Saturday, June 27, 2015

تم یہی سمجھتے ہو

 تم یہی سمجھتے ہو
اس زمیں پہ ہر جانب
بے حیات چہروں کا
اک وسیع جنگل ہے
تم یہی سمجھتے ہو
ماہتاب کی چاندی، آفتاب کا سونا
اک تمھاری مرضی سے دوسروں میں بٹتا ہے
زندگی کا ہر رستہ
بس تمھارے محلوں کے بیچ سے گزرتا ہے
تم یہی سمجھتے ہو
تم اگر نہ چاہو تو
ان گنت چراغوں کو روشنی نہیں ملتی
بے شمار لوگوں کو زندگی نہیں ملتی
منجمد خیالوں کو شعلگی نہیں ملتی
عہدِ بے یقینی کو پختگی نہیں ملتی
ڈھونڈتے رہیں برسوں پر خوشی نہیں ملتی
تم یہی سمجھتے ہو
کارواں تمھارے ہیں، منزلیں تمھاری ہیں
رونقیں تمھاری ہیں، راحتیں تمھاری ہیں
کشتگانِ عسُرت کی آبرو کے مالک ہو
آئنوں کے مالک ہو، صورتوں کے مالک ہو
عصمتوں کے مالک ہو، قسمتوں کے مالک ہو
تم یہی سمجھتے ہو
یہ غلام زادے تو ہڈیوں کے ڈھانچے ہیں
بے بسی کے سانچے ہیں
دھول رہگذاروں کی، کانچ کے کھلونے ہیں
حاجتوں کے پیکر ہیں
بھوک کے پیمبر ہیں
پر یہ تلخ سچائی تم کبھی نہیں سمجھے
یہ غلام زادے بھی
ہڈیوں کے ڈھانچے بھی، بے بسی کے سانچے بھی
اک یقین رکھتے ہیں، اک زبان رکھتے ہیں
دل کے بند کمروں میں خواب سر پٹختے ہیں
بے تکان پیروں میں آبلے چٹختے ہیں
نم شناس آنکھوں میں خواب جھلملاتے ہیں
استخوانی ماتھوں کے برف زار کے پیچھے
ذہن جگمگاتے ہیں .. ... ....

Thursday, June 25, 2015

کیامیری ... یاد آتی ہے

مجھے اتنا بتا جاؤ..
کبھی جب رات گہری ہو..
خموشی ہر سو ٹھہری ہو..
ہو اتنا گہرا سناٹا..
کہ اپنی دھڑکنیں سن لو..
ہو بس ننھی سی کچھ جھلمل..
ستارے ٹمٹاتے ہوں..
یا کوئی نرم سا جھونکا..
کہ پتے سرسراتے ہوں..
تمہارا ذہن خالی ہو..
غم دوراں, غم جاناں,
نہ اس میں کوئی الجھن ہو..
بہت پر کیف سا عالم..
جو توڑے ضبط کا موسم ..
اسی انجان سے پل میں..
کسی کمزور لمحے میں..
بس اک پل کو,
گھڑی بھر کو..
شعوری , لاشعوری سی..
پلک جھپکے تمہاری جب..
کیامیری ... یاد آتی ہے

ﻣﺠﮭﮯ ﺗﯿﺮﯼ ﻣﺤﺒﺖ ﻧﮯ ﺑﮩﺖ ﺑﺰﺩﻝ ﺑﻨﺎ ﮈﺍﻻ

ﺁﺷﻨﺎ ﻣﯿﺮﮮ ۔۔۔
ﺗﺠﮭﮯ ﺷﺎﯾﺪ ﺧﺒﺮ ﮬﻮ ﮔﯽ
ﻣﺠﮭﮯ ﺗﯿﺮﯼ ﻣﺤﺒﺖ ﻧﮯ
ﺑﮩﺖ ﺑﺰﺩﻝ ﺑﻨﺎ ﮈﺍﻻ
ﻣﯿﮟ ﮨﺮ ﺍﺱ ﺷﮯ ﺳﮯ ﮈﺭﺗﺎ ﮬﻮﮞ
ﺗﺠﮭﮯ ﺟﻮ ﭼﮭﯿﻦ ﺳﮑﺘﯽ ﮬﮯ
ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﻟﻤﺤﻮﮞ ﺳﮯ ﮈﺭﺗﺎ ﮬﻮﮞ
ﺟﺪﺍﺋﯽ ﺟﻦ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﺘﯽ ﮬﮯ
ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﺍﺷﮑﻮﮞ ﺳﮯ ﮈﺭﺗﺎ ﮬﻮﮞ
ﺟﻮ ﺑﻦ ﮐﺮ ﯾﺎﺩ ﺑﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ
ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﻟﻔﻈﻮﮞ ﺳﮯ ﮈﺭﺗﺎ ﮬﻮﮞ
ﺟﻮ ﺧﺎﻣﻮﺷﯽ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ
ﺑﭽﮭﮍﻧﮯ ﮐﯽ ﻣﯿﺮﮮ ﮨﻤﺪﻡ
ﻣﯿﮟ ﮨﺮ ﺻﻮﺭﺕ ﺳﮯ ﮈﺭﺗﺎ ﮬﻮﮞ
ﺗﺠﮭﮯ ﺷﺎﯾﺪ ﺧﺒﺮ ﮬﻮﮔﯽ
ﻣﺠﮭﮯ ﺗﯿﺮﯼ ﻣﺤﺒﺖ ﻧﮯ
ﺑﮩﺖ ﺑﺰﺩﻝ ﺑﻨﺎ ﮈﺍﻻ

