یہ اُداس اُداس ٹھنڈک جو اسیر ہے پون میں
کہیں بجلیاں نہ بھر دے کسی گوشہ چمن میں
یہ عجیب فصلِ گل ہے کہ کسی بھی گل کی رنگت
نہ جچی مری نظر میں، نہ رچی تِرے بدن میں
میں طلوعِ نَو سے اب بھی ، مطمئن نہیں ہوں
ترا حسن بھی تو ہوتا کسی خوشنما کِرن میں
سرِبام بھی پُکارا، لبِ دار بھی صدا دی
میں کہاں کہاں نہ پہنچا، تِری دید کی لگن میں
مری مُفلسی سے بچ کر کہیں اور جانے والے
یہ سکوں نہ مل سکے گا تجھے ریشمی کفن میں
میں لیے لیے پھرا ہوں غمِ زندگی کا لاشہ
کبھی اپنی خلوتوں میں کبھی تیری انجمن میں
تیرے غم میں بہہ گیا ہے مِرا ایک ایک آنسو
نہیں اب کوئی ستارا جو چمک سکے گگن میں
میں قتیل وہ مسافر ہوں جہانِ بے بسی کا
جو بھٹک کے رہ گیا ہو کسی اجنبی وطن میں !
No comments:
Post a Comment