بے حیات چہروں کا
اک وسیع جنگل ہے
اک تمھاری مرضی سے دوسروں میں بٹتا ہے
زندگی کا ہر رستہ
بس تمھارے محلوں کے بیچ سے گزرتا ہے
تم یہی سمجھتے ہو
بے شمار لوگوں کو زندگی نہیں ملتی
منجمد خیالوں کو شعلگی نہیں ملتی
عہدِ بے یقینی کو پختگی نہیں ملتی
ڈھونڈتے رہیں برسوں پر خوشی نہیں ملتی
رونقیں تمھاری ہیں، راحتیں تمھاری ہیں
کشتگانِ عسُرت کی آبرو کے مالک ہو
آئنوں کے مالک ہو، صورتوں کے مالک ہو
عصمتوں کے مالک ہو، قسمتوں کے مالک ہو
بے بسی کے سانچے ہیں
دھول رہگذاروں کی، کانچ کے کھلونے ہیں
حاجتوں کے پیکر ہیں
بھوک کے پیمبر ہیں
پر یہ تلخ سچائی تم کبھی نہیں سمجھے
اک یقین رکھتے ہیں، اک زبان رکھتے ہیں
دل کے بند کمروں میں خواب سر پٹختے ہیں
بے تکان پیروں میں آبلے چٹختے ہیں
نم شناس آنکھوں میں خواب جھلملاتے ہیں
ذہن جگمگاتے ہیں .. ... ....