رب بھی مسکراتا ہے

مرچ میں اٹھاؤں تو

اینٹ کا برادہ ہے

دودھ پانی پانی تو

شہد لیس چینی کی

وردیوں میں ڈاکو ہیں

کرسیوں پہ کتے ہیں

عصمتوں پہ بولی ہے

سرحدیں بھی ننگی ہیں

چینلوں پہ بکتی ہے

بھوک مرنے والوں کی

دیر تک رلاتا ہے

رش تماش بینوں کا

بے زبان لاشوں کا

جس جگہ میں رہتا ہوں

بے حسوں کی جنت ہے

کس قدر یہ سادہ ہیں

سود کے نوالوں سے

جب ڈکار آتے ہیں

شکر کی صداؤں سے

رب کو یاد کرتے ہیں

رب بھی مسکراتا ہے

جب یہ طاق راتوں میں

کچھ تلاش کرتے ہیں

جس سمت بھی دیکھوں نظر آتا ہے کہ تم ہو

جس سمت بھی دیکھوں نظر آتا ہے کہ تم ہو۔۔
اے جانِ جہاں یہ کوئی تم سا ہے کہ تم ہو۔۔
یہ خواب ہے، خوشبو ہے، کہ جھونکا ہے، کہ پل ہے،
یہ دھند ہے، بادل ہے، کہ سایہ ہے کہ تم ہو۔۔
اس دید کی ساعت میں کئی رنگ ہے لرزاں،
میں ہوں کہ کوئی اور ہے، دنیا ہے کہ تم ہو۔۔
دیکھو یہ کسی اور کی آنکھیں ہیں کہ میری،
دیکھوں یہ کسی اور کا چہرہ ہے کہ تم ہو۔۔
یہ عمرِ گریزاں کہیں ٹھہرے تو یہ جانوں،
ہر سانس میں مجھ کو یہ لگتا ہے کہ تم ہو۔۔
ہر بزم میں موضوعِ سخن دل زدگاں کا،
اب کون ہے؟ شیریں ہے کہ لیلٰی ہے کہ تم ہو۔۔
اک درد کا پھیلا ہوا صحرا ہے کہ میں ہوں،
اک موج میں آیا ہوا دریا ہے کہ تم ہو۔۔
وہ وقت نہ آئے کہ دلِ زار بھی سوچے،
اس شہر میں تنہا کوئی ہم سا ہے کہ تم ہو۔۔
آباد ہم آشفتہ سروں سے نہیں مقتل،
یہ رسم بھی شہر میں زندہ ہے کہ تم ہو۔۔
اے جانِ فراز اتنی بھی توفیق کسے تھی،
ہم کو غمِ ہستی بھی گوارا ہے کہ تم ہو۔۔

کبھی وقت ملے تو آ جاو


کبھی وقت ملے تو آ جاو
ھم جھیل کنارے جا بیٹھیں
تم اپنے سکھ کی بات کرو 
ھم اپنے دکھ کی بات کریں
اور ان لمحوں کی بات کریں
جو سنگ تمھارے بیت گے
اور عھد خزاں کی نذر ھوئے
ان سبز رتوں کے دامن میں
ھم پیار کی خوشبو مہکائیں
ان بکھرے سبز نظاروں کو
ھم آنکھوں میں تصویر کریں
پھر اپنے پیار کے جادو سے
ھم لمحوں کو جاگیر کریں
کبھی وقت ملے تو آ جاو

ﮨﻤﺎﺭﮮﺩﺭﻣﯿﺎﮞ ﯾﮧ ﻓﺎﺻﻠﮯ ﻗﺴﻤﺖ ﻣﯿﮟ ﻟﮑﮭﮯ ﮨﯿﮟ

ﮐﮩﺎ ﺗﮭﺎ ﻧﺎ ...!
ﮨﻤﺎﺭﮮﺩﺭﻣﯿﺎﮞ ﯾﮧ ﻓﺎﺻﻠﮯ ﻗﺴﻤﺖ ﻣﯿﮟ ﻟﮑﮭﮯ ﮨﯿﮟ
ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻗﺴﻤﺖ ﮐﮯ ﻟﮑﮭﮯﮐﻮ
ﺑﺪﻝ ﺗﻢ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﯿﮟ، ﺑﺪﻝ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﺎ !
ﻣﮕﺮﻣﺸﮑﻞ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﮨﺠﺮ کے ﭘُﺮﯾﭻ ﺭﺳﺘﻮﮞ ﭘﺮ
ﺳﻨﺒﮭﻞ ﺗﻢ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﯿﮟ، ﺳﻨﺒﮭﻞ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ
ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﺎ !
ﺗﻮ ﺑﮩﺘﺮ ﮨﮯ
ﮐﮧ ﮨﻢ ﺍﮎ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﯽ ﯾﺎﺩ ﮐﮯ ﮨﻤﺮﺍﮦ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﯿﮟ
ﮐﮧ ﺍﺏ ﮐﮧ ﺍﺱ ﻣﺤﺒﺖ ﺳﮯ
ﻧﮑﻞ ﺗﻢ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﯿﮟ، ﻧﮑﻞ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﺎ !
ﺳﻨﻮ ﺟﺎﻧﺎﮞ !
ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﺷﺒﻨﻤﯽ ﺁﮨﭧ ﻣﯿﺮﮮ ﺍﻧﺪﺭ ﺩﮬﮍﮐﺘﯽ ﮨﮯ
ﻣﮕﺮ ﺟﺐ ﺧﺎﻣﺸﯽ ﺳﮯ ﺗﻢ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﻌﺎﻧﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﻟﯿﺘﯿں
ﺗﻮ ﯾﮧ ﺩﻝ ﺭﻭﭨﮫ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ
ﻣﯿﺮﮮ ﺍﻧﺪﺭ ﮐﮩﯿﮟ ﭘﺮ ﮐﭽﮫ
ﺍﭼﺎﻧﮏ ﭨﻮﭦ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ
ﮐﮩﺎ ﺗﮭﺎ ﻧﺎ 
ﮨﻤﺎﺭﮮﺩﺭﻣﯿﺎﮞ ﯾﮧ ﻓﺎﺻﻠﮯ ﻗﺴﻤﺖ ﻣﯿﮟ ﻟﮑﮭﮯ ﮨﯿﮟ

مرے اللہ ! تیری مرضی

مرے اللہ ! تیری مرضی
تو جو بهی امتحان لےلے
نہیں ہم جانتے جن کو
انهی کا ہمسفر کردے
جو اس جیون سے پیارے ہوں
انهیں ہم سے جدا کردے
تیری مرضی خداوند ..
تو چاہے آگ پانی ہو
تو چاہے برف جلتی ہو
تو چاہے پهول چبهتے ہوں
تو چاہے خار خوشبو دیں
جسے چاہے بتا دے تو
محبت کس کو کہتے ہیں
جسے چاہے سکها دے تو
عبادت کس کو کہتے ہیں
جسے چاہے ملادے تو
جسے چاہے جدا کردے
وہ جس نے غم نہ دیکهے ہوں
اسے غم آشنا کردے
تیری مرضی تو بن مانگے
سبهی کچھ ہی عطا کردے
تیری مرضی مرے اللہ
تو چاہے سب فنا کردے
مرے اللہ! تیری مرضی
تو جو بهی امتحان لےلے
ہمیں جس حال میں رکهے
فقط اتنی گذارش ہے
تو جو بهی امتحاں لینا
ہمیں بس سرخرو کرنا

ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﻣﻨﺎﻓﻘﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﯽ

ﮨﻤﯿﺸﮧ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﺁﺝ ﺑﮭﯽ
ﺟﺐ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﺎ
ﺍﺣﺘﺴﺎﺏ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮨﺎ ﺗﻮ
ﻣﺠﮫ ﭘﮧ ﻣﯿﺮﺍ ﻗﺼﻮﺭ ﮐﮭﻼ
ﺗﻮ ﺻﺮﻑ ﺍﺗﻨﺎ
ﮐﮧ ﺩﮐﮫ ﮨﻮ ﯾﺎ ﺳﮑﮫ ﮨﻮ
ﺧﻮﺷﯽ ﮨﻮ ﮐﮧ ﻏﻢ
ﻣﯿﺮﮮ ﺩﻝ ﮐﺎ ﮨﺮ ﻣﻮﺳﻢ
ﻣﯿﺮﮮ ﭼﮩﺮﮮ ﭘﺮ
ﺁﮐﮯ ﭨﮩﺮ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ
ﻣﺠﮫ ﺳﮯ
ﻣﻨﺎﻓﻘﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﯽ

ﮬﺎﺗﮫ ﭼﮭﻮﭨﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺗﻮ ﺭﺷﺘﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﮭﻮﮌﺍ ﮐﺮﺗﮯ

ﮬﺎﺗﮫ ﭼﮭﻮﭨﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺗﻮ ﺭﺷﺘﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﮭﻮﮌﺍ ﮐﺮﺗﮯ
ﻭﻗﺖ ﮐﯽ ﺷﺎﺥ ﺳﮯ ﻟﻤﺤﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﻮﮌﺍ ﮐﺮﺗﮯ

ﺟﺲ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﺳِﻠﻮﭦ ﮬﻮ، ﻧﮕﺎﮬﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺷﮑﻦ
ﺍﯾﺴﯽ ﺗﺼﻮﯾﺮ ﮐﮯ ﭨﮑﮍﮮ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﻮﮌﺍ ﮐﺮﺗﮯ

ﻟﮓ ﮐﮯ ﺳﺎﺣﻞ ﺳﮯ ﺟﻮ ﺑﮩﺘﺎ ﮨﮯ ﺍُﺳﮯ ﺑﮩﻨﮯ ﺩﻭ
ﺍﯾﺴﮯ ﺩﺭﯾﺎ ﮐﺎ ﮐﺒﮭﯽ ﺭُﺥ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻮﮌﺍ ﮐﺮﺗﮯ

ﺟﺎﮔﻨﮯ ﭘﺮ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﻧﮑﮫ ﺳﮯ ﮔﺮﺗﯿﮟ ﮐﺮﭼﯿﮟ
ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﺧﻮﺍﺑﻮﮞ ﺳﮯ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﮭﻮﮌﺍ ﮐﺮﺗﮯ

ﺷﮩﺪ ﺟﯿﻨﮯ ﮐﺎ ﻣِﻼ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﺗﮭﻮﮌﺍ ﺗﮭﻮﮌﺍ
ﺟﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺩِﻝ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﻮﮌﺍ ﮐﺮﺗﮯ

ﺟﻤﻊ ﮬﻢ ﮬﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ، ﺗﻘﺴﯿﻢ ﺑﮭﯽ ﮬﻮ ﺟﺎﺗﮯ ﮬﯿﮟ
ﮬﻢ ﺗﻮ ﺗﻔﺮﯾﻖ ﮐﮯ ﮬﻨﺪﺳﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﻮﮌﺍ ﮐﺮﺗﮯ

ﺟﺎﮐﮯ ﮐﮩﺴﺎﺭ ﺳﮯ ﺳﺮ ﻣﺎﺭﻭ ﮐﮧ ﺁﻭﺍﺯ ﺗﻮ ﮬﻮ
ﺧﺴﺘﮧ ﺩِﯾﻮﺍﺭﻭﮞ ﺳﮯ ﻣﺎﺗﮭﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﮭﻮﮌﺍ ﮐﺮﺗﮯ

