محبت میں سبھی جیتے ہیں
وقت ہر زخم کو ہر غم کو مٹا دیتا ہے
وقت کے ساتھ یہ صدمہ بھی گزر جائے گا
اور یہ باتیں جو دہرائی ہیں میں نے اس وقت
تو بھی اک روز انہی باتوں کو دہرائے گا
دیس کی گلیاں ،محلے،گھر نہیں بھولے
ابھی تک دیس کی گلیاں ،محلے،گھر نہیں بھولے
وہ پگڈنڈی وہ برگد اور وہ کیکر نہیں بھولے
نہیں بھولے ابھی تک گاوں کی اُجلی حدیں صبحیں
پہاڑوں پر اُترتی شام کا منظر نہیں بھولے
وہ جس کے سائے کے نیچے بہت کھیلے تھے بچپن میں
تُم اس بیری کا کہتے ہو ہمیں کنکر نہیں بھولے
ابھی تک یادہیں وہ پیڑ جن پر جھولتے تھے ہم
لکھے تھےنام جن پروہ ہمیں پتھر نہیں بھولے
وہ جن کے ہاتھ میں مٹی بھی آکر سانس لیتی تھی
وہ بستی یاد ہے اب تک وہ کوزہ گر نہیں بھولے
گماں ہوتا تھا جن کے ھاتھ کے شیشوں پہ پانی کا
ہنر بے مثل تھا جن کا وہ شیشہ گر نہیں بھولے
اڑانیں سیکھ لی پھرسے،اُڑے بھی ہیں بہت لیکن
قفس میں رہ گئے تھے جو ہمیں وہ پر نہیں بھولے
ہماری آنکھ دریا تھی کہا جب الوداع اُس کو
مگر ہم آج تک اس کی وہ چشم تر نہیں بھولے
نائل رفیع
Thursday, February 9, 2017
جیسا تم نے چاہا تھا..
وہ اکثر مجھ سے کہتا ہے...
یہ تلخی کیوں لٹاتی ہو...
کیوں ہر دم کرب سہتی ہو...
تم بدل گئی ہو...
تم پہلے جیسی نہیں ہو...
میں مسکراتی ہوں...
دل میں قہقہے لگاتی ہوں...
کہ یہ سوال تم پوچھ رہے ہو...
ذرا ٹهیرو ...
کچھ سال پیچھے چلتے ہیں...
میں ہر دم مسکراتی تھی...
گلوں میں کهلکهلاتی تھی..
خوشبو سے بات کرتی تھی..
میں رنگوں سے نبھاتی تھی...
مگر..
تم تو میرے چارہ گر تھے...
میرے کوزہ گر تهے...
میں تو تمہارے ہاتھوں میں...
دوبارہ کچی مٹی میں ڈهل گئی..
جیسے چاک پہ گھمایا...
اسی طرح چل گئی...
تم توڑتے رہے....
بناتے رہے مجھے...
بنا بنا کر پھر...
مٹاتے رہے مجھے...
میں تو وہ بنتی گئی...
جیسا تم نے چاہا تھا..
اور..
اب تم یہ کہتے ہو..
کہ میں اس طرح نہیں بن پائی...
میں تیرے معیار تک نہیں آ پائی..
تمہیں اپنی ہی تخلیق...
اچهی نہیں لگتی...
سمجھتے تم بھی ہو...
سمجھتی میں بھی ہوں..
کہ مٹی چاک پر جب رقص کرتی ہے...
تو ویسی ہی بنتی ہے جیسے تم بناتے ہو..
جیسے تم نچاتے ہو...
جیسے تم سجاتے ہو..
چاک پہ مٹی مٹ کر رہتی ہے..
اس کی مرضی نہیں چلتی...
یہ خدا کا ہی ظرف ہے زکی...
وہ جیسے چاہے بناتا ہے...
ہمیشہ ساتھ رہتا ہے..
ہمیشہ گلے لگاتا ہے...
چاک پہ مٹی کی مرضی نہیں چلتی...
وہ ویسی ہی بنتی ہے ...
جیسے تم بناتے ہو...!
