کوئی تنہائیوں میں مجھے سوچتا ہے کوئی اب بھی میرا ہے
یہ عجیب شکوک و شبہات تھے جو دل سے نکالے نہ گۓ
میری چشم آغوش نے پالے تھے چند اشک بہہ گۓ
یہ وہ بچے تھے جو اک ماں سے سنبھالے نہ گۓ
شہر بھر میں بہت چرچا ہوا میری آہ جگر کا
مگر اس دل آشوب تک دل فغاں کہ نالے نہ گۓ
لوگ کیسے دیدہ دلیری سے کردار کشی کرتے ہیں
ہم سے تو کسی کی عظمت پہ کیچڑ اچھالے نہ گۓ
یہ زندگی یہ متاع بے بہا بڑی بیش قیمت ہوتی ہے
جب انہوں نے مانگی وہ جان سے پیارے ٹالے نہ گۓ
یہ تعلق جسم و جاں سے بڑھ کہ روح کا تعلق نکلا
جان تن سے نکل گئی مگر وہ دھان سے نکالے نہ گۓ
_____________
ندیم مغل
No comments:
Post a Comment