Sunday, March 26, 2017

خواب تو اپنے اختیار میں ہے

رات کے دوسرے کنارے پر
جانے کیا بات ہے کہ شام ڈھلے
خوف نادیدہ کہ اشارے پر
جھلملاتے ہوئے چراغ کی لَو
مجھ سے کہتی ہے " افتخار عارف ! "
رات کے دوسرے کنارے پر
" ایک رات اور انتظار میں ہے "
کوئی چپکے سے دل میں کہتا ہے
رات پہ بس اس چلے نہ چلے
خواب تو اپنے اختیار میں ہے

افتخار عارف​

جب میں نہیں ہوں گا

خام خیالی
نصیر احمد ناصر

جب میں نہیں ہوں گا
تو ہوا
چاروں طرف تنہا پھرے گی
بادل خالی خالی نظروں سے
زمین کی جانب دیکھیں گے
مینہ برسنا،
پھول کھلنا
اور تتلیاں اُڑنا بھول جائیں گی
گملوں میں پودے
کئی کئی دن پانی نہ ملنے پر
سوکھ جائیں گے
میز پر رکھا ہوا کھانا
میرے انتظار میں ٹھنڈا ہوتا رہے گا
نیم وا کھڑکیوں کے پردے
دھوپ، آندھی اور بارش میں
پھڑپھڑاتے
اور کمروں کے دروازے
بے مقصد کھلے اور بجتے رہیں گے
گھر میں فالتو بتیاں
جلتی رہیں گی
اور ہر ماہ
بجلی، گیس اور ٹیلیفون کے بلوں کی
آخری تاریخ گزر جایا کرے گی!!

مجھے خط ملا ہے غنیم کا

مجھے خط ملا ہے غنیم کا
بڑی عُجلتوں میں، لکھا ہُوا
کہیں،، رنجشوں کی کہانیاں
کہیں دھمکیوں کا ہے سلسلہ
مجھے کہہ دیا ہے امیر نے
کرو،،،، حُسنِ یار کا تذکرہ
تمہیں کیا پڑی ہے کہ رات دن
کہو،،،،،، حاکموں کو بُرا بھلا
تمہیں،،، فکرِ عمرِ عزیز ہے
تو نہ حاکموں کو خفا کرو
جو امیرِ شہر کہے تُمہیں
وہی شاعری میں کہا کرو
کوئی واردات کہ دن کی ہو
کوئی سانحہ کسی رات ہو
نہ امیرِ شہر کا زکر ہو
نہ غنیمِ وقت کی بات ہو
کہیں تار تار ہوں،، عصمتیں
میرے دوستوں کو نہ دوش دو
جو کہیں ہو ڈاکہ زنی اگر
تو نہ کوتوال کا،،،،، نام لو
کسی تاک میں ہیں لگے ہُوئے
میرے جاں نثار،،،،، گلی گلی
ہیں میرے اشارے کے مُنتظر
میرے عسکری میرے لشکری
جو تُمہارے جیسے جوان تھے
کبھی،،، میرے آگے رُکے نہیں
انہیں اس جہاں سے اُٹھا دِیا
وہ جو میرے آگے جُھکے نہیں
جنہیں،، مال و جان عزیز تھے
وہ تو میرے ڈر سے پِگھل گئے
جو تمہاری طرح اُٹھے بھی تو
اُنہیں بم کے شعلے نگل گئے
میرے جاں نثاروں کو حُکم ہے
کہ،،،،،، گلی گلی یہ پیام دیں
جو امیرِ شہر کا حُکم ہے
بِنا اعتراض،، وہ مان لیں
"جو میرے مفاد کے حق میں ہیں
وہی،،،،،،، عدلیہ میں رہا کریں"
مجھے جو بھی دل سے قبول ہوں
سبھی فیصلے،،،،،،، وہ ہُوا کریں
جنہیں مجھ کچھ نہیں واسطہ
انہیں،،،، اپنے حال پہ چھوڑ دو
وہ جو سرکشی کے ہوں مرتکب
انہیں،،،،، گردنوں سے مروڑ دو
وہ جو بے ضمیر ہیں شہر میں
اُنہیں،،،، زر کا سکہ اُچھال دو
جنہیں،،،،، اپنے درش عزیز ہوں
اُنہیں کال کوٹھڑی میں ڈال دو
جو میرا خطیب کہے تمہیں
وہی اصل ہے، اسے مان لو
جو میرا امام،،،،،،، بیاں کرے
وہی دین ہے ، سبھی جان لو
جو غریب ہیں میرے شہر میں
انہیں بُھوک پیاس کی مار دو
کوئی اپنا حق جو طلب کرے
تو اسے،، زمین میں اتار دو
جو میرے حبیب و رفیق ہیں
انہیں، خُوب مال و منال دو
جو، میرے خلاف ہیں بولتے
انہیں، نوکری سےنکال دو
جو ہیں بے خطاء وہی در بدر
یہ عجیب طرزِ نصاب ہے
جو گُناہ کریں وہی معتبر
یہ عجیب روزِ حساب ہے

