سنو اک بات کرنی ہے
ذرا دل تھام کے سننا
یہ روز وشب جو تھے میرے
بہت بے کیف تھے پہلے
نہ دن کو چین ملتا تھا
نہ راتوں میں سکوں پنہاں
میں اکثر سوچتا رہتا
الہی ماجرا کیا ہے
کیوں لگتا ہے ادھورا پن
میں اپنی ذات گم کردہ
نہ کوئی آشنا اپنا
نہ کوئی آشیاں میرا
دسمبر کے مہینے میں
چمکتی دھوپ کی حدت
کبھی بھاتی نہ تھی مجھ کو
اور ساون کے مہینے میں
برستی بارشوں میں جب
کسی عاشق کے چہرے پر
دھنک کے رنگ بکھرنے سے
مجھے الجھن سی ہوتی تھی
میں اکثر دیکھتا رہتا
چہرے کھوجتا رہتا
یہ ممکن ہے بھلا کیوں کر
ہوائیں بات کرتی ہیں
فضائیں گنگناتی ہیں
افق پر ڈوبتے سورج کی کرنوں سے
فضا رنگین لگتی ہے
پھر جب رات آتی ہے
تو آنکھیں جاگ اٹھتی ہیں
کسی ہلکی سی آہٹ پر
آنکھوں میں امیدوں کے
دیے سے جلنے لگتے ہیں
اور تنہائی کے عالم میں
خود سے بات کرنا بھی
اچھا لگنے لگتا ہے
کبھی جب نیند آتی ہے
تو خوابوں میں بھی دل اپنا
بہت بے چین رہتا ہے
بھلا ایسا بھی ہوتا ہے
میں اس کو مانتا نہ تھا مگر اک دن
نگاہیں چار کر بیٹھا
اس روگ محبت میں
دل بیمار کر بیٹھا
میں بس پیار کر بیٹھا
میں اب تسلیم کرتا ہوں
کسی کی ایک نظر سے بھی
ہے یہ معجزہ ممکن
زمیں انگڑائی لیتی ہے
فلک بھی جھک کے ملتا ہے
جگر کا دائمی گھاؤ
اسی رشتے سے سلتا ہے
اور یہ رشتہ بھی انوکھا ہے
جدائی مارتی ہے تو
ملن بھی جان لیتا ہے
یہ اعجاز محبت ہے
میں سوچوں تو بھی اس کو
میں دیکھوں تو بھی اس کو
مجھے دکھتا ہے ہر سو وہ
مجھے لگتا ہے ہر پل وہ
جیسے ساتھ ہو میرے
تنہا ہوکے بھی میں
اب تنہا نہیں رہتا
خیال یار میں اکثر
میں اب میں نہیں رہتا
شاعر۔ محمد راشد .
No comments:
Post a Comment