Monday, January 30, 2017

ابھی ضد نہ کر، دل بے خبر

ابھی ضد نہ کر، دل بے خبر
کہ پس ہجوم ستم گراں !
ابھی کون تجھ سے وفا کرے؟
ابھی کس کو فرصتیں اس قدر
کہ سمیٹ کر تیری کرچیاں
تیرے حق میں خدا سے دعا کرے !

ابھی ضد نہ کر دل بے خبر
کہ تہ غبار‌ غم جہاں !
کہاں کھو گئے تیرے چارہ گر
کہ راہ حیات میں رائیگاں
کہاں سو گئے تیرے ہمسفر

ابھی غمگساروں کی چوٹ سہہ
ابھی کچھ نہ سن ابھی کچھ نہ کہہ

ابھی ضد نہ کر میرے بے نواء
ابھی ہو سکے تو سخی میرے
سب ہی خواب راکھ میں دفن کر
ابھی ہو سکے تو یہ سوچ لے !
کہ طلوع اشک سے پیشتر
کہیں درد ہے تو ہوا کرے
کوئی چوٹ ہے تو کھلا کرے

کبھی یوں بھی ہو کہ سر افق
تیرے دکھ کا چاند دمک اٹھے
کوئی ٹیس خود سے چمک اٹھے

کسی شہر زخم فروش میں
کوئی زخم خود سے خرید کر
سبھی عکس خُود سے کُھرچ کبھی
کسی آئینے پہ نہ دید کر

کبھی یوں بھی جشن طرب منا
کبھی اس طرح سے بھی "عید" کر

Friday, January 27, 2017

سب اداس لوگوں کی ایک سی کہانی ہے

سب اداس لوگوں کی ایک سی کہانی ہے
ایک جیسے لہجے ہیں ، ایک جیسی تانیں ہیں
شہر یار پر سب کی ایک سی اڑانیں ہیں
سب اداس لوگوں کے بے مراد ہاتھوں پر
ایک سی لکریں ہیں
سب کے زرد ہونٹوں پر
قرب کی مناجاتیں ، وصل کی دعائیں ہیں
بے چراغ راتوں میں ، بے شمار شکنوں کے
ایک سے فسانے ہیں
کھکھلاتے لمحوں میں بے وجہ اداسی کے
ایک سے بہانے ہیں
اشک آنکھ میں رکھ ، کھل کے مسکرانے کی
ایک جیسی تشریحیں ، ایک سی وضاحت ہے
ایک جیسے شعلوں میں سب کے خواب جلتے ہیں
ایک جیسی باتوں پر سب کے دل دھڑکتے ہیں

Friday, January 20, 2017

مری آنکھیں

مری آنکھیں
مری آنکھیں جو پیاسی ہیں
جو پیہم کھوج میں ہیں
رتجگے جن کا مقدر ہیں
یہ آنکھیں
بارہا،دیوار کے اس پر
پھیلے منظروں کو چھو کے آئی ہیں
مگر پھر بھی انھیں یہ وہم ہے
یہ ایک دھوکہ ہے
یہ سب منظر
کسی خواہش کا دھندلا روپ ہیں
یہ خواب ہیں
اور خواب بھی ایسے
کہ ان خوابوں کو میری جاگتی آنکھوں نے دیکھا ہے
میں ان خوابوں کی کیا تعبیر ڈھونڈوں
کس طرح ان جاگتی آنکھوں کو سہلاؤں
مجھے معلوم ہے
لیکن مجھے اس وہم کی سرحد سے آگے
انگنت،اجلے،سجیلے خواب
آنکھوں میں سجانے ہیں

مجھے خود سے بچھڑنا ہے
مری آنکھیں جو پیاسی ہیں
انھیں سیراب کرنا ہے
مسلسل رتجگوں سے اب انھیں آزاد کرنا ہے

یوسف خالد

اب لوٹ آؤ

کہیں وہ ملے تو اسے کہنا کہ لوٹ آؤ
لوٹ آؤ کہ کوئی شدت سے
بڑی مدت سے
بڑی محبت سے
تمہارا انتظار کر رہا ہے
لوٹ آؤ کہ کسی کی باتیں
کسی کی یادیں
کسی کی راتیں
تم بن بہت ادھوری ہیں
لوٹ آؤ کہ کوئی تم بن
پل پل ہر پل
ہر آج اور ہر کل تنہا ہے
لوٹ آؤ کہ دور ہونے سے
کسی کی آنکھوں میں نمی
اور زندگی میں کمی بہت زیادہ ہے
کہیں ملے تو اسے کہنا
لوٹ آؤ
بس
اب لوٹ آؤ

میرے ہمسفر

میرے ہمسفر، تجھے کیا خبر
یہ جو وقت ہے کسی دھوپ چھاؤں کےکھیل سا
اسے دیکھتے، اسے جھیلتے
میری آنکھ گرد سے اٹ گئی
میرے خواب ریت میں کھو گئے
میرے ہاتھ برف سے ہو گئے
میرے بے خبر، تیرے نام پر
وہ جو پھول کھلتے تھے ہونٹوں پر
وہ جو دیپ جلتے تھے بام پر
وہ نہیں رہے
وہ نہیں‌رہے کہ جو ایک ربط تھا درمیاں
وہ بکھر گیا
وہ ہوا چلی
کہ جو برگ تھے سرِ شاخِ جاں، وہ گرا دیئے
وہ جو حرف درج تھے ریت پر، وہ اڑا دیئے
وہ جو راستوں کا یقین تھے
وہ جو منزلوں کے امین تھے
وہ نشانِ پا بھی مٹا دیئے
میرے ہمسفر، ہے وہی سفر
مگر ایک موڑ کے فرق سے
تیرے ہاتھ سے میرے ہاتھ تک
وہ جو ہاتھ بھر کا تھا فاصلہ
کئی موسموں میں بدل گیا
اسے ناپتے، اسے کاٹتے
میرا سارا وقت نکل گیا
تو میرے سفر کا شریک ہے
میں تیرے سفر کا شریک ہوں
پر جو درمیاں سے نکل گیا
اسی فاصلے کے شمار میں
اسی بے یقیں سے غبار میں
اسی راہ گزر کے حصار میں
تیرا راستہ کوئی اور ہے
میرا راستہ کوئی اور ہے