تم تو ایسے نہ تھے

تم تو ایسے نہ تھے

تم نے تو عمر بھر ساتھ رہنے کے وعدے

کیۓ تھے سدا

پهر کہاں ره گئے

جن ستاروں کی تم نے

قسم کھا کے وعده کیا تھا که تم

ساری دنیا کو ٹھکرا کے آ جاؤ گے

وه ستارے اب آنکھیں ملاتے نہیں

ٹمٹمٹاتے نہیں

کچھ کہو تو سہی

کیا ہوا ہے تمہیں

تم بچھڑنے په ایمان رکھتے نه تھے

پھر بچھڑ بھی گئے

اور بچھڑے بھی ایسے

که بالکل زمانے کے جیسے لگے

تم تو بالکل زمانے کے جیسے نه تھے

تم تو ایسے نه تھے

تم تو ایسے نه تھے

ﺯﻣﺎﻧﮯ ﺑﯿﺖ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ

ﮐﺒﮭﯽ ﻧﻈﺮﯾﮟ ﻣﻼﻧﮯ ﻣﯿﮟ
ﺯﻣﺎﻧﮯ ﺑﯿﺖ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﮐﺒﮭﯽ ﻧﻈﺮﯾﮟ ﭼﺮﺍﻧﮯ ﻣﯿﮟ
ﺯﻣﺎﻧﮯ ﺑﯿﺖ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﮐﺴﯽ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮫ ﺑﮭﯽ
ﮐﮭﻠﺘﯽ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺳﻮﻧﮯ ﮐﯽ
ﻧﮕﺮﯼ ﻣﯿﮟ
ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﮔﮭﺮ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﻣﯿﮟ
ﺯﻣﺎﻧﮯ ﺑﯿﺖ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﮐﺒﮭﯽ ﮔﮭﺮ ﺳﮯ ﻧﮑﻠﺘﮯ ﮨﯽ
ﻧﻈﺮ ﺁ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ ﻣﻨﺰﻝ
ﮐﺒﮭﯽ ﻣﻨﺰﻝ ﮐﻮ ﭘﺎﻧﮯ ﻣﯿﮟ
ﺯﻣﺎﻧﮯ ﺑﯿﺖ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﮐﺒﮭﯽ ﺻﺪﯾﻮﮞ ﮐﯽ ﺳﯽ
ﺭﺍﺗﯿﮟ ﮨﻤﯿﮟ ﭘﻞ ﺑﮭﺮ ﮐﯽ
ﻟﮕﺘﯽ ﮨﯿﮟ
ﮐﺒﮭﯽ ﺳﻮﺭﺝ ﮐﻮ ﺁﻧﮯ ﻣﯿﮟ
ﺯﻣﺎﻧﮯ ﺑﯿﺖ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﮐﻮﺋﯽ ﺳﺠﺪﮮ ﻣﯿﮟ ﮔﺮ
ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﭘﺎ ﻟﯿﺘﺎ ﮨﮯ ﺭﺏ
ﮐﻮ
ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﻟﻮ ﻟﮕﺎﻧﮯ ﻣﯿﮟ
ﺯﻣﺎﻧﮯ ﺑﯿﺖ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﺳﺐ ﭼﮭﻮﮌ ﮐﺮ
ﺩﻧﯿﺎ ﺳﮯ ﺧﺎﻟﯽ ﮨﺎﺗﮫ ﺟﺎﺗﮯ
ﮨﯿﮟ
ﺟﻨﮭﯿﮟ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﻤﺎﻧﮯ ﻣﯿﮟ
ﺯﻣﺎﻧﮯ ﺑﯿﺖ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﮐﺒﮭﯽ ﺍﮎ ﭘﻞ ﺑﺮﺍﺑﺮ ﺑﻦ ﮐﮯ
ﺻﺪﯾﺎﮞ ﺑﯿﺖ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﯿﮟ
ﮐﺒﮭﯽ ﺍﮎ ﭘﻞ ﺑﺘﺎﻧﮯ ﻣﯿﮟ
ﺯﻣﺎﻧﮯ ﺑﯿﺖ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﮐﺒﮭﯽ ﺍﮎ ﭘﻞ ﻣﯿﮟ ﭨﻮﺗﮯ
ﮨﯿﮟ ﺳﺒﮭﯽ ﻭﮦ ﭘﯿﺎﺭ ﮐﮯ
ﺭﺷﺘﮯ
ﻭﮦ ﺟﻮ ﺭﺷﺘﮯ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﻣﯿﮟ
ﺯﻣﺎﻧﮯ ﺑﯿﺖ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ

Sunday, June 14, 2015

یہ میری غزلیں یہ میری نظمیں

یہ میری غزلیں یہ میری نظمیں
تمام تیری حکایتیں ہیں ......
یہ تذکرے تیرے لطف کے ہیں
یہ شعر تیری شکایتیں ہیں
میں سب تیری نذر کر رہا ہوں
یہ ان زمانوں کی ساعتیں ہیں
جو زندگی کے نئے سفر میں
تجهے کسی وقت یاد آئیں
تو ایک اک لفظ جاگ اٹهے گا
پہن کے انفاس کی قبائیں
اداس تنہائیوں کے لمحوں
میں ناچ اٹهیں گی یہ اپسرائیں
مجهے ترے درد کے علاوہ بهی
اور دکه تهے یہ جانتا ہوں
ہزار غم تهے جو زندگی کی
تلاش میں تهے یہ مانتا ہوں
مجهے خبر تهی کہ تیرے آنچل میں
درد کی ریت چهانتا ہوں
مگر ہر اک بار تجه کو چهو کر
یہ ریت رنگ حنا بنی ہے
یہ زخم گلزار بن گئے ہیں
یہ آہ سوزاں گهٹا بنی ہے
یہ درد موج صبا ہوا ہے
یہ آگ دل کی صدا بنی ہے
اور اب یہ ساری متاع ہستی
یہ پهول یہ زخم سب تیرے ہیں
یہ دکه کے نوحے یہ سکه کے نغمے
جو کل میرے تهے وہ اب تیرے ہیں
جو تیری قربت ----- تیری جدائی
میں کٹ گئے روز و شب تیرے ہیں
وہ تیرا شاعر تیرا مغنی
وہ جس کی باتیں عجیب سی تهیں
وہ جس کے جینے کی خواہشیں بهی
خود اس کے اپنے نصیب سی تهیں
نہ پوچه اس کا کہ وہ دیوانہ
بہت دنوں کا اجڑ چکا ہے
وہ کوہکن تو نہیں تها لیکن
کڑی چٹانوں سے لڑ چکا ہے
وہ تهک چکا تها اور اس کا تیشہ
اسی کے سینے میں گڑ چکا ہے.
احمد فراز

ابھی کچھ دن لگیں گے

ابھی کچھ دن لگیں گے
دل ایسے شہر کے پامال ہو جانے کا منظر بھولنے میں
ابھی کچھ دن لگیں گے
جہان رنگ کے سارے خس و خاشاک
سب سرو صنوبر بھولنے میں

ابھی کچھ دن لگیں گے

تھکے ہارے ہوئے خوابوں کے ساحل پر
کہیں امید کا چھوٹا سا اک گھر بنتے بنتے رہ گیا ہے
وہ اک گھر بھولنے میں

ابھی کچھ دن لگیں گے

مگر اب دن ہی کتنے رہ گیۓ ہیں
کسی دن دل کی لوح منتظر پر اچانک
رات اترے گی .. ...
میری بے نو آنکھوں کے خزانے میں چھپے
ھر خواب کی تکمیل کر دے گی
مجھے بھی خواب میں تبدیل کر دے گی
اک ایسا خواب جس کا دیکھنا ممکن نہیں تھا
اک ایسا خواب جس کے دامن صد چاک میں
کوئی مبارک کوئی روشن دن نہیں تھا
ابھی کچھ دن لگیں گے