(نملتہ زکی)
Wednesday, February 8, 2017
کرائے کا مکاں میرا
کرائے کا مکاں میرا
مکاں کی چھت سے لپٹے واہمے میرے
درودیوار پہ چسپاں یہ گونگی وحشتیں میری
کھلے روزن سے اندر جھانکتی سورج کی کرنیں بھی میری ہیں
کھولتے خدشوں کی چیخیں بھی، اکیلے پن کا ڈر میرا،
اداسی کی پھٹی چادر میں اندیشوں کا زر میرا
بہت آباد رہتا ہے یہ گھر میرا
یہ گھر میرا، مکاں میرا، یہی میری زمیں ہے
اس کے اندر آسماں میرا
میری آنکھوں کے آنسو بھی میرے ہیں، دل بھی میرا ہے
میرے دل میں ٹپکتے زخم بھی میرے،
میرے پاوٗں کے سارے آبلے میرے،
عجب ہیں سلسلے میرے
پرانے کاغزوں میں تہ بہ تہ خوابوں کے پرزے،
خواہشوں کی کرچیاں میری،
اندھیروں سے اٹے کونے میں کچی قبر جیسی ہے دعا میری
دعا کی کوکھ میں دم توڑتی تاثیر میری ہے،
یہی جاگیر میری ہے
یہی جاگیر کتنی قیمتی لگتی ہے
جب میں سوچتا ہوں ان پرانے کاغزوں سے اس طرف
ٹوٹے ہوئے شیشے کے پیچھے اک حسیں تصویر تیری ہے
جس پہ تو نے خود لکھا تھا
کہ میں تیرے لیئے زندہ رہوں گی
تو یقیں میرا، گماں میرا،
میرا دل سرزمیں تیری،
تیرا دل آسماں میرا
تو ہے نام و نشاں میرا
تیری تحریر پڑھ کر سوچتا ہوں
تو مجھ پہ ہنستا ہے۔۔۔۔۔۔
کرائے کا مکاں میرا۔
کیا ہم ایک دوجے کی ضرورت ہیں؟
کہا میں نے
کہ کیا ہم ایک دوجے کی ضرورت ہیں؟
کہا اس نے
کہ ہاں------------بالکل
"مجھے تیری ضرورت ہے
تجھے میری ضرورت ہے"
کہا میں نے
کہ کیا ہم روٹھنے پے ایک دوجے کو منا لیں گے؟
کہا اس نے
کہ ہاں---------------بالکل
کہا اس نے
ہمیں اک دوسرے سے روٹھنے کی کیا ضرورت ہے ؟
کہا میں نے
کہ کیا ہم بدگمانی میں بھی جی لیں گے ؟
کہا اس نے
کہ ہاں-------------بالکل
مجھے تجھ پر بھروسہ ہے
تجھے مجھ پر بھروسہ ہے
کہا میں نے
کہ ہاں------بالکل
یہ "بالکل" سن کے وہ بولا
کہ ہاں ------------بالکل
پھر اس کے بعد دونوں چپکے چپکے ہو گئے رخصت
فضا میں اب بھی یہ آواز زندہ ہے
(کہ ہاں -------بالکل)
مگر کردار دونوں لا پتہ ہیں
یوسف خالد
تم نہ سمجھو گے کسی طور نہیں سمجھو گے
تم نہ سمجھو گے کسی طور نہیں سمجھو گے
ایک___اقرار___پہ چپکے سے سحر ہوتی ہے
ایک "اقرار" سے کھلتے ہیں کنول ہونٹوں کے
آنکھ بھی اشکوں کی برسات سے تر ہوتی ہے
کبھی تمہاری نگاہوں کی ادا سے میں نے
اپنی دھڑکن کو کئی خواب نئے سونپے تھے
تم کو تو یاد بھی وہ "شام" نہیں ہو شاید
دل نے جب درد کے آداب نئے سونپے تھے
عجیب شخص تھے، گو اجنبی رہے برسوں
ہر ایک راہ پہ مگر___دیپ___اک جلا دیتے
تم آرزو کا کوئی گیت گنگناتے ہوئے___
یہ چودھویں کا چاند، روز شب بلا لیتے
وہ چاندنی میرے خوابوں میں اب بھی زندہ ہے
کہ جس نے روح میں گلشن سے سجا رکھے تھے
اب بھی چاہو تو کبھی جھانک لو، آ کر دل میں !
ہیں "منور" جو دئیے تم نے جلا رکھے تھے !!
وقت بیتا ہے____مگر یاد کے دریچے پر !
ان گنت لمحے گلابوں سے سجائے میں نے
اور کچھ آدھی ملاقاتوں کے بکھرے اوراق
اپنی آنکھوں کی کتابوں میں سجائے میں نے
تم کو معلوم نہیں، تم نہ جان پائے کبھی
کہ چاہتوں کے ستاروں کو کیسے پڑھتے ہیں ؟
میں تو قسمت کی لکیروں میں تمہیں دیکھتی تھی
تم نے سمجھا نہ لکیروں کو کیسے پڑھتے ہیں !
کاش آ جائے اعتبار_____اس حقیقت پر !
ہر ایک خواب کی "تعبیر" ہو نہیں سکتی
نظر چرا کے حقائق سے بھلا ، کیا حاصل ؟
ہر ایک درد کی تشہیر نہیں ہو سکتی !! !
