Sunday, February 12, 2017

یہ اشکوں کے ستارے

تیری پلکوں پہ یہ اشکوں کے ستارے کیسے
تجھ کو غم ہے تری محبوب تجھے مل نہ سکی
اور جو زیست تراشی تھی ترے خوابوں نے
جب پڑی چوٹ حقائق کی تو وہ ٹوٹ گئی
تجھ کو معلوم ہے میں نے بھی محبت کی تھی
اور انجام محبت بھی ہے معلوم تجھے
تجھ سے پہلے بھی بجھے ہیں یہاں لاکھوں ہی چراغ
تیری ناکامی نئی بات نہیں دوست میرے
کس نے پائی ہے غم زیست کی تلخی سے نجات
چار و ناچار یہ زہراب سبھی پیتے ہیں
جاں لٹا دینے کے فرسودہ فسانوں پہ نہ جا
کون مرتا ہے محبت میں سبھی جیتے ہیں
وقت ہر زخم کو ہر غم کو مٹا دیتا ہے
وقت کے ساتھ یہ صدمہ بھی گزر جائے گا
اور یہ باتیں جو دہرائی ہیں میں نے اس وقت
تو بھی اک روز انہی باتوں کو دہرائے گا

No comments:

Post a Comment