Friday, June 12, 2015

جب درد بھرے ہے دھڑکن میں

جب درد بھرے ہے دھڑکن میں
اور آنکھیں ساون بھادوں ہوں
پھر یوں بھی تو جینا پڑتا ہے
ہر زخم چُھپانا پڑتا ہے
ہنس ہنس کے دِکھانا پڑتا ہے
اِک آگ سی دل میں لگتی ہے
ہر آن سُلگنا پڑتا ہے
دُنیا کے ریت رواجوں پر
اس دل کو مِٹانا پڑتا ہے
رسموں کو نِبھانا پڑتا ہے
سینے میں سُلگتے ہیں ارماں
ارمانوں کی زندہ قبروں پر
ہر خواہش نوحہ پڑھتی ہے
پر جی کے دِکھانا پڑتا ہے
اشکوں کو چھُپا کر آنکھوں میں
گھُٹ گھُٹ کے سسکنا پڑتا ہے
جیون کے ادھور ے سپنوں کو
دل میں ہی سُلانا پڑتا ہے
ایسے بھی تو جینا پڑتا ہے
ہر زہر کو پینا پڑتا ہے
مجبوراً جینا پڑتا ہے
افسوس کہ جینا پڑتا ہے

دل، توڑا نہیں کرتے

سنو۔۔۔
ایسا نہیں کرتے!!!
ہزاروں پل تمہارے بن،
نہ پوچھو کیسے کٹتے ہیں۔۔
کبھی یادیں رلاتی ہیں،
کبھی موسم ستاتے ہیں،
اسے کہہ دو، ہم آئے ہیں۔۔
ہمیں مایوس نہ کرنا،
ہمارا مان رکھ لینا،
ہمیں واپس نہیں جانا،
ہمیں دل میں بسا لینا،
ہمیں اپنا بنا لینا،
بہت تڑپے ہوئے دل سے۔۔
بہت روٹھا نہیں کرتے،
محبت تو عبادت ہے،
اسے رسوا نہیں کرتے،
زمانے سے چھپاتے ہیں،
کبھی چرچا نہیں کرتے،
سنو، ایسا نہیں کرتے۔۔۔
دل، توڑا نہیں کرتے

روشنی مزاجوں کا کیا عجب مقدر ھے

روشنی مزاجوں کا کیا عجب مقدر ھے
زندگی کے رستے میں ۔ ۔ بچھنے والے کانٹوں کو
راہ سے ہٹانے میں
ایک ایک تنکے سے آشیاں بنانے میں
خوشبوئیں پکڑنے میں ۔ ۔ گلستاں سجانے میں
عمر کاٹ دیتے ھیں
عمر کاٹ دیتے ھیں
اور اپنے حصے کے پھول بانٹ دیتے ھیں
کیسی کیسی خواہش کو قتل کرتے جاتے ھیں
درگزر کے گلشن میں ابر بن کے رہتے ھیں
صبر کے سمندر میں ۔ ۔ کشتیاں چلاتے ھیں

یہ نہیں کہ ان کو اس روز و شب کی کاہش کا
کچھ صلہ نہیں ملتا
مرنے والی آسوں کا ۔ ۔ خون بہا نہیں ملتا

زندگی کے دامن میں ۔ ۔ جس قدر بھی خوشیاں ھیں
سب ھی ھاتھ آتی ھیں
سب ھی مل بھی جاتی ھیں
وقت پر نہیں ملتیں ۔ ۔ وقت پر نہیں آتیں

یعنی ان کو محنت کا اجر مل تو جاتا ھے
لیکن اس طرح جیسے
قرض کی رقم کوئی قسط قسط ہو جائے
اصل جو عبارت ھو ۔ ۔ پسِ نوشت ھو جائے

فصلِ گُل کے آخر میں پھول ان کے کھلتے ھیں
ان کے صحن میں سورج ۔ ۔ دیر سے نکلتے ھیں

Tuesday, June 9, 2015

بارہواں کھلاڑی

خو شگوارموسم میں
ان گنت تماشائی
اپنی اپنی ٹیموں کو
داد دینے آتے ہیں
اپنے اپنے پیاروں کا
حو صلہ بڑ ھا تے ہیں
میں الگ تھلگ سب سے
با رہویں کھلا ڑی کو
ہوٹ کر تا رہتا ہوں
بارہواں کھلاڑی بھی
کیا عجب کھلا ڑی ہے
کھیل ہو تا رہتا ہے
شور مچتا رہتا ہے
داد پڑ تی رہتی ہے
اور وہ الگ سب سے
انتظار کرتاہے
ایک ایسی ساعت کا
ایک ایسے لمحے کا
جس میں سانحہ ہوجائے
پھر وہ کھیلنے نکلے
تالیوں کے جھر مٹ میں
ایک جملہ خوش کن
ایک نعرہ تحسین
اس کے نام پر ہوجائے
سب کھلا ڑیوں کے ساتھ
وہ بھی معتبر ہوجائے
پر یہ کم ہی ہوتاہے
پھر بھی لوگ کہتے ہیں
کھیل سے کھلاڑی کا
عمر بھر کا رشتہ ہے
عمر بھر کایہ رشتہ
چھو ٹ بھی تو سکتا ہے
آخری وسل کے ساتھ
ڈوب جانے والا دل
ٹو ٹ بھی توسکتاہے

:افتخار عارف

شام کے اجالوں میں

شام کے اجالوں میں
اپنے نرم ہاتھوں سے
کوئی بات اچھی سی
کوئی خواب سچا سا
کوئی بولتی خوشبو
کوئی سوچتا لمحہ 
جب بھی لکھنا چاہو گے
سوچ کے دریچوں سے
یاد کے حوالوں سے
میرا نام چھپ چھپ کر
تم کو یاد آئے گا
ہاتھ کانپ جائیں گے
شام ٹھہر جائے گی

وہ اب شہر دل میں ٹهہرتا نہیں ہے

ہوا اس سے کہنا
کہ اب شہر دل میں کوئی سا ہو موسم ٹهہرتا نہیں ہے
محبت کا یا بے قراری کا موسم
بهروسے یا بے اعتباری کا موسم
ہو بے چین رہنے یا کرنے کا موسم
یونہی بے سبب جینے مرنے کا موسم 
یا ہو ہجر میں آہیں بهرنے کا موسم
جدائی کے خدشوں سے ڈرنے کا موسم
وفاوں کا یا بے وفائی کا موسم
مروت کا یا کج ادائی کا موسم
یا پهر دلنشیں شعر کہنے کا موسم
شناسائی کے درد سہنے کا موسم
یا آیا ہو اشکوں کے بہنے کا موسم
یا تیرے خیالوں میں رہنے کا موسم
ہوا اس سے کہنا..
کوئی سا ہو موسم
وہ اب شہر دل میں ٹهہرتا نہیں ہے...!!
عــاطـف سـعـید

