تسلسل ٹوٹ جائے گا
نہ چھیڑو کھلتی کلیوں، ہنستے پھولوں کو
ان اُڑتی تتلیوں، آوارہ بھنوروں کو
تسلسل ٹوٹ جائے گا
فضا محو سماعت ہے
حسیں ہونٹوں کو نغمہ ریز رہنے دو
نگاہیں نیچی رکھو
اور مجسّم گوش بن جاؤ
اگر جُنبش لبوں کو دی
تسلسل ٹوٹ جائے گا
افق میں ڈوبتے سورج کا منظر
اس بلندی سے ذرا دیکھو
اسی رنگیں کنارے پر
شفق سونا لٹائے گی
یونہی تم بےحس و ساکت رہو
ایسے میں پلکیں بھی ذرا جھپکیں
تسلسل ٹوٹ جائے گا
وہ خوابیدہ ہے ، خوابیدہ ہی رہنے دو
نہ جانے خواب میں کِن وادیوں کی سیر کرتی ہو
بلندی سے پھسلتے آبشاروں میں کہیں گم ہو
فلک آثار چوٹی پر کہیں محوِ ترنّم ہو
اگر آواز دی تم نے
تسلسل ٹوٹ جائے گا
میں شاعر ہوں
میری فکرِ رسا احساس کی اُس سطح پر ہے
جس میں خوشبو رنگ بنتی ہے
صدا کو شکل ملتی ہے
تصوّر بول اٹھتا ہے
خموشی گنگناتی ہے
یہ وہ وقفہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ایسے میں
اگر دادِ سخن بھی دی
تسلسل ٹوٹ جائے گا
Tuesday, July 14, 2015
تسلسل ٹوٹ جائے گا
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment