قصے جھوٹے ہیں سب کتابوں میں
سچ ہے ناپید اب نصابوں میں
ایسی اس دور کو لگی ہے نظر
جس کو دیکھو وہی عذابوں میں
اب تصنع پہ زور ہے سارا
خار ملتے نہیں گلابوں میں
دین دنیا میں گم ہوا ایسا
شر بھی شامل ہوئے ثوابوں میں
پڑے زاہد کی عقل پر پردے
ہوش ڈھونڈے وہ اب شرابوں میں
جو یہ سمجھا کہ منزلیں اس کی
گم ہوا ہے وہی سرابوں میں
اب یہاں جو ذرا سوال کرے
دفن کرتے اسے جوابوں میں
عشق بنیے کی راہ چل نکلا
ہر گھڑی غرق ہے حسابوں میں
اب نہ کچے گھڑوں کا دور رہا
نہ مروت رہی چنابوں میں
پاک دامن ہے صرف میرِ شہر
عیب سارے ہیں ہم خرابوں میں
کیا کہیں عہد کو اب اس ابرک
آپ شامل ہوئے جنابوں میں
ہم نہ پہچانے زندگی تجھ کو
جب ملی تو ملی نقابوں میں
اتباف ابرک
No comments:
Post a Comment