کیا شے

وہ کیا شے ہے؟
ذرا سی دیر میں
کرنوں کی صورت
ذہن کے تاریک گوشوں میں اجالا کرنے لگتی ہے
کبھی پھولوں کے عارض پرچمکتے اوس دانوں
سبز پتوں میں گندھی روئیدگی سے جھانکتی ہے
روح کو سرشار کرتی ہے
طلسمی دائرے بنتی،ہوا کے نرم رو جھونکوں میں
جھولا جھولتی
آنکھوں میں میٹھی نیند بھرتی
ان گنت خوابوں کےتانے بننے لگتی ہے
وہ کیا شے ہے؟
جسے محسوس کرتے ہیں
مگر چھونے کی چاہت میں
یہ عمریں بیت جاتی ہیں
تحیر سے تیقن کی حسیں وادی میں کوئی
زندگی بھر رقص کرتا ہے
مگر یہ رقص بھی ان دائیروں کو مس نہیں کرتا
جہاں وہ سرخ پھولوں سے مزین سیج پر
ہر دم بدلتے موسموں میں
ذائقے تقسیم کرتی ہے
وہ کیا شے ہے؟

یوسف خالد

Saturday, March 25, 2017

جو تیرے ساتھ گزرے ہیں انہیں لمحوں کی قیمت یے

جو تیرے ساتھ گزرے ہیں انہیں لمحوں کی قیمت یے
بچھڑ کر تجھ سے یوں لگتا ہے،سب کچھ بے حقیقت ہے

مجھے تیری ستم پرور طبیعت کا نہیں شکوہ
مجھے اپنے دلِ خوش فہم سے ساری شکایت ہے

ترے طرزِ عمل کو میں سمجھ پایا نہیں اب تک
یہ تیرے اور میرے درمیاں کیسی محبت ہے

مری خاطر ترے دل میں اگر جذبہ نہیں کوئی
تو پھر اس راہ و رسمِ دوستی کی کیا ضرورت ہے

مری سانسیں ابھی تک تیری خوشبو سے مہکتی ہے
ابھی تک میرے حصے میں یہ بے پایاں مسرت ہے

مرے گھر شام سے پہلے تری یادیں اترتی ہیں
ترا بخشا ہوا ذوقِ طلب اب بھی سلامت ہے

مری ہر سوچ میں تیری محبت کار فرما ہے
مرا ہر خواب مثلِ چاندنی شب خوبصورت ہے

یوسف خالد

Thursday, March 23, 2017

یہ اُداس اُداس ٹھنڈک

یہ اُداس اُداس ٹھنڈک جو اسیر ہے پون میں
کہیں بجلیاں نہ بھر دے کسی گوشہ چمن میں

یہ عجیب فصلِ گل ہے کہ کسی بھی گل کی رنگت
نہ جچی مری نظر میں، نہ رچی تِرے بدن میں

میں طلوعِ نَو سے اب بھی ، مطمئن نہیں ہوں
ترا حسن بھی تو ہوتا کسی خوشنما کِرن میں

سرِبام بھی پُکارا، لبِ دار بھی صدا دی
میں کہاں کہاں نہ پہنچا، تِری دید کی لگن میں

مری مُفلسی سے بچ کر کہیں اور جانے والے
یہ سکوں نہ مل سکے گا تجھے ریشمی کفن میں

میں لیے لیے پھرا ہوں غمِ زندگی کا لاشہ
کبھی اپنی خلوتوں میں کبھی تیری انجمن میں

تیرے غم میں بہہ گیا ہے مِرا ایک ایک آنسو
نہیں اب کوئی ستارا جو چمک سکے گگن میں

میں قتیل وہ مسافر ہوں جہانِ بے بسی کا
جو بھٹک کے رہ گیا ہو کسی اجنبی وطن میں !