میری آنکھوں کی کسک، میرے رتجگوں کا سکوت
اب کوئی اور قیامت نہ کھڑی کر جائے !!
بات آغاز میں تو کچھ بھی نہیں تھی___ لیکن !
سوچتی ہوں ، تمہیں پانے تلک نہ بڑھ جائے
مجھ کو اے کاش یقیں ہوتا اگر "جنموں" پر
میں تم کو اپنی دعاوں میں سجایا کرتی
اب کے جیون نہ سہی، اور کسی جیون میں
ہر ایک لحظہ تمہیں سامنے پایا کرتی !
میں کسی بات پہ مغموم اگر ہو جاتی
تیرے ہونٹوں کی دعا دور اندھیرا کرتی
اداسیوں کی فضا مجھ کو ستاتی جب، تو
مسکراہٹ تمہاری نور بکھیرا کرتی
یہ کسی کو بھی تو معلوم نہ تھا کہ، اک دن
میری غزلوں میں تمہارا ہی سراپا ہو گا
میرا وجود رہے، یا نہ رہے پر تم کو
میرا ہر شعر ، "داستان" سناتا ہو گا
مجھے یقیں ہے کسی موڑ پر ملو گے تم
میں ماہ و سال کے بھنور میں اگر کھو جاوں
میری عبادتیں "تمام" ہوئی ہیں تم پر !
چلے بھی آو_____کہ میں گہری نیند سو جاوں !
سجل فاروقی
Saturday, February 4, 2017
وارث شاہ ایتھے کی کی وِکدا
وارث شاہ ایتھے کی کی وِکدا
وِکدا وِچ بزار
قبراں وِکدیاں
قبراں وِچوں بول وی وِکدے
یار وی وِکدا
اوہدے گَل دا ہار وی وِکدا
عشق دا ورقہ ورقہ وِکدا
وِکدے قول قرار
وارث شاہ ایتھے کی کی وِکدا
وِکدا وِچ بزار
ہٹیاں وِکدیاں
جٹیاں وِکدیاں
رنگ وی وِکدا
جھنگ وی وِکدا
ہِیراں وِکدیاں
رانجھے وِکدے
وِکدا تخت ہزار
وارث شاہ ایتھے کی کی وِکدا
وِکدا وِچ بزار
کھیڑے وِکدے
گیڑے وِکدے
ساہواں وِکدیاں
رُکھ رُکھ تے چھانواں وِکدیاں
مَجھاں وِکدیاں
گانواں وِکدیاں
وِکدے سارے کھوہ
وارث شاہ ایتھے کی کی وِکدا
وِکدا وِچ بزار
تُوں لبھدی پھریں بزار کُڑے
ایتھے کیہڑی شے جو وِکدی نہیں
تیرے دل دا جانی وِکدا
راوی دا سبھ پانی وِکدا
اَکھاں دے سبھ اتھرُو وِکدے
وارث شاہ ایتھے کی کی وِکدا
وِکدا وِچ بزار
ایتھے شِکر دوپہری وِکدی
شاماں وِکدیاں نیں
دن وی وِکدے
راتاں وِکدیاں
ایتھے جگر! جگراتے وِکدے
نیندراں وِکدیاں
سفنے وِکدے
سُفنیاں دے وِچ
