کچھ دیر ہمارے ساتھ رہو
کچھ اپنے رنگ بکھرنے دو
کچھ اپنی خوشبو بکھراؤ
اور شیریں شبنمی لہجے میں
کوئی نرم ملائم بات کرو
جس لمحے میں موجود ہیں ہم وہ لمحہ موج ہے ساگر کی
تم اِس لمحے کے ساتھ بہو
کچھ دیر ہمارے ساتھ رہو
تاریخ کے جبر کی بات ہی کیا
ہم دونوں کی اوقات ہی کیا
کچھ روپ کا سونا دان کرو، خیرات اپنی مسکان کرو
ہم جیسے شاعر لوگوں کا، جینا مرنا آسان کرو
صندل سی بانہیں پھیلاؤ، کچھ نظمیں غزلیں دے جاؤ
جو شاید باقی رہ جائیں
پھر دو سو سال کے بعد کوئی نقاش کمال ِ فن کر دے
اپنی ہر پور قلم کر دے
اور راج کٹاس کے پتھر پر
اِک لوک روایت نقش کرے
ہم دونوں کو تمثیل کرے، آئینہ عکس بہ عکس کرے
جس عکس پہ خوشبو لہرائے
جس نقش پہ تتلی رقص کرے
پھر ایک ہزار برس گزریں، پھر چار ہزار برس گزریں
آثار شناسی کے ماہر اس دور کی جب تحقیق کریں
اس رسم الخط کو پہچانیں، اس لمحے کی تصدیق کریں
یہ لمحہ قائم و دائم ہو
اِس لمحے کی سب کوملتا ، اس عہد کے شاعر تک پہنچے
یہ قصہ آخر تک پہنچے
کچھ دیر ہمارے ساتھ رہو
کوئی کیا جانے، لمحہ بھر میں، یہ لمحہ اپنے ساتھ نہ ہو
کچھ دیر ہمارے ساتھ رہو
No comments:
Post a Comment