Friday, March 17, 2017

وہ سارے سمے جو بیت گئے

وہ سارے سمے جو بیت گئے
===============
وہ سارے سَمے جو بیت گئے
کیا ہار گئے ، کیا جیت گئے
جتنے دکھ سکھ کے ریلے تھے
ہم سب نے مل کر جھیلے تھے
اب شاید کچھ بھی یاد نہیں
کبھی وقت ملا تو سوچیں گے
آپس کے پیار گھروندوں کو
گُڑیوں کے کھیل کھلونوں کو
گیتوں سے مہکتی کیاری کو
آنگن کی پھل پُھلواری کو
دھرتی پر امن کی خواہش کو
موسم کی پہلی بارش کو
کن ہاتھوں نے بے حال کیا
کن قدموں سے پامال ہوئے
وہ سارے سَمے جو بیت گئے
مل جُل کر کتنے سال ہوئے
یہ سال ، مہینے ، دن ، گھڑیاں
ہم سب سے آگے نکل گئے
ہم جیون رتھ میں جُڑے ہوئے
کبھی سنبھل گئے ، کبھی پھسل گئے
دامن میں صبر کی مایا ہے
کچھ آس امید کی چھایا ہے
ہر راہ میں کانٹے پڑے ہوئے
ہر موڑ پہ دکھ ہیں کھڑے ہوئے
ہم بڑے ہوئے
اب لوری پاس نہیں رہتی
ہمیں نیند کی آس نہیں رہتی
مری بات سنو
جب ہاں انکار میں لپٹی ہو
تصویر غبار میں لپٹی ہو
کہیں رشتے ٹوٹنے والے ہوں
یا اپنے چھوٹنے والے ہوں
جب ہر جانب دیواریں ہوں
اور پاؤں پڑی دستاریں ہوں
جب سچی بات پہ ہاتھ اُٹھیں
پھر اُٹھنے والے ہاتھ کٹیں
جب جھوٹ سے اصل بدل جائے
انصاف کی شکل بدل جائے
جب امن کی راہ نہ ملتی ہو
اور کہیں پناہ نہ ملتی ہو
کہیں ظلم کی آری چلتی ہو
اور دلوں میں نفرت پلتی ہو
کانٹون سے بھرے جنگل میں اگر
رنگوں کی سواری جلتی ہو
ایسے میں لہُو کی خوشبو سے
مَن پھلواری مہکا دینا
جہاں جیون سُر خاموش ہوں تم
آواز کے دیپ جلا دینا
جب سچ باتوں پر ہاتھ اُٹھیں
تم اپنا ہاتھ اُٹھا دینا !
جب کوئی نئی دیوار گرے
تم آنچل کو لہرا دینا
اور تِیرہ شَبی کے دامن میں
اِک ایسی آگ لگا دینا
جو نئی سحر کی آمد تک
اس دھرتی کی پیشانی سے
تاریکی کو بے دخل کرے
اور اندھیاروں کو قتل کرے
وہ سارے سَمے جو بیت گئے
کیا ہار گئے کیا جیت گئے
جتنے دکھ سکھ کے ریلے تھے
ہم سب نے مل کر جھیلے تھے !!

میرا بھی اک خواب ہے

میرا بھی اک خواب ہے
کبھی مجھ پہ بھی تم کچھ لکھو
کبھی مجھے بھی گنگنائو تم
نا تو میں لڑکی ہوں سفید گلاب سی
نا ہی خواب تمہارا کوئی میں ہوں
ہاں اک حقیقت ہوں میں
چاہو تو ضد بنا لو
پا لو مجھے سب سے
اپنے بل بوتے پہ
میرا بھی اک خواب ہے
تم سنگ مل کے اک مکان بنائو
پھر اس مکان کو روپ دوں اک گھر کا
جس میں یقین کی مہک ہو ہر سو
جہاں روز کی نوک جھوک کی جھنکار ہو
جس میں پیار کی شبنم سی پھوار ہو
جہاں درد سانجھے ہوں
جہاں رونقیں زندگی کا پتا دیتی ہوں
اک خواب ہے میرا بھی
تمہارے ہاتھوں سے سج کے کوئی اپسرا
کوئی پری لگوں میں
لوگ دیکھیں تو رشک کریں
اور میں فخر و محبت آنکھوں میں لیے
تمہاری طرف اشارہ کر کے کہوں
اس زمیں زادے نے مجھے معتبر کیا ہے
اپنا پیار ، عزت، یقین اور وفا سونپ کہ
اور جب لوگ مجھے چھو کر دیکھنے کو
ہاتھ بڑھائیں تو تم سامنے آ کر کہوں
یہ صرف میری ہے
میری عزت ہے
میرا مان ہے
میری امانت ہے
تم لوگ لوٹ جائو اور چاہو تو
اپنی زندگی کو بھی ایسا ہی مکمل بنا لو
ہم نے مثال قائم کر دی
اور لوگ دلوں میں عہد لے کے لوٹ جائیں کہ
انہیں بھی ہم جیسا بننا ہے ۔
میرا بھی اک خواب ہے
گو کہ میں خود اک حقیقت ہوں
پر میرا بھی اک خواب ہے ۔۔۔۔
فاکحہ