سجُن وِکدے
وارث شاہ ایتھے کی کی وِکدا
وِکدا وِچ بزار
ایتھے جنگل بیلے وِکدے
منگل وِکدے، میلے وِکدے
ایتھے چن چناں وی وِکدے
سوہنی وِکدی
ماہی تے مہینوال وی وِکدا
ایتھے موجاں موجاں وِکدیاں
بیلے وِچھیاں لاشاں وِکدیاں
فوجاں وِکدیاں
وارث شاہ ایتھے کی کی وِکدا
وِکدا وِچ بزار
اوہدے گل دی گانی وِکدی
ہر اِک پیار نشانی وِکدی
گور پیا کوئی ہور وی وِکدا
بُکل دے وچ چور وی وِکدا
ایتھے تخت لہور وی وِکدا
کیہ جاناں میں کون کوئی وِکدا
وارث شاہ ایتھے کی کی وِکدا
وِکدا وِچ بزار
تُوں لکھ لکھ مارے وین
وارث شاہ
ایتھے لکھاں روندیاں دِھیاں وِکدیاں
ایتھے جیوندیاں مانواں وِکدیاں
نی مائے میں کنوں دَسّاں
ایتھے مر گئياں ماواں وِکدیاں
وارث شاہ ایتھے
وارث شاہ میں تینوں آکھاں
ہائے وے میں وی مر گئیاں
فیر وی میں مر گئی ہاں
دامن! تو کیویں کہندا سی
پٗتّر ہٹّاں تے نہیں وِکدے
پر ایتھے پال تے پالنے وِکے
پنچھی تے فیر آہلنے وِکے
ایتھے گھر گھروندے وِکے
ایتھے بند تے بُوہے وِکے
ایتھے میرا کمرہ وِکیا
کی کی وِکیا نہیں
کناں سُنیاں بول نہیں وِکیا
اکھاں ویکھے ویکھ نہیں وِکے
ہر اِک دل دا منظر وِکیا
اندر وِکیا باہر وِکیا
کیہ کیہ رنگ رتول نئیں وِکیا
اوہدا برش کینوس وی وِکیا
ہر اِک رُت دی لیکھا وِکی
تیری پیار بھلیکھا دی
تیری سبھ اُڈیک وی وِکی
اوہدے میرے ہاسے وِکے
اوہدے میرے اتھرُو وِکے
اوہدا ہر اِک چتر وِکیا
میرا ہر اک اکھر وِکیا
مٹی دا ہر ذرہ ذرہ
میرے گھر دی اِٹ اِٹ وِکی
میری شب و روز وی وِکیا
میرا امروز وہ وِکیا
میرا اج اجوکا وِکیا
تے میرا اِک سُورج وِکیا
ایش ٹرے توں سانبھے
سگرٹ دے ٹوٹے وِکے
ساحر دی اوہ خُوشبو وِکی
اوہدی کوئی رسید نہ منگی
اندر دا بس بھانبڑ وِکیا
اوہدا پر پرچھاواں وِکیا
تے میرا اکلاپا وِکیا
ہر اِک مِلن والا وِکیا
تے وِچھڑن والا وِکیا
ہر کوِیتا تے کہانی وِکی
میری ناگ منی وی وِکی
ویساکھی تے ہولی وِکی
ماں وِکی، ماں بولی وِکی
