Friday, July 17, 2015

ایک تمنّا، ایک دعا

کوئی تو مجھ کو اسیر کر لے
کوئی تو مجھ کو بنا لے اپنا
مجھے بتائے کہ پیار کیا ہے؟
محبتوں کی کہانیوں میں
الفتوں میں، جوانیوں میں
سنا ہے میں نے، بہت ہے نشّہ
کہ جو محبت میں ڈوب جائے
کسی حسینہ کی جھیل جیسی
حسین آنکھوں میں کود جائے
تو واپسی کا کوئی بھی رستہ
کبھی کسی کو ملا نہیں ہے
سیاہ گیسو، دراز گیسو
اپنی تاریک وادیوں میں
کسی بچارے کو جب چھپا لیں
سیاہ زلفوں کی وادیوں میں
حیات اس کی تمام ہو گی
کسی کی آنکھوں کی ایک جنبش
یہ مینا ساغر فنا کرا دے
کسی مہذّب کو یہ ہی آنکھیں
شراب میں سر تا پا ڈبو دیں
کسی کی باتوں سے خوشبو آئے
کسی کے بولوں سے شعلے لپکیں
کسی کے ہونٹوں سے پھول برسیں
کسی کے ہونٹوں سے جام ٹپکیں
حیات ہونٹوں میں گم ہو جائے
کسی کو لب یہ دوام بخشیں
کوئی ہتھیلی کے جال میں سے
اپنے پیارے کا نام ڈھونڈے
کوئی کسی کے سفید ہاتھوں
کے ایک بوسے کو جام جانے
کوئی کسی کے حنائی ہاتھوں
سے اپنے بالوں کی مانگ چاہے
کوئی کسی کی دراز گردن
پہ اپنی گردن کٹانا چاہے
یہاں تو کوئی کسی کے پیروں
پہ اپنے ہونٹوں کا اذن چاہے
کوئی تو یاروں کے راستے میں
اپنی پلکیں بچھانا چاہے
کوئی کسی کے بدن کی خوشبو
سے اپنی سدھ بدھ بھلا ہی بیٹھے
حد تو یہ کہ کسی کے تل پہ
جہان سارا ہی وار ڈالے
یہ ساری باتیں سنی ہیں میں نے
یہ ساری باتیں پڑھی ہیں میں نے
ہے ساری باتوں کا ایک مطلب
پیار سچا ہے بس جہاں میں
کہ جھوٹ اس کے سوا سبھی ہے
اگر ہے اتنا ہی پیار سچا
کوئی تو مجھ کو اسیر کر لے
کسی کی آنکھوں کی وادیوں میں
مری طبیعت بھی کیف پائے
کسی کے ہاتھوں یا اس کے پیروں
یا اس کی لمبی حسین گردن
یا اس کی زلفوں کی چھاؤں میں ہی
کبھی تو مجھ کو بھی نیند آئے
کوئی تو مجھ کو بھی مار ڈالے
کوئی تو مجھ کو اسیر کر لے
کوئی تو میرا حصار توڑے
کوئی یہ شاہی مزاج بدلے
کوئی تو مجھ کو فقیر کر دے

No comments:

Post a Comment