ﭼﻠﻮ ﺍﮎ ﻧﯿﻨﺪ ﺳﻮ ﺟﺎﺋﯿﮟ

ﮐﺒﮭﯽ ﺩﻝ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮨﮯ ﻧﺎ
ﮐﮧ ﮨﻢ ﺩﻧﯿﺎ ﺳﮯ ﭼﮭﭗ ﺟﺎﺋﯿﮟ
ﻧﮧ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﻨﻈﺮ
... ﻧﮧ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺍﮨﺸﯿﮟ ﺑﺎﻗﯽ
ﻧﮧ ﺩﻟﮑﺶ ﺧﻮﺍﺏ ﭘﻠﮑﻮﮞ ﭘﺮ
ﻧﮧ ﺍﻣﯿﺪﯾﮟ ﻧﮕﺎﮨﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﻧﮧ ﭘﺎﺅﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﻔﺮ ﮐﻮﺋﯽ
ﻧﮧ ﺁﺳﯿﮟ ﺩﻝ ﮐﻮ ﺑﮩﻼﺋﯿﮟ
ﺭﮔﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺩﻭﮌﺗﮯ ﺁﻧﺴﻮ
ﮐﮩﯿﮟ ﺗﻮ ﺍﺏ ﭨﮭﮩﺮ ﺟﺎﺋﯿﮟ
ﮔﺮﮮ ﭘﺘﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﺴﺘﺮ ﭘﺮ
ﭼﻠﻮ ﺍﮎ ﻧﯿﻨﺪ ﺳﻮ ﺟﺎﺋﯿﮟ

تصویریں مر جاتئ ہیں

جب تصویریں مر جاتی ہیں
اور مناظر کا نوحہ پڑھتی آنکھوں میں
یادوں کا بلوہ ہوتا ہے
کیا تاریخ تھی ؟
جس دن پہلی بار ملے تھے
کیسا دن تھا ؟
جب اس کی آنکھوں نے کہانی جاری کی تھی
دوست !
بچھڑ جانے والوں کے آنسو ایک سے ہی ہوتے ہیں
ان لوگوں پرغصہ مت کر
یہ مردہ تصویریں دیکھ کے رونے وانے
کہیں بہت زندہ آنکھوں کے ڈسے ہوئے ہیں
کہیں کسی کے تیز بھروسے کی تلوار سے قتل ہوئے ہیں
ان صُمُّ بُکمُّ لوگوں کا حال کبھی جھوٹا نہیں ہوتا
اور یہ حال تبھی ہوتا ہے
جب تعبیریں مر جاتی ہیں
سب تصویریں مر جاتئ ہیں !

کبھی مایوس مت ہونا،

کبھی مایوس مت ہونا،
اندھیرا کتنا گہرا ہو،
سحر کی راہ میں حائل،
کبھی بھی ہو نہیں سکتا،
سویرا ہو کے رہتا ہے،
کبھی مایوس مت ہونا،
امیدوں کے سمندر میں،
تلاطم آتے رہتے ہیں،
سفینے ڈوبتے بھی ہیں،
سفر لیکن نہیں رکتا،
مسافر ٹوٹ جاتے ہیں،
مگر مانجھی نہیں تھکتا،
سفر طے ہو کے رہتا ہے،
کبھی مایوس مت ہونا،
خدا حاضر ہے ناظر بھی،
خدا ظاہر ہے منظر بھی،
وہی ہے حال سے واقف،
وہی سینوں کے اندر بھی،
مصیبت کے اندھیروں میں،
کبھی تم مانگ کر دیکھو،
تمہاری آنکھ کے آنسو،
یوں ہی ڈھلنے نہیں دے گا،
تمہاری آس کی گاگر،
کبھی گرنے نہیں دے گا،
ہوا کتنی مخالف ہو،
تمہیں مڑنے نہیں دے گا،
کبھی مایوس مت ہونا،
وہاں انصاف کی چکّی،
ذرا دھیرے سے چلتی ہے،
مگر چکّی کے پاٹوں میں،
بہت باریک پستا ہے،
تمہارے ایک کا بدلہ،
وہاں ستر سے زیادہ ہے،
نیت تلتی ہے پلڑوں میں،
عمل ناپے نہیں جاتے،
وہاں جو ہاتھ اٹھتے ہیں،
کبھی خالی نہیں آتے،
ذرا سی دیر لگتی ہے،
مگر وہ دے کے رہتا ہے،
کبھی مایوس مت ہونا،
دریدہ دامنوں کو وہ،
رفو کرتا ہے رحمت سے،
اگر کش کول ٹوٹا ہو،
تو وہ بھرتا ہے نعمت سے،
کبھی ایوبؑ کی خاطر،
زمیں چشمہ ابلتی ہے،
کہیں یونسؑ کے ہونٹوں پر،
اگر فریاد اٹھتی ہے،
کسی بنجر جزیرے پر،
کدو کی بیل اگتی ہے،
جو سایہ بھی ہے پانی بھی،
علاجِ نا توانی بھی،
کبھی مایوس مت ہونا،
تمہارے دل کی ٹیسوں کو،
یوں ہی دُکھنے نہیں دے گا،
تمنا کا دیا عاصمؔ کبھی
بجھنے نہیں دے گا،
کبھی وہ آس کا دریا،
کہیں رکنے نہیں دے گا،
کبھی مایوس مت ہونا،
جب اُس کے رحم کا ساگر،
چھلک کے جوش کھاتا ہے،
قہر ڈھاتا ہوا سورج،
یکا یک کانپ جاتا ہے،
ہوا اٹھتی ہے لہرا کر،
گھٹا سجدے میں گرتی ہے،
جہاں دھرتی ترستی ہے،
وہیں رحمت برستی ہے،
ترستے ریگ زاروں پر،
ابر بہہ کے ہی رہتا ہے،
نظر وہ اٹھ کے رہتی ہے،
کرم ہو کے ہی رہتا ہے،
امیدوں کا چمکتا دن،
امر ہو کے ہی رہتا ہے،
کبھی مایوس مت ہونا‘