سارے پُھل کھڑن وی وِکے
رُکھ وِکے تے بُوٹے وِکے
وا دے سارے جُھوٹے وِکے
میریاں ساریاں ہوکاں وِکیاں
اوہ کوئل دی کوکاں وِکیاں
تے میرا ٹُرنا وی وِکیا
میری اَج اخیر وی وِکی
میرا ہر ایک ویس وی وِکیا
دلی وِکی، دیس وی وِکیا
ہائے نی وارث شاہ
تُوں وی وِک گئیاں ایں
کی تکنا پنجاب وارث شاہ
تُوں تک اپنا پنجاب نی مائے
تک اپنا پنجاب
وارث شاہ ایتھے کی کی وِکدا
وِکدا وچ بزار
ﻣﮩﺎﺟﺮ ﮨﯿﮟ ﻣﮕﺮ ﮨﻢ ﺍﯾﮏ ﺩﻧﯿﺎ ﭼﮭﻮﮌ ﺁﺋﮯ ﮨﯿﮟ
ﻣﮩﺎﺟﺮ ﮨﯿﮟ ﻣﮕﺮ ﮨﻢ ﺍﯾﮏ ﺩﻧﯿﺎ ﭼﮭﻮﮌ ﺁﺋﮯ ﮨﯿﮟ
ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﭘﺎﺱ ﺟﺘﻨﺎ ﮨﮯ ﮨﻢ ﺍﺗﻨﺎ ﭼﮭﻮﮌ ﺁﺋﮯ ﮨﯿﮟ
ﮐﮩﺎﻧﯽ ﮐﺎ ﯾﮧ ﺣﺼﮧ ﺁﺝ ﺗﮏ ﺳﺐ ﺳﮯ ﭼﮭﭙﺎﯾﺎ ﮨﮯ
ﮐﮧ ﮨﻢ ﻣﭩﯽ ﮐﯽ ﺧﺎﻃﺮ ﺍﭘﻨﺎ ﺳﻮﻧﺎ ﭼﮭﻮﮌ ﺁﺋﮯ ﮨﯿﮟ
ﻧﺌﯽ ﺩﻧﯿﺎ ﺑﺴﺎ ﻟﯿﻨﮯ ﮐﯽ ﺍﮎ ﮐﻤﺰﻭﺭ ﭼﺎﮨﺖ ﻣﯿﮟ
ﭘﺮﺍﻧﮯ ﮔﮭﺮ ﮐﯽ ﺩﮨﻠﯿﺰﻭﮞ ﮐﻮ ﺳﻮﺗﺎ ﭼﮭﻮﮌ ﺁﺋﮯ ﮨﯿﮟ
ﻋﻘﯿﺪﺕ ﺳﮯ ﮐﻼﺋﯽ ﭘﺮ ﺟﻮ ﺍﮎ ﺑﭽﯽ ﻧﮯ ﺑﺎﻧﺪﮬﯽ ﺗﮭﯽ
ﻭﮦ ﺭﺍﮐﮭﯽ ﭼﮭﻮﮌ ﺁﺋﮯ ﮨﯿﮟ ﻭﮦ ﺭﺷﺘﮧ ﭼﮭﻮﮌ ﺁﺋﮯ ﮨﯿﮟ
ﮐﺴﯽ ﮐﯽ ﺁﺭﺯﻭ ﮐﮯ ﭘﺎﺅﮞ ﻣﯿﮟ ﺯﻧﺠﯿﺮ ﮈﺍﻟﯽ ﺗﮭﯽ
ﮐﺴﯽ ﮐﯽ ﺍﻭﻥ ﮐﯽ ﺗﯿﻠﯽ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﻨﺪﺍ ﭼﮭﻮﮌ ﺁﺋﮯ ﮨﯿﮟ
ﭘﮑﺎ ﮐﺮ ﺭﻭﭨﯿﺎﮞ ﺭﮐﮭﺘﯽ ﺗﮭﯽ ﻣﺎﮞ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﺳﻠﯿﻘﮯ ﺳﮯ
ﻧﮑﻠﺘﮯ ﻭﻗﺖ ﻭﮦ ﺭﻭﭨﯽ ﮐﯽ ﮈﻟﯿﺎ ﭼﮭﻮﮌ ﺁﺋﮯ ﮨﯿﮟ
ﺟﻮ ﺍﮎ ﭘﺘﻠﯽ ﺳﮍﮎ ﺍُﻧّﺎﻭ ﺳﮯ ﻣﻮﮨﺎﻥ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ
ﻭﮨﯿﮟ ﺣﺴﺮﺕ ﮐﮯ ﺧﻮﺍﺑﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﮭﭩﮑﺘﺎ ﭼﮭﻮﮌ ﺁﺋﮯ ﮨﯿﮟ
ﯾﻘﯿﮟ ﺁﺗﺎ ﻧﮩﯿﮟ، ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﭽّﯽ ﻧﯿﻨﺪ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﺋﺪ
ﮨﻢ ﺍﭘﻨﺎ ﮔﮭﺮ ﮔﻠﯽ ﺍﭘﻨﺎ ﻣﺤﻠﮧ ﭼﮭﻮﮌ ﺁﺋﮯ ﮨﯿﮟ
ﮨﻤﺎﺭﮮ ﻟﻮﭦ ﺁﻧﮯ ﮐﯽ ﺩﻋﺎﺋﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﮯ
ﮨﻢ ﺍﭘﻨﯽ ﭼﮭﺖ ﭘﮧ ﺟﻮ ﭼﮍﯾﻮﮞ ﮐﺎ ﺟﺘﮭﺎ ﭼﮭﻮﮌ ﺁﺋﮯ ﮨﯿﮟ
ﮨﻤﯿﮟ ﮨﺠﺮﺕ ﮐﯽ ﺍﺱ ﺍﻧﺪﮬﯽ ﮔﭙﮭﺎ ﻣﯿﮟ ﯾﺎﺩ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ
ﺍﺟﻨﺘﺎ ﭼﮭﻮﮌ ﺁﺋﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻟﻮﺭﺍ ﭼﮭﻮﮌ ﺁﺋﮯ ﮨﯿﮟ
ﺳﺒﮭﯽ ﺗﯿﻮﮨﺎﺭ ﻣﻞ ﺟﻞ ﮐﺮ ﻣﻨﺎﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﻭﮨﺎﮞ ﺟﺐ ﺗﮭﮯ
ﺩﻭﺍﻟﯽ ﭼﮭﻮﮌ ﺁﺋﮯ ﮨﯿﮟ ﺩﺳﮩﺮﺍ ﭼﮭﻮﮌ ﺁﺋﮯ ﮨﯿﮟ
ﮨﻤﯿﮟ ﺳﻮﺭﺝ ﮐﯽ ﮐﺮﻧﯿﮟ ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﺗﮑﻠﯿﻒ ﺩﯾﺘﯽ ﮨﯿﮟ
ﺍﻭﺩﮪ ﮐﯽ ﺷﺎﻡ ﮐﺎﺷﯽ ﮐﺎ ﺳﻮﯾﺮﺍ ﭼﮭﻮﮌ ﺁﺋﮯ ﮨﯿﮟ
ﮔﻠﮯ ﻣﻠﺘﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﻧﺪﯾﺎﮞ ﮔﻠﮯ ﻣﻠﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻣﺬﮨﺐ
ﺍﻟﮧ ﺁﺑﺎﺩ ﻣﯿﮟ ﮐﯿﺴﺎ ﻧﻈﺎﺭﮦ ﭼﮭﻮﮌ ﺁﺋﮯ ﮨﯿﮟ
ﮨﻢ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺗﺼﻮﯾﺮﯾﮟ ﺗﻮ ﻟﮯ ﺁﺋﮯ ﮨﯿﮟ ﺷﺎﺩﯼ ﮐﯽ
ﮐﺴﯽ ﺷﺎﻋﺮ ﻧﮯ ﻟﮑﮭﺎ ﺗﮭﺎ ﺟﻮ ﺳﮩﺮﺍ ﭼﮭﻮﮌ ﺁﺋﮯ ﮨﯿﮟ
ﮐﺌﯽ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﺍﺑﮭﯽ ﺗﮏ ﯾﮧ ﺷﮑﺎﯾﺖ ﮐﺮﺗﯽ ﺭﮨﺘﯽ ﮨﯿﮟ
ﮐﮧ ﮨﻢ ﺑﮩﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﺎﺟﻞ ﮐﺎ ﺩﺭﯾﺎ ﭼﮭﻮﮌ ﺁﺋﮯ ﮨﯿﮟ
ﺷﮑﺮ ﺍﺱ ﺟﺴﻢ ﺳﮯ ﮐﮭﻠﻮﺍﮌ ﮐﺮﻧﺎ ﮐﯿﺴﮯ ﭼﮭﻮﮌﮮ ﮔﯽ
ﮐﮧ ﮨﻢ ﺟﺎﻣﻦ ﮐﮯ ﭘﯿﮍﻭﮞ ﮐﻮ ﺍﮐﯿﻼ ﭼﮭﻮﮌ ﺁﺋﮯ ﮨﯿﮟ
ﻭﮦ ﺑﺮﮔﺪ ﺟﺲ ﮐﮯ ﭘﯿﮍﻭﮞ ﺳﮯ ﻣﮩﮏ ﺁﺗﯽ ﺗﮭﯽ ﭘﮭﻮﻟﻮﮞ ﮐﯽ
ﺍﺳﯽ ﺑﺮﮔﺪ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﮨﺮﯾﻞ ﮐﺎ ﺟﻮﮌﺍ ﭼﮭﻮﮌ ﺁﺋﮯ ﮨﯿﮟ
ﺍﺑﮭﯽ ﺗﮏ ﺑﺎﺭﺷﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯿﮕﺘﮯ ﮨﯽ ﯾﺎﺩ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ
ﮐﮧ ﮨﻢ ﭼﮭﭙﺮ ﮐﮯ ﻧﯿﭽﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﭼﮭﺎﺗﺎ ﭼﮭﻮﮌ ﺁﺋﮯ ﮨﯿﮟ
ﺑﮭﺘﯿﺠﯽ ﺍﺏ ﺳﻠﯿﻘﮯ ﺳﮯ ﺩﻭﭘﭩﮧ ﺍﻭﮌﮬﺘﯽ ﮨﻮﮔﯽ
ﻭﮨﯽ ﺟﮭﻮﻟﮯ ﻣﯿﮟ ﮨﻢ ﺟﺲ ﮐﻮ ﮨﻤﮑﺘﺎ ﭼﮭﻮﮌ ﺁﺋﮯ ﮨﯿﮟ
ﯾﮧ ﮨﺠﺮﺕ ﺗﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﯽ ﺑﺰﺩﻟﯽ ﺷﺎﺋﺪ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺗﮭﯽ
ﮐﮧ ﮨﻢ ﺑﺴﺘﺮ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﮨﮉﯼ ﮐﺎ ﮈﮬﺎﻧﭽﺎ ﭼﮭﻮﮌ ﺁﺋﮯ ﮨﯿﮟ
ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺍﮨﻠﯿﮧ ﺗﻮ ﺁ ﮔﺌﯽ ﻣﺎﮞ ﭼﮭﭧ ﮔﺌﯽ ﺁﺧﺮ