بھیڑ میں زمانے کی ہاتھ جھوٹ جاتے ہیں

خواب ٹوٹ جاتے ہیں
بھیڑ میں زمانے کی ہاتھ جھوٹ جاتے ہیں
دوست دار لہجوں میں سلوٹیں سی پڑتی ہیں
اک ذرا سی رنجش سی
شک کی زرد ٹہنی پر پھول بدگمانی کے
اس طرح سے کھلتے ہیں
زندگی سے پیارے بھی
اجنبی سے لگتے ہیں' غیر بن کے ملتے ہیں
عمر بھر کی چاہت کو آسرا نہیں ملتا
دشتِ بے یقینی میں راستہ نہیں ملتا
خاموشی کے کے وقفوں میں
بات ٹوٹ جاتی ہےاور سرا نہیں ملتا
معذرت کے لفظوں کو روشنی نہیں ملتی
لذتِ پزیرائی' پھر کبھی نہیں ملتی
پھول رنگ وعدوں کی منزلیں سکڑتی ہیں
راہ مڑنے لگتی ہے
بےرخی کے گارے سے،بے دلی کی مٹی سے
فاصلے کی اینٹوں سے اینٹ جڑنے لگتی ہے
خاک اڑنے لگتی ہے
خوب ٹوٹ جاتے ہیں
واہموں کے سائے سے'عمر بھر کی محنت کو
پل میں لُوٹ جاتے ہیں
اک ذرا سی رنجش سے
ساتھ ٹوٹ جاتے ہیں
بھیڑ میں زمانے کی
ہاتھ چھوٹ جاتے ہیں

امجد اسلام امجد

میں نے دیکھا تھا اُن دنوں میں اُسے

💔
میں نے دیکھا تھا اُن دِنوں میں اُسے
جب وہ کھلتے گُلاب جیسا تھا
اُس کی پلکوں سے نیند چَھنتی تھی
اُس کا لہجہ شراب جیسا تھا
اُس کی زُلفوں سے بھیگتی تھی گھٹا
اُس کا رُخ ماہتاب جیسا تھا
لوگ پڑھتے تھے خال و خَد اُس کے
وہ اَدب کی کتابِ جیسا تھا
بولتا تھا زبان خُوشبو کی
لوگ سنتے تھے دھڑکنوں میں اُسے
میں نے دیکھا تھا اُن دِنوں میں اُسے
ساری آنکھیں تھیں آئنے اُس کے
سارے چہروں میں انتخاب تھا وہ
سب سے گُھل مل کے اجنبی رہنا
ایک دریا نُما سَراب تھا وہ
خواب یہ ہے کہ وہ " حقیقت تھا "
یہ حقیقت ہے کوئی خواب تھا وہ
دل کی دھرتی پہ آسماں کی طرح
صُورت سایہ و سحاب تھا وہ
اپنی نیندیں اُسی کی نذر ہُوئیں
میں نے پایا تھا رتجگوں میں اُسے
میں نے دیکھا تھا اُن دِنوں میں اُسے
جب وہ ہنس ہنس کے بات کرتا تھا
دل کے خیمے میں رات کرتا تھا
رنگ پڑھتے تھے آنچلوں میں اُسے
میں نے دیکھا اُن دِنوں میں اُسے
یہ مگر دیر کی کہانی ہے
یہ مگر دُور کا فسانہ ہے
اُس کے میرے ملاپ میں حائل
اَب تو صدیوں بھرا زمانہ ہے
اب تو یوں ہے حال اپنا بھی
دشتِ ہجراں کی شام جیسا ہے
کیا خبر اِن دنوں وہ کیسا ہے؟
میں نے دیکھا تھا اُن دنوں میں اُسے