مجھے زندگی ہے عزیز تر،

مجھے آرزوئے سحر رہی،
یونہی رات بڑی دیر تک ....
نہ بکھر سکا، نہ سمٹ سکا،
یونہی رات بڑی دیر تک ....
ہیں بہت عذاب اور اکیلے ہم،
شبِ غم بھی میری طویل تر ...
رہی زندگی بھی سراب اور،
رہی آنکھ تر بڑی دیر تک ....
یہاں ہر طرف ہے عجب سماں،
سبھی خود پسند
سبھی خود نما،
دل بےقرار کو نہ ملا،
کوئی چارہ گر بڑی دیر تک ....
مجھے زندگی ہے عزیز تر،
اسی واسطے میرے ہمسفر ....
مجھے قطرہ قطرہ پلا زہر،
جو کرے اثر بڑی دیر تک .....

فیصل بلوچ

میں جرمِ خاموشی کی صفائی نہیں دیتا

میں جرمِ خاموشی کی صفائی نہیں دیتا
ظالم اسے کہیئے جو دہائی نہیں دیتا

کہتا ہے کہ آواز یہیں چھوڑ کے جاؤ
میں ورنہ تمہیں اذنِ رہائی نہیں دیتا

گھاؤ بھی لگے جاتے ہیں دیوارِ بدن پر
اور دستِ ستمگر بھی دکھائی نہیں دیتا

آنکھیں بھی ہیں رستہ بھی چراغوں کی ضیاء بھی
سب کچھ ہے مگر کچھ بھی سجھائی نہیں دیتا

اب اپنی زمیں چاند کی مانند ہے انورؔ
بولیں تو کسی کوبھی سنائی بھی نہیں دیتا

پروفیسر انورؔ مسعود

کوئی تنہائیوں میں مجھے سوچتا ہے

کوئی تنہائیوں میں مجھے سوچتا ہے کوئی اب بھی میرا ہے
یہ عجیب شکوک و شبہات تھے جو دل سے نکالے نہ گۓ

میری چشم آغوش نے پالے تھے چند اشک بہہ گۓ
یہ وہ بچے تھے جو اک ماں سے سنبھالے نہ گۓ

شہر بھر میں بہت  چرچا ہوا میری آہ جگر کا
مگر اس دل آشوب تک دل فغاں کہ نالے نہ گۓ

لوگ  کیسے  دیدہ دلیری سے  کردار کشی  کرتے  ہیں
ہم سے تو  کسی کی عظمت پہ کیچڑ اچھالے نہ گۓ

یہ زندگی یہ متاع بے بہا بڑی بیش قیمت ہوتی ہے
جب انہوں نے مانگی وہ جان سے پیارے ٹالے نہ گۓ

یہ تعلق جسم و جاں سے بڑھ کہ روح کا تعلق نکلا
جان تن سے نکل گئی مگر وہ دھان سے نکالے نہ گۓ
_____________
ندیم مغل

صراف

ساٹھ کے تیس، نہیں یہ تو نہیں ہو سکتا

زرِ خالص کی انگوٹھی ہے ذرا غور سے دیکھ

کسی پتھّر پہ رگڑ اِس کو کسوٹی پہ پرکھ

ہر طرح جانچ ہر انداز ہر اِک طَور سے دیکھ

مجھ پہ روشن ہے کہ اِس جنسِ گراں مایہ کو

میرے افلاس نے کم نرخ بنا رکھا ہے

دیکھ کر میری نگاہوں میں طلب کی شدّت

تو نے انصاف کو نیلام چڑھا رکھا ہے

جانتا ہوں تری دکاں کے یہ زرّیں زیور

یہ گلو بند یہ کنگن یہ طلائی پیسے

یہ زر و سیم کی اینٹوں سے لدی الماری

کسی شدّاد کا تابُوت دھرا ہو جیسے

کتنے مجبوروں نے بڑھتی ہوئی حاجت کے لئے

کیسے حالات میں کس نرخ یہاں بیچ دیے

کتنے ناداروں نے افلاس کے چکراؤ میں

پہلے تو رہن کیے بعد ازاں بیچ دیے

تیری میزاں کے یہ بے رحم سُنہرے پلڑے

ایک جلّاد کی تلوار رہے ہیں اب تک

گرسنہ آنکھوں کے کشکول، ہوس کے مقتل

ہر نئے خوں کے خریدار رہے ہیں اب تک

ساٹھ کے تیس نہیں، تیس کے پندرہ دے دے

اپنی مجبوری کا اظہار نہیں کر سکتا

آج اک تلخ ضرورت ہے مرے پیشِ نظر

میں کسی رنگ سے انکار نہیں کر سکتا

٭٭٭

Friday, March 10, 2017

اپنے ہاتھوں کی لکیروں میں بسا لے مجھ کو


میں ہوں تیرا، تو نصیب اپنا بنا لے مجھ کو
میں جو کانٹا ہوں تو چل مجھ سے بچا کر دامن
میں ہوں گر پھول تو جوڑے میں سجا لے مجھ کو
میں کھلے در کے کسی گھر کا ہوں ساماں پیارے
تو دبے پاؤں کبھی آ کے چرالے مجھ کو
ترک آلفت کی قسم بھی کوئی ہوتی ہے قسم
تو کبھی یاد تو کر، بھولنے والے مجھ کو
مجھ سے تو پوچھنے آیا ہے وفا کے معنی
یہ تری سادہ دلی مار نہ ڈالے مجھ کو
میں سمندر بھی ہوں، موتی بھی ہوں، غوطہ زن بھی
کوئی بھی نام مرا لے کے بلا لے مجھ کو
تو نے دیکھا نہیں آئینے سے آگے کچھ بھی
خود پرستی میں کہیں تو نہ گنوا لے مجھ کو
کل کی بات اور ہے، میں اب سا رہوں نہ رہوں
جتنا جی چاہے ترا، آج ستا لے مجھ کو
باندھ کر سنگ وفا تو نے کر دیا غرقاب
کون ایسا ہے جو اب ڈھونڈ نکالے مجھ کو
خود کو میں بانٹ نہ ڈالوں کہیں دامن دامن
کر دیا تو نے اگر میرے حوالے مجھ کو
بادہ پھر بادہ ہے، میں زہر بھی پی جاؤں قتیل
شرط یہ ہے، کوئی بانہوں میں سنبھالے مجھ کو

(قتیل شفائی)

ﺫﺭﺍ ﯾﺎﺩ ﮐﺮ...!! ﻣﯿﺮﮮ ﮨﻢ ﻧﻔﺲ..

ﺫﺭﺍ ﯾﺎﺩ ﮐﺮ...!!
ﻣﯿﺮﮮ ﮨﻢ ﻧﻔﺲ..
ﻣﯿﺮﺍ ﺩﻝ ﺟﻮ ﺗﻢ ﭘﮧ ﻧﺜﺎﺭ ﺗﮭﺎ..
ﻭﮦ ﮈﺭﺍ ﮈﺭﺍ ﺳﺎ ﺟﻮ ﭘﯿﺎﺭ ﺗﮭﺎ..
ﺗﯿﺮﮮ ﺷﻮﺥ ﻗﺪﻣﻮﮞ ﮐﯽ ﺩﮬﻮﻝ ﺗﮭﯽ..
ﺗﯿﺮﺍ ﺑﮭﯽ ﺩﻝ ﺑﮯ ﻗﺮﺍﺭ ﺗﮭﺎ..
ﺫﺭﺍ ﯾﺎﺩ ﮐﺮ...!!
ﻣﯿﺮﺍ ﻏﻢ ﺗﻮ ﮨﮯ ﻏﻢ ﻣﺒﺘﻼ ..
ﻣﯿﮟ ﺟﯿﺎ ﻣﮕﺮ ﻣﯿﮟ ﺟﯿﺎ ﻧﮩﯿﮟ ..
ﺗﯿﺮﺍ ﻏﻢ ﮨﯿﮟ ﺗﯿﺮﯼ ﻧﺪﺍﻣﺘﯿﮟ ..
ﺗﻮ ﺟﯿﺎ ﻣﮕﺮ ﺗﻮ ﻣﺮﺍ ﻧﮩﯿﮟ ..
ﺗﺠﮭﮯ ﻋﻤﺮ ﺑﮭﺮ ﮐﯽ ﺳﺰﺍ ﻣﻠﯽ ..
ﺗﯿﺮﺍ ﺟﺮﻡ,ﺟﺮﻡ ﻓﺮﺍﺭ ﺗﮭﺎ ..
ﺗﯿﺮﺍ ﺑﮭﯽ ﺩﻝ ﺑﮯ ﻗﺮﺍﺭ ﺗﮭﺎ ..
ﺫﺭﺍ ﯾﺎﺩ ﮐﺮ ﻣﯿﺮﮮ ﮨﻢ ﻧﻔﺲ ...
.ﻭﮦ ﮔﮭﭩﯽ ﮔﮭﭩﯽ ﺳﯽ ﻧﻮﺍﺋﮯﺩﻝ ..
ﻣﯿﺮﯼ ﺁﮦﺩﺭﺩ ﮐﺎ ﺳﺎﺯ ﺗﮭﯽ ..
ﺟﻮ ﭘﮍﮬﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﺷﮑﻮﮞ ﻧﮯ ﭨﻮﭦ ﮐﮯ ..
ﮐﺴﯽ ﺑﮯﺧﺪﺍ ﮐﯽ ﻧﻤﺎﺯ ﺗﮭﯽ ..
ﺟﺴﮯ ﺭﻭ ﺩﯾﺎ ﮨﮯ ﺯﺭﺍ ﺯﺭﺍ ..
ﻣﯿﺮﯼ ﺑﮯ ﺑﺴﯽ ﮐﺎ ﻓﺸﺎﺭ ﺗﮭﺎ ..
ﺗﯿﺮﺍ ﺑﮭﯽ ﺩﻝ ﺑﮯ ﻗﺮﺍﺭ ﺗﮭﺎ ..
ﺫﺭﺍ ﯾﺎﺩ ﮐﺮ...!!

