ہے کوئی مسیحا ایسا
کہ سماعتوں کی حسرتوں سے ، گم شدہ سی مسرتوں سے
ہجر ہمالہ رفعتوں سےکھوئی کھوئی سی قربتوں سے
اظہارِ مبہم کے ہاتھوں
کبھی جو قطرہ قطرہ کرم ہے برسا
پھر اس پہ پیہم ستم ہے برسا
لفظ کا سر قلم قلم کیوں ،
ربط اتنا مبہم مبم کیوں،
نہیں نیہں یہ ّغم نہیں ہےَ برکھا میں پانی تو کم نیہں ہے۔۔۔
چشم نم کا الم نہیں ہے َ اسکو چاہنا اسی کو چاہنا جرم نہیں ہے
سماعتوں کے حساب میں بھی
نظر میں بھیگے خواب میں بھی
یہ منظروں پہ ٹپکتی بوندیں، صفحہ ہستی بھگوتی بوندیں
یادِ جاناں پہ لپکتی بوندیں، کشتیِ دل ڈبوتی بوندیں
سوال بھی ہیں الجھے الجھے
جواب بھی ہیں الجھے الجھے
انہی کے دستِ کرم کے ہاتھوں کوئی جو
محرومیِ یار کی دلدلون میں کبھی گرا تو
ہے کوئی مسیحا ایسا
کہ جس کہ دم سے
یہ دل بھی پھر سے زندہ رہ سکے
ہے کوئی مسیحا ایسا
جو اک بار ہی “ قم باذنی“ کہہ سکے
Tuesday, July 21, 2015
مسیحا
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment