Sunday, July 26, 2015

کچھ دیر ہمارے ساتھ رہو

کچھ دیر ہمارے ساتھ رہو
کچھ اپنے رنگ بکھرنے دو
کچھ اپنی خوشبو بکھراؤ
اور شیریں شبنمی لہجے میں
کوئی نرم ملائم بات کرو
جس لمحے میں موجود ہیں ہم وہ لمحہ موج ہے ساگر کی
تم اِس لمحے کے ساتھ بہو
کچھ دیر ہمارے ساتھ رہو

تاریخ کے جبر کی بات ہی کیا
ہم دونوں کی اوقات ہی کیا
کچھ روپ کا سونا دان کرو، خیرات اپنی مسکان کرو

ہم جیسے شاعر لوگوں کا، جینا مرنا آسان کرو
صندل سی بانہیں پھیلاؤ، کچھ نظمیں غزلیں دے جاؤ
جو شاید باقی رہ جائیں

پھر دو سو سال کے بعد کوئی نقاش کمال ِ فن کر دے
اپنی ہر پور قلم کر دے
اور راج کٹاس کے پتھر پر
اِک لوک روایت نقش کرے
ہم دونوں کو تمثیل کرے، آئینہ عکس بہ عکس کرے
جس عکس پہ خوشبو لہرائے
جس نقش پہ تتلی رقص کرے

پھر ایک ہزار برس گزریں، پھر چار ہزار برس گزریں
آثار شناسی کے ماہر اس دور کی جب تحقیق کریں
اس رسم الخط کو پہچانیں، اس لمحے کی تصدیق کریں
یہ لمحہ قائم و دائم ہو
اِس لمحے کی سب کوملتا ، اس عہد کے شاعر تک پہنچے
یہ قصہ آخر تک پہنچے

کچھ دیر ہمارے ساتھ رہو
کوئی کیا جانے، لمحہ بھر میں، یہ لمحہ اپنے ساتھ نہ ہو
کچھ دیر ہمارے ساتھ رہو

No comments:

Post a Comment