قصے جھوٹے ہیں سب کتابوں میں

قصے جھوٹے ہیں سب کتابوں میں
سچ ہے ناپید اب نصابوں میں
ایسی اس دور کو لگی ہے نظر
جس کو دیکھو وہی عذابوں میں
اب تصنع پہ زور ہے سارا
خار ملتے نہیں گلابوں میں
دین دنیا میں گم ہوا ایسا
شر بھی شامل ہوئے ثوابوں میں
پڑے زاہد کی عقل پر پردے
ہوش ڈھونڈے وہ اب شرابوں میں
جو یہ سمجھا کہ منزلیں اس کی
گم ہوا ہے وہی سرابوں میں
اب یہاں جو ذرا سوال کرے
دفن کرتے اسے جوابوں میں
عشق بنیے کی راہ چل نکلا
ہر گھڑی غرق ہے حسابوں میں
اب نہ کچے گھڑوں کا دور رہا
نہ مروت رہی چنابوں میں
پاک دامن ہے صرف میرِ شہر
عیب سارے ہیں ہم خرابوں میں
کیا کہیں عہد کو اب اس ابرک
آپ شامل ہوئے جنابوں میں
ہم نہ پہچانے زندگی تجھ کو
جب ملی تو ملی نقابوں میں

اتباف ابرک

Saturday, March 4, 2017

ﺫﺭﺍ ﯾﺎﺩ ﮐﺮ

ﺫﺭﺍ ﯾﺎﺩ ﮐﺮ...!!
ﻣﯿﺮﮮ ﮨﻢ ﻧﻔﺲ..
ﻣﯿﺮﺍ ﺩﻝ ﺟﻮ ﺗﻢ ﭘﮧ ﻧﺜﺎﺭ ﺗﮭﺎ..
ﻭﮦ ﮈﺭﺍ ﮈﺭﺍ ﺳﺎ ﺟﻮ ﭘﯿﺎﺭ ﺗﮭﺎ..
ﺗﯿﺮﮮ ﺷﻮﺥ ﻗﺪﻣﻮﮞ ﮐﯽ ﺩﮬﻮﻝ ﺗﮭﯽ..
ﺗﯿﺮﺍ ﺑﮭﯽ ﺩﻝ ﺑﮯ ﻗﺮﺍﺭ ﺗﮭﺎ..
ﺫﺭﺍ ﯾﺎﺩ ﮐﺮ...!!
ﻣﯿﺮﺍ ﻏﻢ ﺗﻮ ﮨﮯ ﻏﻢ ﻣﺒﺘﻼ ..
ﻣﯿﮟ ﺟﯿﺎ ﻣﮕﺮ ﻣﯿﮟ ﺟﯿﺎ ﻧﮩﯿﮟ ..
ﺗﯿﺮﺍ ﻏﻢ ﮨﯿﮟ ﺗﯿﺮﯼ ﻧﺪﺍﻣﺘﯿﮟ ..
ﺗﻮ ﺟﯿﺎ ﻣﮕﺮ ﺗﻮ ﻣﺮﺍ ﻧﮩﯿﮟ ..
ﺗﺠﮭﮯ ﻋﻤﺮ ﺑﮭﺮ ﮐﯽ ﺳﺰﺍ ﻣﻠﯽ ..
ﺗﯿﺮﺍ ﺟﺮﻡ،ﺟﺮﻡ ﻓﺮﺍﺭ ﺗﮭﺎ ..
ﺗﯿﺮﺍ ﺑﮭﯽ ﺩﻝ ﺑﮯ ﻗﺮﺍﺭ ﺗﮭﺎ ..
ﺫﺭﺍ ﯾﺎﺩ ﮐﺮ ﻣﯿﺮﮮ ﮨﻢ ﻧﻔﺲ ...
.ﻭﮦ ﮔُﮭﭩﯽ ﮔُﮭﭩﯽ ﺳﯽ ﻧﻮﺍﺋﮯِ ﺩﻝ ..
ﻣﯿﺮﯼ ﺁﮦِ ﺩﺭﺩ ﮐﺎ ﺳﺎﺯ ﺗﮭﯽ ..
ﺟﻮ ﭘﮍﮬﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﺷﮑﻮﮞ ﻧﮯ ﭨﻮﭦ ﮐﮯ ..
ﮐﺴﯽ ﺑﮯﺧﺪﺍ ﮐﯽ ﻧﻤﺎﺯ ﺗﮭﯽ ..
ﺟﺴﮯ ﺭﻭ ﺩﯾﺎ ﮨﮯ ﺯﺭﺍ ﺯﺭﺍ ..
ﻣﯿﺮﯼ ﺑﮯ ﺑﺴﯽ ﮐﺎ ﻓﺸﺎﺭ ﺗﮭﺎ ..
ﺗﯿﺮﺍ ﺑﮭﯽ ﺩﻝ ﺑﮯ ﻗﺮﺍﺭ ﺗﮭﺎ ..
ﺫﺭﺍ ﯾﺎﺩ ﮐﺮ...!!

Wednesday, March 1, 2017

اے دل بے خبر

"امجد اسلام امجد""
اے دل بے خبر

جو ہوا جا چکی اب نہیں آئے گی

جو شجر ٹوٹ جاتا ہے پھلتا نہیں

واپسی موسموں کا مقدر تو ہے

جو سماں بیت جائے پلٹتا نہیں

جانے والے نہیں لوٹتے عمر بھر

اب کسے ڈھونڈتا ہے سر رہ گزر

اے دل کم نظر اے مرے بے خبر اے مرے ہم سفر

وہ تو خوشبو تھا اگلے نگر جا چکا

چاندنی تھا ہوا صرف رنگ قمر

خواب تھا آنکھ کھلتے ہی اوجھل ہوا

پیڑ تھا رت بدلتے ہوا بے ثمر

اے دل بے اثر اے مرے چارہ گر

یہ ہے کس کو خبر!

کب ہوائے سفر کا اشارہ ملے!

کب کھلیں ساحلوں پر سفینوں کے پر

کون جانے کہاں منزل موج ہے!

کس جزیرے پہ ہے شاہ زادی کا گھر اے مرے چارہ گر

اے دل بے خبر کم نظر معتبر

تو کہ مدت سے ہے زیر بار سفر

بے قرار سفر

ریل کی بے ہنر پٹریوں کی طرح

آس کے بے ثمر موسموں کی طرح

بے جہت منزلوں کی مسافت میں ہے

رستہ بھولے ہوئے رہرووں کی طرح

چوب نار سفر

اعتبار نظر کس گماں پر کریں

اے دل بے بصر

یہ تو ساحل پہ بھی دیکھتی ہے بھنور

ریت میں کشت کرتی ہے آب بقا

کھولتی ہے ہواؤں میں باب اثر

تجھ کو رکھتی ہے یہ زیب دار سفر بے قرار سفر

اے دل بے ہنر

گرم سانسوں کی وہ خوشبوئیں بھول جا

وہ چہکتی ہوئی دھڑکنیں بھول جا

بھول جا نرم ہونٹوں کی شادابیاں

حرف اقرار کی لذتیں بھول جا

بھول جا وہ ہوا بھول جا وہ نگر

کون جانے کہاں روشنی کھو گئی

لٹ گیا ہے کہاں کاروان سحر

اب کہاں گیسوؤں کے وہ سائے کہاں

اس کی آہٹ سے چمکے ہوئے بام و در اے دل بے بصر

رنگ آسودگی کے تماشے کہاں

جھٹپٹا ہے یہاں رہ گزر رہ گزر

وہ تو خوشبو تھا اگلے نگر جا چکا

اب کسے ڈھونڈھتا ہے ارے بے خبر

جانے والے نہیں لوٹتے عمر بھر

اے دل کم نظر اے مرے چارہ گر!!!!!!