Sunday, February 12, 2017

دیس کی گلیاں ،محلے،گھر نہیں بھولے

ابھی تک دیس کی گلیاں ،محلے،گھر نہیں بھولے
وہ پگڈنڈی وہ برگد اور وہ کیکر نہیں بھولے

نہیں بھولے ابھی تک گاوں کی اُجلی حدیں صبحیں
پہاڑوں پر اُترتی شام کا منظر نہیں بھولے

وہ جس کے سائے کے نیچے بہت کھیلے تھے بچپن میں
تُم اس بیری کا کہتے ہو ہمیں کنکر نہیں بھولے

ابھی تک یادہیں وہ پیڑ جن پر جھولتے تھے ہم
لکھے تھےنام جن پروہ ہمیں پتھر نہیں  بھولے

وہ جن کے ہاتھ میں مٹی بھی آکر  سانس لیتی تھی
وہ بستی یاد ہے اب تک وہ کوزہ گر نہیں بھولے

گماں ہوتا تھا جن کے ھاتھ کے شیشوں پہ پانی کا
ہنر بے مثل تھا جن کا وہ شیشہ گر نہیں بھولے

اڑانیں سیکھ لی پھرسے،اُڑے بھی ہیں بہت لیکن
قفس میں رہ گئے تھے جو ہمیں وہ پر نہیں بھولے

ہماری آنکھ دریا تھی کہا جب الوداع اُس کو
مگر ہم آج تک اس کی وہ چشم تر نہیں بھولے

نائل رفیع

No comments:

Post a Comment