Wednesday, January 4, 2017

سال ہی بدلتے ہیں

آج ایسا لگتا ہے
سال ہی بدلتے ہیں
وقت کب بدلتا ہے
میں نے سارے خوابوں کو
آج پهر نکالا ہے ،
سوچتا ہوں حیرت سے
یہ تو اب بهی زندہ ہیں
انکے پهول ہونٹوں پر کیسی مسکراہٹ ہے
روشنی ہے آنکهوں میں
خواہشوں کو پیتے ہیں
دل میں رهنے والے سب، اس طرح ہی جیتے ہیں
پوچهتے ہیں مجھ سے وہ
تم کہاں سے آئے ہو
خوابناک لمحوں کو پر عذاب مت کرنا
تم سے پہلے اک تاجر ہم کو یاں پہ لایا تها
اسکے لوٹ آنے تک ہم سےبات مت کرنا
خواب خواب ہوتے ہیں
ان کو کیا خبر ہے کہ
وقت کے مسافر کو
عمر کی رفاقت نے
نقش نقش بدلا ہے
نقش جب بدلتے ہیں
خواب اپنے مالک کی شکل بهول جاتے ہیں
سال آتے جاتے ہیں ، سال آئیں جائیں گے
اور آنے جانے میں ایک دن وہ آئے گا
ہم یہاں نہیں ہوں گے
خواب تو یہیں ہوں گے
سال ہی بدلتے ھیں
وقت کب بدلتا ہے

No comments:

Post a Comment