محسن نقوی۔۔۔

ﺗﮩﻤﺘﯿﮟ ﺗﻮ ﻟﮕﺘﯽ ﮨﯿﮟ

ﺗﮩﻤﺘﯿﮟ ﺗﻮ ﻟﮕﺘﯽ ﮨﯿﮟ
ﺭﻭﺷﻨﯽ ﮐﯽ ﺧﻮﺍﮨﺶ ﻣﯿﮟ
ﮔﮭﺮ ﺳﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﺁﻧﮯ ﮐﯽ ﮐُﭽﮫ ﺳﺰﺍ ﺗﻮ ﻣﻠﺘﯽ ﮨﮯ
ﻟﻮﮒ ﻟﻮﮒ ﮨﻮﺗﮯ
ﺍﻥ ﮐﻮ ﮐﯿﺎ ﺧﺒﺮ ﺟﺎﻧﺎﮞ !
ﺁﭖ ﮐﮯ ﺍِﺭﺍﺩﻭﮞ ﮐﯽ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﺑﺴﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺧﻮﺍﺑﻮﮞ ﮐﮯ ﺭﻧﮓ ﮐﯿﺴﮯ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﺩﻝ ﮐﯽ ﮔﻮﺩ ﺁﻧﮕﻦ ﻣﯿﮟ ﭘﻠﻨﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﺑﺎﺗﻮﮞ ﮐﮯ
ﺯﺧﻢ ﮐﯿﺴﮯ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﮐﺘﻨﮯ ﮔﮩﺮﮮ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﮐﺐ ﯾﮧ ﺳﻮﭺ ﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ
ﺍﯾﺴﯽ ﺑﮯ ﮔﻨﺎﮦ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ
ﮔﮭﺮ ﮐﮯ ﮐﻮﻧﮯ ﮐﮭﺪﺭﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﭼﮭُﭗ ﮐﮯ ﮐﺘﻨﺎ ﺭﻭﺗﯽ ﮨﯿﮟ
ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﯾﮧ ﮐﮩﺎﻧﯽ ﺳﮯ
ﺍﭘﻨﯽ ﮐﺞ ﺑﯿﺎﻧﯽ ﺳﮯ
ﺍﺱ ﻗﺪﺭ ﺭﻭﺍﻧﯽ ﺳﮯ ﺩﺍﺳﺘﺎﻥ ﺳﻨﺎﻥ
ﺍﻭﺭ ﯾﻘﯿﻦ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ
ﺳﭻ ﮐﮯ ﻏﻤﺰﺩﮦ ﺩﻝ ﺳﮯ ﻟﮓ ﮐﮯ ﺭﻭﻧﮯ ﻟﮕﺘﯽ ﮨﯿﮟ
ﺗﮩﻤﺘﯿﮟ ﺗﻮ ﻟﮕﺘﯽ ﮨﯿﮟ
ﺭﻭﺷﻨﯽ ﮐﯽ ﺧﻮﺍﮨﺶ ﻣﯿﮟ
ﺗﮩﻤﺘﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﮕﻨﮯ ﺳﮯ
ﺩﻝ ﺳﮯ ﺩﻭﺳﺖ ﮐﻮ ﺟﺎﻧﺎﮞ
ﺍﺏ ﻧﮉﮬﺎﻝ ﮐﯿﺎ ﮐﺮﻧﺎ
ﺗﮩﻤﺘﻮﮞ ﺳﮯ ﮐﯿﺎ ﮈﺭﻧﺎ

محبت رنگ ہی رنگ ہے

محبت کاسنی پھولوں کو،
گجروں میں پروتی ہے،
گلابوں کی حسین سرخی میں،
خوابوں کو بهگوتی ہے،
سنہرے رنگ کی کلیاں،
کئی سپنے دکھاتی ہیں،
چمکتی دھوپ ہو تب بھی،
نگاہیں مسکراتی ہیں،
کہیں پر بادلوں کا،
سرمئی کاجل بکھرتا ہے،
کہیں پر پانیوں کے بیچ،
نیلا پھول کهلتا ہے،
اُداسی کی سفیدی میں،
کہیں آنْسُو چمکتے ہیں،
محبت دنگ رہ جاتی ہے،
جب یہ رنگ دکهتے ہیں،
محبت رنگ ہی رنگ ہے--

Thursday, January 19, 2017

یہ جو رب ہے ناں.

ساری عمر گزر گئی. ..
کبھی مروت. ..
کبھی محبت. ..
کبھی یہاں. ..
تو. .
کبھی وہاں. ..
محبتوں کے سکے. ..
لٹائے چلے گئے. ..
جس کا بھی درد ملا. ..
اٹھائے چلے گئے. ..
جس نے پلٹ کر بھی نہیں پوچھا. ..
اس سے بھی تعلق نبھائے چلے گئے. ..
اس رستہ پہ چلتے چلتے. ..
یونہی زرا سا شوق ہوا تھا. ..
دیکھوں تو. ..
ساری عمر لٹا کر. ..
میرے حصے کیا آیا ہے. ..
میرے حصے میں بھی. ..
کیا کوئی ایک شخص بھی آیا ہے. .؟
خود کو پائی پائی کر کے. ..
کیا کوئی ایک شخص کمایا ہے. ..؟
یا. ...
خالی ہاتھوں کے حصے میں. ..
خالی ہاتھ ہی آیا ہے. ..؟
ایک گہری خاموشی تھی. ..
دل سے صرف ایک صدا آئی. ..
جس کے حصے میں کچھ نہیں ہوتا. ..
اس کے حصے میں رب آیا ہے. ..
یہ جو رب ہے ناں. ..
وہی سب ہے ناں. ..
جہاں سایہ بھی ساتھ چھوڑ دیتا ہے. ..
وہ وہیں سے پهر تعلق جوڑ دیتا ہے. ..