اک رت بھی نہ آئی پیار جیسی

اک شام ہے انتظار جیسی
اک یاد ہے یادِ یار جیسی
اک درد سے نخلِ جاں چراغاں
اک آگ سی ہے چنار جیسی
اک زخم گلاب سا کھلا ہے
اک دکھ کی چبھن ہے خار جیسی
اک نقش ہے وہم کی طرح کا
اک شکل ہے اعتبار جیسی
اک روپ کہ آئینہ تڑخ جائے
اک دھوپ رخِ نگار جیسی
اک راہ گزر ہے آسماں تک
اک کاہکشاں غبار جیسی
اک ہجر کا روگ عمر بھر کا
اک عمر کہ ہے ادھار جیسی
اک خواب کہ کچھ سمجھ نہ آئے
اک دھند ہے کوہسار جیسی
اک لعبتِ سنگ ، سر بہ زانو
اک زلف ہے آبشار جیسی
اک ساز لہو اگل رہا ہے
اک طرزِ فغاں ستار جیسی
اک شعلہ حسن جل بجھا ہے
اک آنکھ ہے شرمسار جیسی
اک شاخ پہ چپ اداس قُمری
اک نغمہ سرا ہزار جیسی
اک گیت پہاڑیوں کا جھرنا
اک چیخ لہو کی دھار جیسی
اک تیر کہ دل میں ہے ترازو
اک تیغ جگر کے پار جیسی
اک وعدہ دوست حرفِ عیسٰی
اک ساعتِ صبر دار جیسی
اک حلقہ رنگ طوق آسا
اک قوسِ قزح حصار جیسی
ایک ایک شعاع نوکِ نشتر
ایک ایک کرن کٹار جیسی
اک باغِ مراد اُجڑ رہا ہے
اک دھوم سی ہے بہار جیسی
اک عہد فرازؔ جی کے دیکھا
اک رت بھی نہ آئی پیار جیسی

ہم تجھے ایمان کہا کرتے تھے

ہم تجھے ایمان کہا کرتے تھے
آ کسی شام کسی یاد کی دہلیز پہ آ
عمر گزری تجھے دیکھے ہوئے بہلائے ہوئے
یاد ہے؟
ہم تجھے دل مانتے تھے
اپنے سینے میں مچلتا ہوا ضدی بچہ
تیرے ہر ناز کو انگلی سے پکڑ کر اکثر
نت نئے خواب کے بازار میں لے آتے تھے
تیرے ہر نخرے کی فرمائش پر
ایک جیون کہ تمناؤں کی بینائی سے
ھم دیکھتے تھکتے ہی نہ تھے
سوچتے تھے ایک چھوٹا سا نيا گھر
نيا ماحول محبت کی فضا
ھم دونوں
اور کسی بات پر تکیوں سے لڑائی اپنی
پھر لڑائی میں کبھی ہنستے ہوئے رو پڑنا
اور کبھی روتے روتے ہنس پڑنا
اور تھک ہار کے گر پڑنے کا مصوم خوش بخش خیال
یاد ہے؟
ہم تجھے سکھ جانتے تھے
رات ہنس پڑتی تھی بےساخته درشن سے تیرے
دن تیری دوری سے رو پڑتا تھا
یاد ہے؟
ہم تجھے جاں کہتے تھے
تیری خاموشی سے ہم مرجاتے
تیری آواز سے جی اٹھتے تھے
تجھ کو چھو لینے سے اک زندگی
آ جاتی تھی شریانوں میں
تھام لینے سے کوئی شہر سا بس جاتا تھا ويرانوں میں
یاد ہے؟
ہم تجھے ملنے کے لیے وقت سے پہلے پہنچ جاتے تھے
اور ملاقات کے بعد ہم بہت دیر سے گھر آتے
تو کہتے کہ ہمیں کچھ نہ کہو ہم بہت دور سے گھر آئے ہیں
اس قدر دور سے آئے ہیں کہ شاید ہی کوئی آ پائے
یاد ہے؟
ہم تجھے بھگوان سمجھتے تھے مگر کفر سے ڈر جاتے تھے
تیرے چھن جانے کا ڈر ٹھیک سے رکھتا تھا مسلمان ہمیں
آ کسی شام کسی یاد کی دہلیز پہ آ
تیرے بھولے ھوئے رستوں پہ 
لیے پھرتا ہے ایمان ہمیں
اور کہتا ہے کہ پہچان ہمیں
یاد ہے
ہم تجھے ایمان کہا کرتے تھے!
فرحت عباس شاہ

کہنے کو محبت ہے لیکن 

کہنے کو محبت ہے لیکن 
اب ایسی محبت کیا کرنی
جو نیند چرا لے آنکهوں سے
جو خواب دکها کر پهولوں کے تعبیر میں کانٹے دے جائے
جو غم کی کالی راتوں سے ہر آس کا جگنو لے جائے
جو خواب سجاتی آنکهوں کو آنسو ہی آنسو دے جائے
جو مشکل کردے جینے کو جو مرنے کو آسان کرے
وہ دل جو پیار کا مندر ہو وہ یادوں کو مہمان کرے
اب ایسی محبت کیا کرنی
جو عمر کی نقدی لے جائے اور پهر بهی جهولی خالی ہو
وہ صورت دل کا روگ بنے جو صورت دیکهی بهالی ہو
جو قیس بنادے انساں کو جو رانجها اور فرہاد کرے
اب ایسی محبت کیا کرنی جو خوشیوں کو برباد کرے
دیکهو تو محبت کے بارے ہر شخص یہی کچهہ کہتا ہے
سوچو تو محبت کے اندر اک درد ہمیشہ رہتا ہے
پهر بهی جو چیز محبت ہے کب ان باتوں سے ڈرتی ہے
کب ان کے باندهے رکتی ہے
جس دل میں اس کو بسنا ہو
یہ چپکے سے بس جاتی ہے
اک بار محبت ہوجائے 
پهر چاہے جینا مشکل ہو یا جهولی خالی رہ جائے
یا آنکهیں آنسو بن جائیں
یا رانجها اور فرہاد کرے
پهر اس کی حکومت ہوتی ہے
آباد کرے برباد کرے
اک بار محبت ہوجائے
کب ان باتوں سے ڈرتی ہے
کب ان کے باندهے رکتی ہے
جس دل میں اس کو بسنا ہو
یہ چپکے سے بس جاتی ہے

