وہ اکثر مجھ سے کہتا ہے...
یہ تلخی کیوں لٹاتی ہو...
کیوں ہر دم کرب سہتی ہو...
تم بدل گئی ہو...
تم پہلے جیسی نہیں ہو...
میں مسکراتی ہوں...
دل میں قہقہے لگاتی ہوں...
کہ یہ سوال تم پوچھ رہے ہو...
ذرا ٹهیرو ...
کچھ سال پیچھے چلتے ہیں...
میں ہر دم مسکراتی تھی...
گلوں میں کهلکهلاتی تھی..
خوشبو سے بات کرتی تھی..
میں رنگوں سے نبھاتی تھی...
مگر..
تم تو میرے چارہ گر تھے...
میرے کوزہ گر تهے...
میں تو تمہارے ہاتھوں میں...
دوبارہ کچی مٹی میں ڈهل گئی..
جیسے چاک پہ گھمایا...
اسی طرح چل گئی...
تم توڑتے رہے....
بناتے رہے مجھے...
بنا بنا کر پھر...
مٹاتے رہے مجھے...
میں تو وہ بنتی گئی...
جیسا تم نے چاہا تھا..
اور..
اب تم یہ کہتے ہو..
کہ میں اس طرح نہیں بن پائی...
میں تیرے معیار تک نہیں آ پائی..
تمہیں اپنی ہی تخلیق...
اچهی نہیں لگتی...
سمجھتے تم بھی ہو...
سمجھتی میں بھی ہوں..
کہ مٹی چاک پر جب رقص کرتی ہے...
تو ویسی ہی بنتی ہے جیسے تم بناتے ہو..
جیسے تم نچاتے ہو...
جیسے تم سجاتے ہو..
چاک پہ مٹی مٹ کر رہتی ہے..
اس کی مرضی نہیں چلتی...
یہ خدا کا ہی ظرف ہے زکی...
وہ جیسے چاہے بناتا ہے...
ہمیشہ ساتھ رہتا ہے..
ہمیشہ گلے لگاتا ہے...
چاک پہ مٹی کی مرضی نہیں چلتی...
وہ ویسی ہی بنتی ہے ...
جیسے تم بناتے ہو...!
(نملتہ زکی)
No comments:
Post a Comment