Sunday, January 15, 2017

عادتیں بدلنے سے

بارشوں کے موسم میں

تم کو یاد کرنے کی

عادتیں پرانی ہے

اب کی بار سوچا ہے

عادتیں بدل ڈالیں

پر خیال آیا کہ

عادتیں بدلنے سے

بارشیں نہیں رُکھتی

ﻭﮦ ﺑِﭽﮭﮍﺍ ﮨﮯ ﺗﻮ ﯾﺎﺩ ﺁﯾﺎ

ﻭﮦ ﺑِﭽﮭﮍﺍ ﮨﮯ ﺗﻮ ﯾﺎﺩ ﺁﯾﺎ
ﻭﮦ ﺍﮐﺜﺮ ﻣُﺠﮫ ﺳﮯ ﮐﮩﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﻣﺤﺒﺖ ﻭﮦ ﻧﮩﯿﮟ
ﺟﻮ ﯾﮧ ﻧﺴﻞِ ﻧﻮ ﺳﻤﺠﺘﮭﯽ ﮨﮯ
ﯾﮧ ﭘﮩﺮﻭﮞ ﻓﻮﻥ ﭘﺮ ﺑﺎﺗﯿﮟ
ﯾﮧ ﺁﺋﮯ ﺩﻥ ﻣﻼﻗﺎﺗﯿﮟ
ﺍﮔﺮﯾﮧ ﺳﺐ ﻣﺤﺒﺖ ﮨﮯ
ﺗﻮ ﺗﻒ ﺍﯾﺴﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﭘﺮ
ﻣﺤﺒﺖ ﺗﻮ ﻣﺤﺒﺖ ﮨﮯ
ﻭﺻﺎﻝ ﻭ ﻭﺻﻞ ﮐﯽ ﺧﻮﺍﮨﺶ ﺳﮯ ﺑﺎﻻﺗﺮ ﮐﮩﺎ ﮐﺮﺗﺎ
ﻣﺤﺒﺖ ﻗُﺮﺏ ﮐﯽ ﺧﻮﺍﮨﺶ ﭘﮧ ﺁﺋﮯ ﺗﻮ ﺳﻤﺠﮫ ﻟﯿﻨﺎ ﮨﻮﺱ ﻧﮯ ﺳﺮ ﺁُﭨﮭﺎﯾﺎ ﮨﮯ
ﮨﻮﺱ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ﻓﻘﻂ ﺟﺴﻤﻮﮞ ﮐﯽ ﭘﺎﻣﺎﻟﯽ
، ﻓﻘﻂ ﺗﺬﻟﯿﻞ ﺭﻭﺣﻮﮞ ﮐﯽ ﮐﮩﺎ ﮐﺮﺗﺎ
ﻣﺤﺒﺖ ﺍﻭﺭ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﮨﻮﺱ ﮐﭽﮫ ﺍﻭﺭ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ
ﺳﻮ ﺟﺐ ﻗُﺮﺏ ﮐﯽ ﺧﻮﺍﮨﺶ ﭘﮧ ﺁﺟﺎﺋﮯ ﻣﺤﺒﺖ
ﺳُﻨﻮ ﭘﮭﺮ ﺩﯾﺮ ﻣَﺖ ﮐﺮﻧﺎ
ﻭﮨﯿﮟ ﺭﺳﺘﮧ ﺑﺪﻝ ﻟﯿﻨﺎ ﻭﮦ ﺑِﭽﮭﮍﺍ ﮨﮯ ﺗﻮ ﯾﺎﺩ ﺁﯾﺎ

"محبت" ایک بارش ہے!

کبھی جو بارش برستی ہے،
تو مجھ کو یاد آتا ہے
وہ اکثر مجھ سے کہتا تھا،
"محبت" ایک بارش ہے!!
سبھی پہ جو برستی ہے!
مگر پھر بھی نہیں ہوتی،
سبھی کے واسطے یکساں
کسی کے واسطے راحت!!
کسی کے واسطے زحمت!!
میں اکثر سوچتا ہوں اب
وہ مجھ سے ٹھیک کہتا تھا
محبت ایک بارش ہے!!
سبھی پہ جو برستی ہے
کبھی مجھ پر بھی برسی تھی,
مگر میرے لیے بارش
کبھی نہ بن سکی رحمت
یہ راحت کیوں نہیں بنتی؟
کبھی میں خود سے پوچھوں تو
یہ دل دیتا دہائی ہے
کبھی کچے مکانوں کو بھی
بارش راس آئی ہے

جیون کھیل میں ہارے لوگو

پچھلے پہر کے سناٹے میں
کس کی سسکی کس کا نالہ
کمرے کی خاموش فضا میں در آیا ہے
زور ہوا کا ٹوٹ چکا ہے
کھلے دریچے کی جالی سے
ننھی ننھی بوندیں چھن کر
سب کونوں میں پھیل گئی ہیں
اور میرے اشکوں سے
ان کے ہاتھ کا تکیہ بھیگ گیا ہےکتنی ظالم
کتنی گہری تاریک ہے
کھلا دریچہ تھر تھر ، تھر تھر کانپ رہا ہے
بھیگی مٹی سوندھی سوندھی خوشبو چھوڑ رہی ہے
اودے بادل
کالے امبر کی جھیلوں میں ڈوب گئے ہیں
کس کے رخساروں کی لرزش دیکھ رہا ہوں
کس کی زلفوں کی شکنوں سے کھیل رہا ہوں
چپکے چپکے لیٹے لیٹے سوچ رہا ہوں
پچھلے پہر کے سناٹے میں
کس کی سسکی کس کا نالہ
کمرے کی خاموش فضا میں در آیا ہےماضی کی ڈیوڑھی کی چلمن
کھلے دریچے کی جالی سے
چھن چھن آئیں
روپ کی جوت ،حنا کی لالی، کل کی یادیں
سوندھی خوشبو، ٹھنڈی بوندیں
کل کے باسی آنسو جن سے
فردا کے بالیں کا پردا بھیگ رہا ہے
سحر زدہ ، محبوس حسینہ
قلعے کے آسیب کی صورت کس کی سسکی کس کا نالہ
کمرے کی خاموش فضا میں در آیا ہےبچھڑے لوگو پیارے لوگو
چاہیں بھی تو نام تمہارے جان سکیں گے؟
کیسے مانیں تم کو ہمارے
جی لینے کی مر لینے کی
خوشی ہوئی افسوس ہوا ہے
تم کیا جانو
کس کے ہاتھ کا تکیہ
کس کے گرم اشکوں سے بھیگ رہا ہے
کھلے دریچے کی جالی سے چمٹی آنکھو
اک لمحے کے کوندے میں تم
کن کن اجنبی چیزوں کو پہچان سکو گی
جیون کھیل میں ہارے لوگو
بچھڑے لوگو پیارے لوگو
برکھا کی لمبی راتوں میں
کمرے کی خاموش فضا میں
پچھلے پہر کے سناٹے میں
روتے روتے جاگنے والے
ہم لوگوں کو سو لینے دو
اور سویرا ہو لینے دو