جس سمت بھی دیکھوں نظر آتا ہے کہ تم ہو

جس سمت بھی دیکھوں نظر آتا ہے کہ تم ہو۔۔
اے جانِ جہاں یہ کوئی تم سا ہے کہ تم ہو۔۔
یہ خواب ہے، خوشبو ہے، کہ جھونکا ہے، کہ پل ہے،
یہ دھند ہے، بادل ہے، کہ سایہ ہے کہ تم ہو۔۔
اس دید کی ساعت میں کئی رنگ ہے لرزاں،
میں ہوں کہ کوئی اور ہے، دنیا ہے کہ تم ہو۔۔
دیکھو یہ کسی اور کی آنکھیں ہیں کہ میری،
دیکھوں یہ کسی اور کا چہرہ ہے کہ تم ہو۔۔
یہ عمرِ گریزاں کہیں ٹھہرے تو یہ جانوں،
ہر سانس میں مجھ کو یہ لگتا ہے کہ تم ہو۔۔
ہر بزم میں موضوعِ سخن دل زدگاں کا،
اب کون ہے؟ شیریں ہے کہ لیلٰی ہے کہ تم ہو۔۔
اک درد کا پھیلا ہوا صحرا ہے کہ میں ہوں،
اک موج میں آیا ہوا دریا ہے کہ تم ہو۔۔
وہ وقت نہ آئے کہ دلِ زار بھی سوچے،
اس شہر میں تنہا کوئی ہم سا ہے کہ تم ہو۔۔
آباد ہم آشفتہ سروں سے نہیں مقتل،
یہ رسم بھی شہر میں زندہ ہے کہ تم ہو۔۔
اے جانِ فراز اتنی بھی توفیق کسے تھی،
ہم کو غمِ ہستی بھی گوارا ہے کہ تم ہو۔۔
۔۔
احمد فراز

میری زندگی تو فراق ہے

میری زندگی تو فراق ہے، وہ ازل سے دل میں مکیں سہی
وہ نگاہِ شوق سے دور ہیں، رگِ جاں سے لاکھ قریں سہی
ہمیں جان دینی ہے ایک دن، وہ کسی طرح ہو کہیں سہی
ہمیں آپ کھینچئے وار پر، جو نہیں کوئی تو ہمیں سہی
سرِ طور ہو سرِ حشر ہو، ہمیں انتظار قبول ہے
وہ کبھی ملیں، وہ کہیں ملیں، وہ کبھی سہی وہ کہیں سہی
نہ ہو ان پہ میرا جو بس نہیں، کہ یہ عاشقی ہے ہوس نہیں
میں انھی کا تھا میں انھی کا ہوں،وہ میرے نہیں تو نہیں سہی
مجھے بیٹھنے کی جگہ ملے، میری آرزو کا بھرم رہے
تیری انجمن میں اگر نہیں، تیری انجمن کا قریں سہی
تیرا در تو ہمکو نہ مل سکا، تیری رہگزر کی زمیں سہی
ہمیں سجدہ کرنے سے کام ہے، جو وہاں نہیں تو یہیں سہی
میری زندگی کا نصیب ہے، نہیں دور مجھ سے قریب ہے
مجھے اسکا غم تو نصیب ہے، وہ اگر نہیں تو نہیں سہی
جو ہو فیصلہ وہ سنائیے، اسے حشر پہ نہ اٹھایئے
جو کریں گے آپ ستم وہاں وہ ابھی سہی، وہ یہیں سہی
اسے دیکھنے کی جو لو لگی، تو نصیر دیکھ ہی لیں گے ہم
وہ ہزار آنکھ سے دور ہو، وہ ہزار پردہ نشیں سہی

اداس لڑکی

اداس لڑکی۔۔!
مجھے پتا ہے تمہیں ہے کیا غم،
ہو تم پریشاں۔۔
ہے اک خلش سی تمہارے دل میں
تمہاری مرضی ہے کس نے جانی۔۔؟
مجھے پتا ہے تمہاری یہ سوچ بھی بجا ہے
کہ تم سے پوچھا نہیں کسی نے۔۔
مگر بتاؤ۔۔؟
کبھی بغاوت بھی ہوسکی ہے۔۔؟
کبھی شکایت بھی ہوسکی ہے۔۔؟
جو تم سے بالکل قریب تر ہوں
عزیز تم ہو جنہیں بہت ہی
نہیں ہے شکوہ بجا بھی ان سے۔۔
ہو اپنے بابا کی چندا کومل
ہو اپنی ماں کی پری ہو گوہر
وہ جو بھی سوچیں تمہارے حق میں۔۔
درست سوچیں، بھلا ہی سوچیں۔۔
انہوں نے تم پر جوانی واری۔۔!
تمہاری خاطر ہے جاں جلائی۔۔!
وہ گود جس میں پلی بڑھی ہو۔۔
بھلا بغاوت بھی کیسے ہوتی۔۔؟
نہیں ہیں ٹالی جو ان کی باتیں
کیا ہے اچھا اداس لڑکی۔۔!
مگر سنو نا۔۔!
مجھے یہ اچھا نہیں لگے گا۔۔
کہ تم ہو رخصت اداس، بوجھل،
مری وجہ سے، مرے ہی کارن
مجھے تو کچھ بھی نہیں ہے ہونا۔۔
میں جی ہی لونگا کسی بھی صورت
اداس رہنا تمہارا ہر دم۔۔
نہیں مناسب ہے پیاری لڑکی۔۔!
اداسی چھوڑو۔۔!
ارے یہ دیکھو۔۔! بھلا یہ کیا ہے؟
یہ دیکھو میں مسکرا رہا ہوں۔۔
میں خوش ہوں بالکل، خفا نہیں ہوں۔۔
مری دعا ہے کہ خوش رہو تم۔۔!
سدا سلامت، سکھی رہو تم

ﺍﺏ ﺳﻤﺠﮫ ﻣﯿﮟ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ

ﺍﺏ ﺳﻤﺠﮫ ﻣﯿﮟ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ
ﭘﯿﺎﺭ ﮐﯽ ﮐﮩﺎﻧﯽ ﻣﯿﮟ
ﮐﺲ ﺟﮕﮧ ﭨﮭﮩﺮﻧﺎ ﺗﮭﺎ؟
ﮐﺲ ﺳﮯ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﻧﺎ ﺗﮭﯽ؟
ﮐﺲ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﭼﻠﻨﺎ ﺗﮭﺎ؟
ﮐﻮﻥ ﺳﮯ ﻭﮦ ﻭﻋﺪﮮ ﺗﮭﮯ
ﺟﻦ ﭘﮧ ﺟﺎﻥ ﺩﯾﻨﺎ ﺗﮭﯽ؟
ﮐﺲ ﺟﮕﮧ ﺑﮑﮭﺮﻧﺎ ﺗﮭﺎ؟
ﮐﺲ ﺟﮕﮧ ﻣﮑﺮﻧﺎ ﺗﮭﺎ؟
ﮐﺲ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﮩﺎﻧﯽ ﻣﯿﮟ
ﮐﺘﻨﯽ ﺩﻭﺭ ﭼﻠﻨﺎ ﺗﮭﺎ؟
ﮐﺲ ﻧﮯ ﭼﮍﮬﺘﮯ ﺳﻮﺭﺝ ﮐﮯ
ﺳﺎﺗﮫ ﺳﺎﺗﮫ ﮈﮬﻠﻨﺎ ﺗﮭﺎ؟
ﺍﺏ ﺳﻤﺠﮫ ﻣﯿﮟ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ
ﺍُﺱ ﻧﮯ ﺟﻮ ﮐﮩﺎ ﺗﮭﺎ ﺳﺐ
ﮨﻢ ﻧﮯ ﺟﻮ ﺳﻨﺎ ﺗﮭﺎ ﺗﺐ
* ﮐﺲ * ﻃﺮﺡ ﮨﻠﮯ ﺗﮭﮯ ﻟﺐ
ﮐﺲ ﻃﺮﺡ ﮐﭩﯽ ﺗﮭﯽ ﺷﺐ
ﮨﻢ ﻧﮯ ﺍﻥ ﺳﻨﯽ ﮐﺮ ﺩﯼ
ﺑﺎﺕ ﺟﻮ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﺗﮭﯽ
ﮐﺲ ﻗﺪﺭﻣﮑﻤﻞ ﺍﻭﺭ
ﮐﺲ ﻗﺪﺭ ﺍﺩﮬﻮﺭﯼ ﺗﮭﯽ
ﻭﮦ ﺟﻮ ﺍﮎ ﺍﺷﺎﺭﮦ ﺗﮭﺎ
ﺫﮐﺮ ﺟﻮ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﺗﮭﺎ
ﻭﮦ ﺟﻮ ﺍﮎ ﮐﻨﺎﯾﮧ ﺗﮭﺎ
ﺟﻮ ﺳﻤﺠﮫ ﻧﮧ ﺁﯾﺎ ﺗﮭﺎ
ﺍﺏ ﺳﻤﺠﮫ ﻣﯿﮟ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ
ﺟﺎﻥ ﮐﮯ ﮨﯽ ﺩﺷﻤﻦ ﺗﮭﮯ
ﺟﺎﻥ ﺳﮯ ﺟﻮ ﭘﯿﺎﺭﮮ ﺗﮭﮯ
ﮨﻢ ﺟﮩﺎﮞ ﭘﮧ ﺟﯿﺘﮯ ﺗﮭﮯ
ﺍﺻﻞ ﻣﯿﮟ ﺗﻮ ﮨﺎﺭﮮ ﺗﮭﮯ
ﺭﺍﮦ ﺟﺲ ﮐﻮ ﺳﻤﺠﮭﮯ ﮨﻢ
ﺭﺍﺳﺘﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ ﻭﮦ
ﻭﺍﺳﻄﮧ ﺩﯾﺎ ﺟﺲ ﮐﻮ
ﻭﺍﺳﻄﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ ﻭﮦ
ﮐﺲ ﻧﮯ ﺭﺩ ﮐﯿﺎ ﮨﻢ ﮐﻮ؟
ﮐﺲ ﻧﮯ ﮐﯿﻮﮞ ﺑﻼﯾﺎ ﺗﮭﺎ؟
ﺟﺲ ﮐﻮ ﺍﺗﻨﺎ ﺳﻤﺠﮭﮯ ﮨﻢ
ﮐﯿﻮﮞ ﺳﻤﺠﮫ ﻧﮧ ﺁﯾﺎ ﺗﮭﺎ؟
ﺍﺏ ﺳﻤﺠﮫ ﻣﯿﮟ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ
ﺍﺏ ﺳﻤﺠﮫ ﻣﯿﮟ ﺁﯾﺎ ﺟﺐ
ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺍﮐﺎﺭﺕ ﮨﮯ
ﺩﯾﺮ ﺳﮯ ﺳﻤﺠﮫ ﺁﺋﯽ
ﺍﯾﺴﯽ ﺍﮎ ﺑﺠﮭﺎﺭﺕ ﮨﮯ
ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﮯ ﺑﮭﯿﺪﻭﮞ ﮐﻮ
ﮨﻢ ﻧﮯ ﺍﺏ ﺳﻤﺠﮭﻨﺎ ﺗﮭﺎ
ﺗﺐ ﺳﻤﺠﮫ ﺑﮭﯽ ﺁﺗﯽ ﺗﻮ
ﮨﻢ ﻧﮯ ﮐﺐ ﺳﻤﺠﮭﻨﺎ ﺗﮭﺎ
ﺁﻧﮑﮫ ﺟﺐ ﭘﮕﮭﻞ ﺟﺎﺋﮯ
ﺍﻭﺭ ﺷﺎﻡ ﮈﮬﻞ ﺟﺎﺋﮯ
ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﯽ ﻣﭩﮭﯽ ﺳﮯ
ﺭﯾﺖ ﺟﺐ ﻧﮑﻞ ﺟﺎﺋﮯ
ﺑﮭﯿﺪ ﺍﭘﻨﮯ ﺟﯿﻮﻥ ﮐﺎ
ﺗﺐ ﺳﻤﺠﮫ ﻣﯿﮟ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ
ﺳﺐ ﺳﻤﺠﮫ ﻣﯿﮟ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