ﮐﮧ ﮨﻢ ﭘﯿﺘﻞ ﺍﭨﮭﺎ ﻻﺋﮯ ﮨﯿﮟ ﺳﻮﻧﺎ ﭼﮭﻮﮌ ﺁﺋﮯ ﮨﯿﮟ
ﻣﮩﯿﻨﻮﮞ ﺗﮏ ﺗﻮ ﺍﻣﯽ ﺧﻮﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺑﺪﺑﺪﺍﺗﯽ ﺗﮭﯿﮟ
ﺳﮑﮭﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﭼﮭﺖ ﭘﺮ ﭘﻮﺩﯾﻨﮧ ﭼﮭﻮﮌ ﺁﺋﮯ ﮨﯿﮟ
ﻭﺯﺍﺭﺕ ﺑﮭﯽ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﻭﺍﺳﻄﮯ ﮐﻢ ﻣﺮﺗﺒﮧ ﮨﻮﮔﯽ
ﮨﻢ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺎﮞ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻧﻮﺍﻟﮧ ﭼﮭﻮﮌ ﺁﺋﮯ ﮨﯿﮟ
ﯾﮩﺎﮞ ﺁﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﺮ ﻗﯿﻤﺘﯽ ﺳﺎﻣﺎﻥ ﻟﮯ ﺁﺋﮯ
ﻣﮕﺮ ﺍﻗﺒﺎﻝ ﮐﺎ ﻟﮑﮭﺎ ﺗﺮﺍﻧﮧ ﭼﮭﻮﮌ ﺁﺋﮯ ﮨﯿﮟ
ﮨﻤﺎﻟﮧ ﺳﮯ ﻧﮑﻠﺘﯽ ﮨﺮ ﻧﺪﯼ ﺁﻭﺍﺯ ﺩﯾﺘﯽ ﺗﮭﯽ
ﻣﯿﺎﮞ ﺁﺅ ﻭﺿﻮ ﮐﺮ ﻟﻮ ﯾﮧ ﺟﻤﻠﮧ ﭼﮭﻮﮌ ﺁﺋﮯ ﮨﯿﮟ
ﻭﺿﻮ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﻮ ﺟﺐ ﺑﮭﯽ ﺑﯿﭩﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﯾﺎﺩ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ
ﮐﮧ ﮨﻢ ﺟﻠﺪﯼ ﻣﯿﮟ ﺟﻤﻨﺎ ﮐﺎ ﮐﻨﺎﺭﮦ ﭼﮭﻮﮌ ﺁﺋﮯ ﮨﯿﮟ
ﺍﺗﺎﺭ ﺁﺋﮯ ﻣﺮﻭﺕ ﺍﻭﺭ ﺭﻭﺍﺩﺍﺭﯼ ﮐﺎ ﮨﺮ ﭼﻮﻻ
ﺟﻮ ﺍﮎ ﺳﺎﺩﮬﻮ ﻧﮯ ﭘﮩﻨﺎﺋﯽ ﺗﮭﯽ ﻣﺎﻻ ﭼﮭﻮﮌ ﺁﺋﮯ ﮨﯿﮟ
ﺟﻨﺎﺏِ ﻣﯿﺮ ﮐﺎ ﺩﯾﻮﺍﻥ ﺗﻮ ﮨﻢ ﺳﺎﺗﮫ ﻟﮯ ﺁﺋﮯ
ﻣﮕﺮ ﮨﻢ ﻣﯿﺮ ﮐﮯ ﻣﺎﺗﮭﮯ ﮐﺎ ﻗﺸﻘﮧ ﭼﮭﻮﮌ ﺁﺋﮯ ﮨﯿﮟ
ﺍِﺩﮬﺮ ﮐﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﻞ ﺟﺎﺋﮯ ﺍُﺩﮬﺮ ﺗﻮ ﮨﻢ ﯾﮩﯽ ﭘﻮﭼﮭﯿﮟ
ﮨﻢ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﭼﮭﻮﮌ ﺁﺋﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﭼﺸﻤﮧ ﭼﮭﻮﮌ ﺁﺋﮯ ﮨﯿﮟ
ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺭﺷﺘﮯ ﺩﺍﺭﯼ ﺗﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﯽ، ﮨﺎﮞ ﺗﻌﻠﻖ ﺗﮭﺎ
ﺟﻮ ﻟﮑﺸﻤﯽ ﭼﮭﻮﮌ ﺁﺋﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﺩﺭﮔﺎ ﭼﮭﻮﮌ ﺁﺋﮯ ﮨﯿﮟ
ﻭﮦ ﺣﯿﺮﺕ ﺳﮯ ﮨﻤﯿﮟ ﺗﮑﺘﺎ ﺭﮨﺎ ﮐﭽﮫ ﺩﯾﺮ ﭘﮭﺮ ﺑﻮﻻ
ﻭﮦ ﺳﻨﮕﻢ ﮐﺎ ﻋﻼﻗﮧ ﭼﮭﭧ ﮔﯿﺎ ﯾﺎ ﭼﮭﻮﮌ ﺁﺋﮯ ﮨﯿﮟ
ﺍﺑﮭﯽ ﮨﻢ ﺳﻮﭺ ﻣﯿﮟ ﮔﻢ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ ﺳﮯ ﮐﯿﺎ ﮐﮩﺎ ﺟﺎﺋﮯ
ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺁﻧﺴﻮﺅﮞ ﻧﮯ ﺭﺍﺯ ﮐﮭﻮﻻ ﭼﮭﻮﮌ ﺁﺋﮯ ﮨﯿﮟ
ﻣﺤﺮﻡ ﻣﯿﮟ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﻟﮑﮭﻨﺆ ﺍﯾﺮﺍﻥ ﻟﮕﺘﺎ ﺗﮭﺎ
ﻣﺪﺩ ﻣﻮﻟﯽٰ ﺣﺴﯿﻦ ﺁﺑﺎﺩ ﺭﻭﺗﺎ ﭼﮭﻮﮌ ﺁﺋﮯ ﮨﯿﮟ
ﻣﺤﻞ ﺳﮯ ﺩﻭﺭ ﺑﺮﮔﺪ ﮐﮯ ﺗﻠﮯ ﻧﺮﻭﺍﻥ ﮐﯽ ﺧﺎﻃﺮ
ﺗﮭﮑﮯ ﮨﺎﺭﮮ ﮨﻮﺋﮯ ﮔﻮﺗﻢ ﮐﻮ ﺑﯿﭩﮭﺎ ﭼﮭﻮﮌ ﺁﺋﮯ ﮨﯿﮟ
ﺗﺴﻠﯽ ﮐﻮ ﮐﻮﺋﯽ ﮐﺎﻏﺬ ﺑﮭﯽ ﮨﻢ ﭼﭙﮑﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﺎﺋﮯ
ﭼﺮﺍﻍِ ﺩﻝ ﮐﺎ ﺷﯿﺸﮧ ﯾﻮﮞ ﮨﯽ ﭼﭩﺨﺎ ﭼﮭﻮﮌ ﺁﺋﮯ ﮨﯿﮟ
ﺳﮍﮎ ﺑﮭﯽ ﺷﯿﺮ ﺷﺎﮨﯽ ﺁ ﮔﺌﯽ ﺗﻘﺴﯿﻢ ﮐﯽ ﺯﺩ ﻣﯿﮟ
ﺗﺠﮭﮯ ﮨﻢ ﮐﺮ ﮐﮯ ﮨﻨﺪﻭﺳﺘﺎﻥ ﭼﮭﻮﭨﺎ ﭼﮭﻮﮌ ﺁﺋﮯ ﮨﯿﮟ
ﮨﻨﺴﯽ ﺁﺗﯽ ﮨﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﮨﯽ ﺍﺩﺍﮐﺎﺭﯼ ﭘﮧ ﺧﻮﺩ ﮨﻢ ﮐﻮ
ﺑﻨﮯ ﭘﮭﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﯾﻮﺳﻒ ﺍﻭﺭ ﺯﻟﯿﺨﺎ ﭼﮭﻮﮌ ﺁﺋﮯ ﮨﯿﮟ
ﮔﺰﺭﺗﮯ ﻭﻗﺖ ﺑﺎﺯﺍﺭﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﺏ ﺑﮭﯽ ﯾﺎﺩ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ
ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺳﻨﻮﺭﺗﺎ ﭼﮭﻮﮌ ﺁﺋﮯ ﮨﯿﮟ
ﮨﻤﺎﺭﺍ ﺭﺍﺳﺘﮧ ﺗﮑﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﭘﺘﮭﺮﺍ ﮔﺌﯽ ﮨﻮﮞ ﮔﯽ
ﻭﮦ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﺟﻦ ﮐﻮ ﮨﻢ ﮐﮭﮍﮐﯽ ﭘﮧ ﺭﮐﮭﺎ ﭼﮭﻮﮌ ﺁﺋﮯ ﮨﯿﮟ
ﺗﻮ ﮨﻢ ﺳﮯ ﭼﺎﻧﺪ ﺍﺗﻨﯽ ﺑﮯ ﺭﺧﯽ ﺳﮯ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ
ﮨﻢ ﺍﭘﻨﯽ ﺟﮭﯿﻞ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﭼﺎﻧﺪ ﺍﺗﺮﺍ ﭼﮭﻮﮌ ﺁﺋﮯ ﮨﯿﮟ
ﯾﮧ ﺩﻭ ﮐﻤﺮﻭﮞ ﮐﺎ ﮔﮭﺮ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺳﻠﮕﺘﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺍﭘﻨﯽ
ﻭﮨﺎﮞ ﺍﺗﻨﺎ ﺑﮍﺍ ﻧﻮﮐﺮ ﮐﺎ ﮐﻤﺮﮦ ﭼﮭﻮﮌ ﺁﺋﮯ ﮨﯿﮟ
ﮨﻤﯿﮟ ﻣﺮﻧﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺳﺐ ﮐﻮ ﯾﮧ ﺗﺎﮐﯿﺪ ﮐﺮﻧﺎ ﮨﮯ
ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﻣﺖ ﺑﺘﺎ ﺩﯾﻨﺎ ﮐﮧ ﮐﯿﺎ ﮐﯿﺎ ﭼﮭﻮﮌ ﺁﺋﮯ ﮨﯿﮟ
منور رانا