ابنِ انشاء

Friday, January 13, 2017

بے عکس

تم ناآشنا ہو
اپنے جمال سے
تم سوچتی ہو
تمہارے نقوش بے کشش ہیں
اگر تم سیر کر سکتی
غروب آفتاب کے وقت
یا پورے چاند کی رات
گلابی لباس پہنے ہوئے
اپنے آپ میں مگن
میرے اداس دل جیسی
خاموش جھیل کے کنارے
تم جان پاتی
کہ تم کتنی حسین ہو
مگر تمہاری بوسیدہ گلی
غروب آفتاب سے
یا پورے چاند سے
نا واقف ہے
اور ڈونگے میں پڑا پانی
کوئی عکس نہیں لوٹاتا

میٹھا زہر

جسم سے جسم
کی حرارت میں
ایک مختصر سی
شرارت میں
جذبوں کی
فصیل ہوتی ہے
محبت کی
تکمیل ہوتی ہے
حسن و عشق
کی زیبائیش میں
انگ انگ کی
پیمائیش میں
خوابوں کی
تعمیل ہوتی ہے
محبت کی
تکمیل ہوتی ہے
لمس سے لمس
کی شدت میں
ایک مختصر سی
مدت میں
نئی زندگی
تشکیل ہوتی ہے
محبت کی
تکمیل ہوتی ہے

محبت بھیک ہوتی تو

محبت بھیک ہوتی تو
تمھارے در پہ جھک جاتے
خدا کا واسطہ دے کر
یہ تم سے مانگ لیتے ہم
صدا دیتے
خدا کے واسطے یہ ڈال دو جھولی ہماری میں
مگر یہ بھیک تھوڑی ہے
جو جھک کے مانگ لی جائے
فقط احساس ہے جاناں
محبت آس ہے جاناں
بہت حساس ہے جاناں
کبھی احساس کو بازار میں بِکتے ہوئے دیکھا؟
کسی بھی آس کو کشکول میں ڈالا نہیں جاتا
محبت ایک جذبہ ہے
جو مانگے سے نہیں ملتا
اگر یہ بھیک ہوتی تو
بھکاری بن گئے ہوتے
مگر یہ بھیک تھوڑی ہے
سہولت سے جو مل جائے
سہولت سے نہیں ملتی
بڑی مشکل سے ملتی ہے
یہ دل کو دل سے ملتی ہے
تمہیں احساس ہی کب ہے۔۔؟
ہماری آس ہی کب ہے۔۔؟
تمہیں احساس ہوتا تو
ہمارے ہو گئے ہوتے۔۔۔
فقط یہ سوچ کے تم سے جدائی کا ارادہ ہے
محبت بھیک تھوڑی ہے
جو تم سے مانگتے پھرتے
مگر یہ ذہن میں رکھنا
زمانہ بیت جائے تو
ہماری یاد آئے تو
ہمیں آواز دے لینا
ہمیشہ پاس پاؤ گے
ہمارے دل میں چاہت کا
سدا احساس پاؤ گے__________!!!

محبت یوں بھی ہوتی ہے

محبت یوں بھی ہوتی ہے

ہمیشہ چپ رہا جائے.
کبھی کچھ نہ کہا جائے
حفاظت ایسے کی جائے

کہ جیسے راز ہو کوئی
کسی پرسوز سینے میں
کی جیسے ساز ہو کوئی
چھپایا یوں اسے جائے

جو دل میں سیپ کے موتی
کسی کی بیوفائی جو
دلوں میں خار ہے بوتی
کوئی کہہ دے اسے جا کر

یہ بھی اندازِ الفت ہے
طریقِ مہر چاہت ہے
یہ بھی رمزِ محبت ہے
کوئی کہدے اسے جا کر

محبت یوں بھی ہوتی ہے

محبت سیکھ کر کرنا

محبت سیکھ کر کرنا
کہ بن سیکھے محبت کا سفر دشوار ہوتا ہیے
گریباں  تار ہوتا ہیے
کبھی انکار ہوتا ہیے
کبھی اقرار ہوتا ہیے
محبت سیکھ کر کرنا 

کہ بن سیکھے محبت تو سرابوں کی کہانی ہیے
دکھوں کی راج دھانی ہیے
کہ کل بن جائے گا بادل
یہ دریاں کا وہ پانی ہیے
محبت سیکھ کر کرنا

کہ بن سیکھے تو محبت عذاب زندگی  ٹھہری 
سراب زندگی  ٹھہری
نا ہو تکمیل جس کی وہ کتاب زندگی  ٹھہری
محبت سیکھ کر کرنا ............

