Monday, July 6, 2015

حمدیہ


نہ صدا کا سمت کشا ہوں میں
نہ ورق پہ میرا وجود ہے
مرے حرف میں وہ چمک نہیں جو ترے خیال کی چھب میں ہے
مرا انگ کیا مرا ڈھنگ کیا
سرِ خامہ روح کادُود ہے
یہی میرا رازِ شہود ہے
میں شکست خوردہ خیال ہون مجھے آیتوں کی کمک ملے
مجھے آگہی کی چمک ملے
مجھے درسِ عبرت شوق دے
مری انگلیوں کو پکڑ کے حرفِ جنوں پہ رکھ
رہِ خواندگاں پہ مری کجی مری گمرہی کو بھی ڈال دے
نہ قلم پکڑنے کا ڈھنگ ہے نہ ورق ہے میری بساط میں
مرا منہ چڑاتی ہے لوحِ گل
ابھی وہ ورق نہیں سامنے ترا پاک نام کہاں لکھوں
کہ سپیدی صفحہ صاف کی مری آنکھوں میں ہے بھری ہوئی
جہاں کوئی سطر ہے خواب کی نہ خرام موجہِ اشک ہے
مجھے خوابِ خوش سے نواز دے کہ یہ چشمِ وا بھی عذاب ہے
میں تہی نوا
میں تہی ثنا
میں لکھوں گا کیا؟
مگر اے خدا مری پوٹلی میں جو تیرے دھیان کی جوت ہے
یہی رت جگا مرا مال ہے
یہی مال مرا کمال ہے

No comments:

Post a Comment