Wednesday, February 8, 2017

تم نہ سمجھو گے کسی طور نہیں سمجھو گے

تم نہ سمجھو گے کسی طور نہیں سمجھو گے
ایک___اقرار___پہ چپکے سے سحر ہوتی ہے
ایک  "اقرار" سے کھلتے ہیں کنول ہونٹوں کے
آنکھ بھی اشکوں کی برسات سے تر ہوتی ہے

کبھی تمہاری نگاہوں کی ادا سے میں نے
اپنی دھڑکن کو کئی خواب نئے سونپے تھے
تم کو تو یاد بھی وہ  "شام"  نہیں ہو شاید
دل نے جب درد کے آداب نئے سونپے تھے

عجیب شخص تھے، گو اجنبی رہے برسوں
ہر ایک راہ پہ مگر___دیپ___اک جلا دیتے
تم آرزو کا کوئی گیت گنگناتے ہوئے___
یہ چودھویں کا چاند، روز شب بلا لیتے

وہ چاندنی میرے خوابوں میں اب بھی زندہ ہے
کہ جس نے روح میں گلشن سے سجا رکھے تھے
اب بھی چاہو تو کبھی جھانک لو، آ کر   دل میں !
ہیں  "منور"  جو دئیے تم نے جلا رکھے تھے  !!

وقت بیتا ہے____مگر یاد کے دریچے پر  !
ان گنت لمحے گلابوں سے سجائے میں نے
اور کچھ آدھی ملاقاتوں کے بکھرے اوراق
اپنی آنکھوں کی کتابوں میں سجائے میں نے

تم کو معلوم نہیں، تم نہ جان پائے کبھی
کہ چاہتوں کے ستاروں کو کیسے پڑھتے ہیں ؟
میں تو قسمت کی لکیروں میں تمہیں دیکھتی تھی
تم نے سمجھا نہ لکیروں کو کیسے پڑھتے ہیں  !

کاش آ جائے اعتبار_____اس حقیقت پر  !
ہر ایک خواب کی  "تعبیر"  ہو نہیں سکتی
نظر چرا کے حقائق سے بھلا ، کیا حاصل  ؟
ہر ایک درد کی تشہیر نہیں ہو سکتی   !!   !

میری آنکھوں کی کسک، میرے رتجگوں کا سکوت
اب کوئی اور قیامت نہ کھڑی کر جائے   !!
بات آغاز میں تو کچھ بھی نہیں تھی___ لیکن !
سوچتی ہوں ، تمہیں پانے تلک نہ بڑھ جائے

مجھ کو اے کاش یقیں ہوتا اگر "جنموں" پر
میں تم کو اپنی دعاوں میں سجایا کرتی
اب کے جیون نہ سہی، اور کسی جیون میں
ہر ایک لحظہ تمہیں سامنے پایا کرتی   !

میں کسی بات پہ مغموم اگر ہو جاتی
تیرے ہونٹوں کی دعا دور اندھیرا کرتی
اداسیوں کی فضا مجھ کو ستاتی جب، تو
مسکراہٹ تمہاری نور بکھیرا کرتی

یہ کسی کو بھی تو معلوم نہ تھا کہ، اک دن
میری غزلوں میں تمہارا ہی سراپا ہو گا
میرا وجود رہے،  یا نہ رہے پر تم کو
میرا ہر شعر ، "داستان" سناتا ہو گا

مجھے یقیں ہے کسی موڑ پر ملو گے تم
میں ماہ و سال کے بھنور میں اگر کھو جاوں
میری عبادتیں  "تمام"  ہوئی ہیں تم پر  !
چلے بھی آو_____کہ میں گہری نیند سو جاوں   !

سجل فاروقی

No comments:

Post a Comment