جس کو ہمسفر جانیں

کبھی ایسا بھی ہوتا ہے__!
کہ جس کو ہمسفر جانیں،
جسے پانے کی خواہش میں،
ہزاروں درد انجانے،
یونہی ہم گود لیتے ہیں۔۔
دنیا کے گلے شکوے،
کبھی اغیار کی باتیں،
کئی جاگی ہوئی راتیں،
ہمیں تحفے میں ملتی ہیں۔۔
تمنّا جس کو پانے کی،
زباں پر وِرد کی صورت،
ہمیشہ جاری رہتی ہے۔۔
وہ جس کا نام سن کردل دھڑکنا بھول جاتا ہے
۔ہم اُس خوش بخت کی خاطر،
جاں پر کھیل جاتے ہیں۔۔
سبھی دکھ جھیل جاتے ہیں
مگر۔۔ایسا بھی ہوتا ہے۔۔!
کہ جس کو ہمسفر جانیں
ہمارے دل کی باتوں سے
وہی لاعلم رہتا ہے....!!

محبت بھیک تھوڑی ہے


محبت بھیک ہوتی تو
تمھارے در پہ جھک جاتے
خدا کا واسطہ دے کر
یہ تم سے مانگ لیتے ہم
صدا دیتے
خدا کے واسطے یہ ڈال دو جھولی ہماری میں
مگر یہ بھیک تھوڑی ہے
جو جھک کے مانگ لی جائے
فقط احساس ہے جاناں
محبت آس ہے جاناں
بہت حساس ہے جاناں
کبھی احساس کو بازار میں بِکتے ہوئے دیکھا؟
کسی بھی آس کو کشکول میں ڈالا نہیں جاتا
محبت ایک جذبہ ہے
جو مانگے سے نہیں ملتا
اگر یہ بھیک ہوتی تو
بھکاری بن گئے ہوتے
مگر یہ بھیک تھوڑی ہے
سہولت سے جو مل جائے
سہولت سے نہیں ملتی
بڑی مشکل سے ملتی ہے
یہ دل کو دل سے ملتی ہے
تمہیں احساس ہی کب ہے۔۔؟
ہماری آس ہی کب ہے۔۔؟
تمہیں احساس ہوتا تو
ہمارے ہو گئے ہوتے۔۔۔
فقط یہ سوچ کے تم سے جدائی کا ارادہ ہے
محبت بھیک تھوڑی ہے
جو تم سے مانگتے پھرتے
مگر یہ ذہن میں رکھنا
زمانہ بیت جائے تو
ہماری یاد آئے تو
ہمیں آواز دے لینا
ہمیشہ پاس پاؤ گے
ہمارے دل میں چاہت کا
سدا احساس پاؤ گے۔۔۔۔ !!

ﺷﮑﺴﺘﮧ ﺭﻭﺡ

ﺷﮑﺴﺘﮧ ﺭﻭﺡ ﺑﮭﯽ ﮨﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﺗﻤﮩﯿﮟ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﺗﮭﺎ...
ﺷﮑﺴﺘﮧ ﭘﺎ ﻧﮩﯿﮟ، ﺩﯾﮑﮭﻮ!
ﺷﮑﺴﺘﮧ ﺭﻭﺡ ﺑﮭﯽ ﮨﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﻣﺮﮮ ﻣﻔﻠﻮﺝ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﮐﻮ ﺣﯿﺎﺕِ ﻧﻮ ﮐﺎ ﺍﺏ
ﮐﻮﺋﯽ ﺍﺷﺎﺭﮦ ﻣﺖ ﺩﮐﮭﺎ ﺩﯾﻨﺎ،
ﻣﺮﯼ ﺑﮯﻧﻮﺭ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﮐﻮ ﻧﻮﯾﺪِ ﺧﻮﺍﺏِ ﺍﻟﻔﺖ
ﻣﺖ ﺳﻨﺎ ﺩﯾﻨﺎ،
ﺑﺘﺎﯾﺎ ﺗﮭﺎ، ﮐﮧ ﻣﺪﺕ ﺳﮯ ...
ﻣﺮﮮ ﻣﻌﺬﻭﺭ ﭘﯿﺮﻭﮞ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﭼﻠﻨﮯ،
ﮐﺴﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﭼﻠﻨﮯ ﮐﯽ
ﺍﺟﺎﺯﺕ ﺗﮏ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯼ ﮨﮯ! ..
ﻣﺮﮮ ﭨﻮﭨﮯ ﺑﺪﻥ ﻣﯿﮟ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﺑﮭﯽ
ﺫﺭﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﺎﻗﯽ
ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺗﻮ ﺳﺐ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﺗﮭﺎ !!
ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺿﺪ ﺗﮭﯽ،
ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺿﺪ ﺗﮭﯽ ﻣﺮﮮ ﭘﯿﺮﻭﮞ ﺗﻠﮯ ﭘﻠﮑﯿﮟ
ﺑﭽﮭﺎﺅ ﮔﮯ
ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺿﺪ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﺗﻢ ﻣﯿﺮﯼ ﮨﺘﮭﯿﻠﯽ ﭘﺮ
ﺩﮬﮍﮐﺘﮯ ﺩﻝ ﮐﻮ ﺭﮐﮭﻮ ﮔﮯ
ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺿﺪ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﺑﺠﮭﺘﯽ ﺭﻭﺡ ﭘﺮ ﺗﻢ
ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﯽ ﺁﮒ ﺭﮐﮭﻮ ﮔﮯ
ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﺿﺪ ﮐﮯ ﺁﮔﮯ ﮨﺎﺭ ﻣﺎﻧﯽ،
ﭘﮭﺮ ﺳﮯ ﺍﮎ ﺩﻡ ﺗﻮﮌﺗﯽ ﺍﻣﯿﺪ ﮐﮯ ﺩﮬﺎﮔﻮﮞ
ﺳﮯ ﺯﺧﻤﻮﮞ ﮐﻮ ﺳﯿﺎ،
ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﺗﻤﮩﮟ ﺳﻮﻧﭙﺎ
ﻣﮕﺮ ﺟﻮ ﺍﺏ ﮐﮯ ﭨﻮﭨﺎ ﮨﮯ،
ﻣﺮﮮ ﭨﮑﮍﻭﮞ ﮐﮯ ﭨﮑﮍﮮ ﮨﯿﮟ
ﮐﺒﮭﯽ ﺑﮭﯽ ﺟﮍ ﻧﮧ ﭘﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ
ﺍﮔﺮ ﯾﮧ ﺟﮍ ﺑﮭﯽ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﺗﻮ،
ﻧﮩﯿﮟ ﺍﻣﮑﺎﮞ ﮐﻮﺋﯽ، ﺍﺏ ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﻣﯿﺮﯼ
ﺭﻭﺡ ﺑﮭﯽ ﮨﻮﮔﯽ

