Wednesday, January 4, 2017

سنو اک بات کرنی ہے

سنو اک بات کرنی ہے
ذرا دل تھام کے سننا

یہ روز وشب جو تھے میرے
بہت بے کیف تھے پہلے
نہ دن کو چین ملتا تھا
نہ راتوں میں سکوں پنہاں

میں اکثر سوچتا رہتا
الہی ماجرا کیا ہے
کیوں لگتا ہے ادھورا پن
میں اپنی ذات گم کردہ

نہ کوئی آشنا اپنا
نہ کوئی آشیاں میرا

دسمبر کے مہینے میں
چمکتی دھوپ کی حدت
کبھی بھاتی نہ تھی مجھ کو
اور ساون کے مہینے میں
برستی بارشوں میں جب
کسی عاشق کے چہرے پر
دھنک کے رنگ بکھرنے سے

مجھے الجھن سی ہوتی تھی

میں اکثر دیکھتا رہتا
چہرے کھوجتا رہتا
یہ ممکن ہے بھلا کیوں کر

ہوائیں بات کرتی ہیں
فضائیں گنگناتی ہیں

افق پر ڈوبتے سورج کی کرنوں سے
فضا رنگین لگتی ہے
پھر جب رات آتی ہے
تو آنکھیں جاگ اٹھتی ہیں

کسی ہلکی سی آہٹ پر
آنکھوں میں امیدوں کے
دیے سے جلنے لگتے ہیں

اور تنہائی کے عالم میں
خود سے بات کرنا بھی
اچھا لگنے لگتا ہے

کبھی جب نیند آتی ہے
تو خوابوں میں بھی دل اپنا
بہت بے چین رہتا ہے
بھلا ایسا بھی ہوتا ہے

میں اس کو مانتا نہ تھا مگر اک دن
نگاہیں چار کر بیٹھا
اس روگ محبت میں
دل بیمار کر بیٹھا
میں بس پیار کر بیٹھا
میں اب تسلیم کرتا ہوں
کسی کی ایک نظر سے بھی
ہے یہ معجزہ ممکن

زمیں انگڑائی لیتی ہے
فلک بھی جھک کے ملتا ہے
جگر کا دائمی گھاؤ
اسی رشتے سے سلتا ہے
اور یہ رشتہ بھی انوکھا ہے
جدائی مارتی ہے تو
ملن بھی جان لیتا ہے
یہ اعجاز محبت ہے
میں سوچوں تو بھی اس کو
میں دیکھوں تو بھی اس کو
مجھے دکھتا ہے ہر سو وہ
مجھے لگتا ہے ہر پل وہ
جیسے ساتھ ہو میرے
تنہا ہوکے بھی میں
اب تنہا نہیں رہتا
خیال یار میں اکثر
میں اب میں نہیں رہتا

شاعر۔ محمد راشد .

No comments:

Post a Comment