زندگی حسین تر ہے

میرا یقین مانو
یہ کوئی گماں نہیں  ہے
ابہام کی حدوں سے
کہیں دور آ کے دیکھو
اس جہاں کے چھوٹے چھوٹے
آلام کی حدوں سے
کہیں دور آ کے دیکھو
زندگی زدہ یہ جیون
ہی سب سے معتبر ہے
خیالات کی حدوں سے
کہیں دور آ کے دیکھو
حالات کا حدوں سے
کہیں دور آ کے دیکھو
تو تم بھی جان لو گے
زندگی حسین تر ہے
                                         

تمہاری قربت کا ایک لمحہ

تمہاری قربت کا ایک لمحہ
رفاقتوں کے ہزار سالوں سے معتبر ہے
.....وہ ایک لمحہ
جو دل کی ویران بستیوں کو
حیات نو کے سورجوں کی
تمازتوں سے
اجالتا ہے
.....وہ ایک لمحہ
ہزار صدیوں سے معتبر ہے
اس ایک لمحے کی حرمتوں کو
شمار کرنا
سنبھال رکھنا
.....وہ ایک لمحہ
ہے استعارہ
عقیدتوں کا
عنایتوں کا
محبتوں کا
روایتوں کا
اس ایک لمحے کی عظمتوں کو
شمار کرنا .... سنبھال رکھنا

Saturday, January 7, 2017

ﻣﺤﺒﺖ ﺑﮭﯿﮏ ﮨﮯ ﮐﻮﺋﯽ


ﺑُﻼ ﮐﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﺣُﺠﺮﮮ ﻣﯿﮟ
ﮐﮩﺎ ﺍﮎ ﭘِﯿﺮ ﻧﮯ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ
ﮐﮩﻮ ! ﮐﺲ ﺑﺎﺕ ﮐﺎ ﻏﻢ ﮨﮯ
ﻣِﺮﯼ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﻏﻢِ ﺩﺭﯾﺎ
ﮐﭽﮫ ﺍﯾﺴﮯ ﭘﮭﻮﭦ ﮐﺮ ﻧﮑﻼ
ﮐﻠﯿﺠﮧ ﭘﮭﭧ ﭘﮍﺍ ﻣﯿﺮﺍ
ﮐﮩﺎ ! ﮐﮧ ﺗﯿﺮﮮ ﺳﯿﻨﮯ ﺳﮯ
ﺑﻼﺋﯿﮟ ﺁﻥ ﭼﻤﭩﯽ ﮨﯿﮟ
ﻣﺤﺒﺖ ﺑﮯ ﺑﮩﺎ ﺩﮮﮐﺮ
ﻣﻼ ﻧﮧ ﮐﭽﮫ ﺗﺠﮭﮯ ﺍﺏ ﺗﮏ
ﻣﯿﺮﺍ ﺗﻌﻮﯾﺬ ﻟﮯ ﺟﺎ ﺗُﻮ
ﺑﮩﺖ ﮔﮩﺮﺍ ﺍﺛﺮ ﮨﻮ ﮔﺎ
ﺗﺮﮮ ﺟﻮ ﻧﮧ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﺏ ﺗﮏ
ﺗﺮﯼ ﺗﺴﺒﯿﺢ ﮐﺮﯾﮟ ﮔﮯ ﻭﮦ
ﺗﺠﮭﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﺑﻨﺎ ﻟﯿﮟ ﮔﮯ
ﺫﺭﺍ ﺳﺎ ﺩﯾﺮ ﺳﻮﭼﺎ ! ﭘﮭﺮ
ﺟﮭﮑﺎﺋﮯ ﺳﺮ ﭼﻼ ﺁﯾﺎ
ﻣﺤﺒﺖ ﺑﮭﯿﮏ ﮨﮯ ﮐﻮﺋﯽ
ﮐﮧ ﺩﺭ ﺩﺭ ﻣﺎﻧﮕﻨﮯ ﺟﺎﺅﮞ
ﺟﻨﮭﯿﮟ ﻣﯿﺮﯼ ﻣﺤﺒﺖ ﺑﮭﯽ
ﻣﺮﮮ ﺍﻃﺮﺍﻑ ﻧﮧ ﻻﺋﮯ
ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺗﻌﻮﯾﺬ ﻻﺋﯿﮟ ﮔﮯ
ﻣﺤﺒﺖ ﺳﮯ ﺑﮍﺍ ﻃﻠﺴﻢ
ﻣﺤﺒﺖ ﺳﮯ ﺑﮍﺍ ﺟﺎﺩﻭ
ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺩﮬﺮﺗﯽ ﭘﮧ
ﻣﺤﺒﺖ ﺳﮯ ﯾﮧ ﮨﯿﮟ ﺁگے
ﺫﺭﺍ ﺳﻮچع
ﺑﮭﻼ، ﺍﯾﺴﮯ ﺑﮭﯽ ﻣﻤﮑﻦ ﮨﮯ

Friday, January 6, 2017

رب کے نام کر ڈالو !

زندگی کی راہوں میں
کچھ مقام آتے ہیں
لوگ روٹھ جاتے ہیں
ساتھ چھوٹ جاتے ہیں
زندگی کے سب ہی پل
بے مراد لگتے ہیں
دن اداس لگتے ہیں
چار سو اندھیرا جب
خوب بڑھنے لگتا ہے
اور دل یہ کرتا ہے
زندگی کے یہ لمحے
اب تمام ہو جائیں
بہت جی لئے ہیں ہم
اب سکوں سے سو جائیں
تب کہیں سے اک تارا
نور کا ابھرتا ہے
مضطرب سے اس دل کو
پھر گماں گزرتا ہے
جس نے زندگی دی ہے
جس نے غم، خوشی دی ہے
اس کے لطف سے بڑھ کے
غم کیا ہم نے پائے ہیں ؟؟؟
گردش زمانہ سے
پھر کیوں تنگ آئے ہیں ؟

زندگی کی راہوں میں
شکر کی جو منزل کا
راستہ ملے تم کو
اس پہ مطمئن ہو کے
تم قدم بڑھاؤ تو
زندگی کا ہر لمحہ
رب کے نام کر ڈالو !

Wednesday, January 4, 2017

سال ہی بدلتے ہیں

آج ایسا لگتا ہے
سال ہی بدلتے ہیں
وقت کب بدلتا ہے
میں نے سارے خوابوں کو
آج پهر نکالا ہے ،
سوچتا ہوں حیرت سے
یہ تو اب بهی زندہ ہیں
انکے پهول ہونٹوں پر کیسی مسکراہٹ ہے
روشنی ہے آنکهوں میں
خواہشوں کو پیتے ہیں
دل میں رهنے والے سب، اس طرح ہی جیتے ہیں
پوچهتے ہیں مجھ سے وہ
تم کہاں سے آئے ہو
خوابناک لمحوں کو پر عذاب مت کرنا
تم سے پہلے اک تاجر ہم کو یاں پہ لایا تها
اسکے لوٹ آنے تک ہم سےبات مت کرنا
خواب خواب ہوتے ہیں
ان کو کیا خبر ہے کہ
وقت کے مسافر کو
عمر کی رفاقت نے
نقش نقش بدلا ہے
نقش جب بدلتے ہیں
خواب اپنے مالک کی شکل بهول جاتے ہیں
سال آتے جاتے ہیں ، سال آئیں جائیں گے
اور آنے جانے میں ایک دن وہ آئے گا
ہم یہاں نہیں ہوں گے
خواب تو یہیں ہوں گے
سال ہی بدلتے ھیں
وقت کب بدلتا ہے

سنو اک بات کرنی ہے

سنو اک بات کرنی ہے
ذرا دل تھام کے سننا

یہ روز وشب جو تھے میرے
بہت بے کیف تھے پہلے
نہ دن کو چین ملتا تھا
نہ راتوں میں سکوں پنہاں

میں اکثر سوچتا رہتا
الہی ماجرا کیا ہے
کیوں لگتا ہے ادھورا پن
میں اپنی ذات گم کردہ

نہ کوئی آشنا اپنا
نہ کوئی آشیاں میرا

دسمبر کے مہینے میں
چمکتی دھوپ کی حدت
کبھی بھاتی نہ تھی مجھ کو
اور ساون کے مہینے میں
برستی بارشوں میں جب
کسی عاشق کے چہرے پر
دھنک کے رنگ بکھرنے سے

مجھے الجھن سی ہوتی تھی

میں اکثر دیکھتا رہتا
چہرے کھوجتا رہتا
یہ ممکن ہے بھلا کیوں کر

ہوائیں بات کرتی ہیں
فضائیں گنگناتی ہیں

افق پر ڈوبتے سورج کی کرنوں سے
فضا رنگین لگتی ہے
پھر جب رات آتی ہے
تو آنکھیں جاگ اٹھتی ہیں

کسی ہلکی سی آہٹ پر
آنکھوں میں امیدوں کے
دیے سے جلنے لگتے ہیں

اور تنہائی کے عالم میں
خود سے بات کرنا بھی
اچھا لگنے لگتا ہے

کبھی جب نیند آتی ہے
تو خوابوں میں بھی دل اپنا
بہت بے چین رہتا ہے
بھلا ایسا بھی ہوتا ہے

میں اس کو مانتا نہ تھا مگر اک دن
نگاہیں چار کر بیٹھا
اس روگ محبت میں
دل بیمار کر بیٹھا
میں بس پیار کر بیٹھا
میں اب تسلیم کرتا ہوں
کسی کی ایک نظر سے بھی
ہے یہ معجزہ ممکن

زمیں انگڑائی لیتی ہے
فلک بھی جھک کے ملتا ہے
جگر کا دائمی گھاؤ
اسی رشتے سے سلتا ہے
اور یہ رشتہ بھی انوکھا ہے
جدائی مارتی ہے تو
ملن بھی جان لیتا ہے
یہ اعجاز محبت ہے
میں سوچوں تو بھی اس کو
میں دیکھوں تو بھی اس کو
مجھے دکھتا ہے ہر سو وہ
مجھے لگتا ہے ہر پل وہ
جیسے ساتھ ہو میرے
تنہا ہوکے بھی میں
اب تنہا نہیں رہتا
خیال یار میں اکثر
میں اب میں نہیں رہتا

شاعر۔ محمد راشد .